9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عارفہ مسعود عنبر، مرادآباد
چاندنی میں اوپر سے نیچے تک شرابور جذبات سے لبریز اشاروں اور کنایوں کی حسین اداؤں کے دلکش بیان کا اگر کوئی نام ہے تو وہ ہے شاعری ،اور جو شاعر اپنے شعروسخن اور فکروفن کو مثبت انداز میں تعمیر حیات،تطہیر ذات اور تغیر کائنات کے رحمانی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر استعمال کرتا ہے تمہید الرحمن کے لقب سے سرفراز ہوتا ہے شاعری میں حسن بھی ہے اور عشق بھی حسن ایسا جس کو دیکھتے رہ جائیں اور عشق ایسا جسے سوچتے رہ جائیں،خوشبوؤں کو سانسوں میں اتار لینے اور پھر اسے فضا میں بکھیر دینے کا نام شاعری ہے دنیاوی عشق کو مالک حقیقی سے ملا دینے کام یعنی عشق مزاجی کو۔ عشقِ حقیقی میں تبدیل کر دینے کے خوبصورت احساس کا کام اتنا آسان نہیں ہے لیکن شاعری نے اس مشکل ترین کام کو بخوبی انجام دیا ہے وفا شعار جذبات میں غرق الفاظ جس شاعر کی شاعری کا سرمایہ بن جاتے ہیں اس شاعر کو اپنے تعارف میں سوائے اپنے اشعار کے کسی تمہید کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں جہاں اس کا کلام پہنچتا ہے وہاں وہاں امواج وفا جنم لیتی ہے اور غنائیت کے دریا کو زندگی عطاء کرتی ہے،
شہرستان جگر میں اردو کے متعدد عظیم شاعر اور ادیب
پیدا ہؤے ہیں جنہوں نے یہاں کی سرزمین کو اپنی تخلیقی بصیرت سے سیراب وشاداب کیا ہے مرادآباد کی سر زمین اردو زبان اور ادب کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے جس نے جگر ،قمر ،کیف ، جیسے لافانی شعراء کو جنم دیا شہر جگر سے تعلق رکھنے والے اور دبستانِ نظر شادانی کے تربیت یافتہ خوش فکر ،خوش خیال اور شیریں مقال شاعر جناب راز شادانی صاحب ایسی ہی اخلاقی قدروں کے امین اور تہذیبی روایتوں کے نقیب شاعر ہیں جو انسانی تہذیبی قدروں کے پاسدار اور بشری ثقافت کے علمبردار ہیں راز صاحب نے صرف قافیہ پیمائی کے ذریعے محبوب کے لب و رخسار کی ستائش نہیں کی بلکہ ضمیر کے حوالے اخلاق اور کردار کے وسیلے سے اپنے فکروفن اور قرطاس و قلم کو کردار سازی اور سیرت آرائ کے مفید و مثبت مقصد۔ کے لیے جہاد زندگانی کے میدان میں بڑے خلوص اور عزم کے ساتھ جولانی دی ہے راز صاحب نے احساس کے فلک پر فکر کی قندیلیں روشن کی ہیں غزل کے لہجے میں گفتگو کرنے والا یہ شاعر جب حمد، نعت اور منقبت میں اپنی عقیدتوں کے موتی پروتا ہے تو پاکیزگی کی خوشبو ماحول میں بستی ہوئی محسوس ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں
ع:۔ ترا ذکر دل کا سکون ہے ،ترا ذکر ذکر عظیم ہے
میرا دل ہے تیری پناہ میں تو ہی میرے دل میں مقیم ہے
راز صاحب جب بارگاہ حسن حسین رضی اللہ تعالی عنھما میں حاضری دیتے ہیں ہیں تو عقیدت اور غم کی کی شعاعیں ان کے انداز کو اور زیادہ لہو لہان کر دیتی ہیں
ع:۔ حکم ہوجاتا تو یہ قہر خدا بنتی یزید
تو نے شبیر کی تلوار کو سمجھا کیا ہے
دراصل معاملہ دل سے کہنے کا ہے” دل سے جو بات نکلتی ہے ہے اثر رکھتی ہے” علامہ اقبال کے اس مصرعے کو ہی اگر کسوٹی مان لیا جائے تو حمد، نعت، منقبت، تک ہی بات نہیں پہنچتی بلکہ غزل میں بھی مثبت فکر کا وجدان ہوتا ہے ، حوصلوں کی فراوانی ہوتی ہے جب اسی روشنی میں راز صاحب کی غزل کی گہرائی دیکھتے ہیں تو انکی غزل حوصلوں کی نقیب لگنے لگتی ہے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں
ع:۔۔ اپنے قدموں میں آنے نہ دیں لغزشیں
یہ تو مانا کہ کچھ گھٹ گئی ہے زندگی
ع: ہمت کا حوصلوں کا وفا کو خلوص کا
آئینہ زندگی کو دکھاتے تو آپ بھی
غزل اشاروں اور کنایوں میں گہرے اور سنجیدہ سراغوں سے پردہ کشائی کا کام کرتی ہے یا یوں کہنا غلط نہ ہوگا یہ عالی خیالات کو بہترین الفاظ میں پیش کرنے کا کام انجام دیتی ہے اس کی روشنی میں راز صاحب کا کلام پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ غزل سے آپ کا فطری لگاؤ ہے
ع: ہار مانی نہ حالات کچھ بھی رہے
غم کے طوفان میں ڈٹ گئی زندگی
راز صاحب اپنے پرخطر سفر زندگانی میں ہر قدم پر پیش آنے والے حادثات و سانحات کے مد مقابل راہ حق کے ایک مرد مومن اور میدان جہاد کے ایک مرد مجاہد کی طرح آگے بڑھتے ہیں اور جہادی زندگی میں کامیابی کامرانی اور شادمانی کے مکمل یقین اور پورے اعتماد کے ساتھ اعلان کرتے ہیں۔۔
ع۔جو حق کی راہ پر چلتا ہے اس مجاہد کو
سمندروں میں بھی رستہ دکھائی دیتا ہے
راز شادانی ایمان اور اعتماد مستحکم اور عمل پیہم کی برکت سے حوصلہ شکن حالات میں بھی اپنی غیور و با شعور قوم کی قومی غیرت کی طرف سے پرامید اور منتظر ہیں کہ ایک دن ان کا شعور خودی اور جذبہ خودداری ضرور بیدار ہوگا اور اس وقت کی ظالم قوموں اور جابر قوتوں کو انقلاب آفریں انجام سے آگاہ اور خبردار کرتے ہیں۔
ع: جب بھی اٹھے گی بدل دے گی زمانے کا نظام
ظالموں! تم نے میرے قوم کو سمجھا کیا ہے
ع: رنگ پر آئی جب خودی میری
جستجو خود میری ہوئی اس کو
اسی لیے زمانے کی تیزگامی اور تیزرفتاری کو دیکھتے ہوئے قوم کو فعال المتحرک اور باعمل اور سرکار کار بنانے کے لیے اسے دعوت حرکت صحت و عمل صبر مسلسل کی تلقین دیتے ہیں
ع: زمانہ تم سے بہت آگے جا چکا ہے راز
حیات نعت اپنی طرح تم بھی تیزگام کرو
راز شادانی کو یہ جذبہ حوصلہ ، ہمت وجرات، استقامت و استقلال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیارے نواسے شہید انسانیت آیت محافظ شریعت نمم پیکار سہال ال شہید اعظم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے حاصل ہوا ہے اس لیے راز صاحب زندگی کے ہر امتحان میں ان کی عظمتوں کا اظہار اس طرح کرتے ہیں ۔
ع : زخموں سے چور چور تھا سرکار کا بدن
لیکن شکست کھایا نہ کردار کا بدن،
ع: جرآت کا حوصلے کا اشارہ حسین کا
ظلمت کی روشنی کا منارہ حسین کا
راز صاحب صاحب عظمت انسانیت کے لئے انسانی صفات کو انسانیت کی زینت خیال کرتے ہیں اور انہیں انسان کے لئے فرض قرار دیتے ہیں اور نفرت و عداوت کی آندھیوں میں محبت کے چراغ روشن کرنے کی نہ صرف دعوت دیتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کے حوالے سے آئندہ نسلوں کے لیے بھی اپنے خالق و مالک سے دعا کرتے ہیں ۔۔
ع: ہیں لاکھ آندھیاں نفرت کی ہر طرف پھر بھی
چراغ پیار کے روشن ہر ایک گام کرو
راز صاحب اردو غزل میں حسن و عشق کی اس عرفانی و روحانی منزل کے قائل ہیں جہاں سے سودا کی طرح انہیں بھی دیدار یار کے لیے کوہ طور پر جانے کی ضرورت نہ ہو ہر جگہ اور ہر ذرہ میں اس کے دیدار کر لیں
ع: جہاں بھی دید کی کرتی ہیں آرزو آنکھیں
وہیں پہ حسن کا جلوہ دکھائ دیتا ہے
غرض یہ کہ راز شادانی صاحب کے کلام میں موجودہ دور کے تناظر میں حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے مثبت اور با مقصد شاعری کے تقاضوں کو پورا کرنے والے تمام اخلاقی و اصلاحی عناصر موجود ہیں ۔۔۔۔