9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
(تقدیس نقوی (دبئی
انسان کے لئے قدرت اگر سوشل میڈیاجیسی نعمت پہلے سے فراہم نہ کرتی تو کورونا جیسی مصیبت نازل کرنےکے لئے اسے ابھیمزید انتظار کرنا پڑتا.انسان کو دہلانے اور دہشت زدہ کرنے کا کام جتنی مہارت اورموثرطریقہ سے سوشل میڈیا کی سہولت انجام دے رہی ہے وہ تنہا ‘کورونا وائرس کے بس کا روگ نہ تھا.
ایک تو سوشل میڈیا کے مقابل ‘کورونا ‘ کی رفتارقدرے سست ہے. دنیا میں جس برقی رفتار سے سوشل میڈیاکے ذریعہ کورونا کی دہشت اور خوف پھیلانے کا کام کیا جارہا ہے کورونا خود اس دوڑ میں ابھی کافی پیچھے ہے.دنیا میں کورونا جیسے وائرس کے متعارف ہونے سے قبلسوشل میڈیا کے تحت ‘ وائرل کی اصطلاح اسی خاطر بہت پہلے سے ہی متعارف کرادی گئی تھی تاکہ سرعت رفتار میں کوئی اور وائرس اس سے بازی نہ مار لے جائے.مشہور و معروف حضرات ان سے متعلق کسی سنسنی خیز خبر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے سے جتنے خوف زدہ رہتے ہیں اتنے کورونا سے بھی نہیں ہوتے. یہدیگر بات ہے کہ دونوں ہی کے شکار لوگوں کو دنیا سے اپنا منہ چھپانا پڑتا ہے. اک وقت کو منہ چھپاکرکورونا وائرس سے تو پھر بھی بچا جاسکتا ہے مگر سوشل میڈیا کے وائرل سے ہرگزنہیں. سوشل میڈیا کے وائرل سے بچاو کے لئے ابھی تک کوئی ماسک بنا بھی نہیں ہے.
کوروناکے مضراثرات سے متعلق جتنی معلومات سوشل میڈیا کے ذریعہ فراہم کرائی جارہی ہیں اتنی تو شاید خود کورونا کے پاس بھی نہیں ہونگی.سائنسداں اورمحقیقین حیران و پریشاں ہیں کہ آخر کورونا سے متعلق اتنی زیادہ معلومات ایسی کونسی کتابوں میں لکھی ہوئی تھیں جوانھیں یونیورسٹی میں بھی نہیں پڑھائی گئیں. کوئی لکھ رہا ہے کہ کورونا کا ذکر مقدس آسمانی کتابوں میں پہلے سے موجود تھا بس وقت کا تعین ہونا باقی تھا سواب وہوقت آگیا ہے. یہ خبریں سن سن کراگر کوئی شخص کورونا سےابھی تک متاثرنہیںبھی ہوا ہے وہ بھی بغیر ٹیسٹ کرائے ہوئے ہی خود کو اس موذی وباء میں مبتلاء ہوجانے کا احساس کرتے ہوئے چادر تان کر لیٹ جاتا ہے. کمزوراعصاب کے بہت سے لوگ توسوشل میڈیا کے ایسے میسیج پڑھتے ہیاپنا گلا پکڑ کر کھانسنے کھانستے اپنا وصیت نامہ لکھوانے بیٹھ جاتے ہیں.
یہ صرف سوشل میڈیا ہی کو اختیار ہے کہ کورونا کو جب چاہے اک بہت خطرناک اورلاعلاج وبا ثابت کردے اور جب چاہے اسے معمولیکھانسی زکام گردانتے ہوئے ملیٹھی چبواکر اس کا دائمی علاج تجویز کرادے. یہ سوشل میڈیا کہ کرامات سے ہی ممکن ہے کہ غریب لوگوں کو یہ اطمینان دلادیا جائے کہ انھیں کورونا سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے. کورونا صرف امیروں اور صاحب اقتدار لوگوں سے ملاقات کرنے کا مشتاق رہتا ہے ورنہ بڑے بڑے ملکوں کے سربراہان اس کی زد میں نہ آتے. غریبوں سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے. یوں بھی بھوک و افلاس سے پہلے سے مرتے غریب کو کورونا اور کیا ماریگا. لہذا آپ فی الحال تھالی یا تالی بجاکرمگن رہو. رہا گھر میں بند رہنے کا سوال تو یہ ہدایات تو ان کے لئے دی جارہی ہیں جن کا کوئی گھر ہوگا. آپ لوگ سڑکوں پر پہلے بھی مرتے رہے ہیں.اب کورونا سے مرجائیں گے تو کون سی قیامت آجآئیگی.
صدیوں بعد کوروناجیسے کسی وائرس کو اپنی حشرسامانی اور موت کی خبر رسانی کرنے میں حاصل ہوئی اس بے مثالکامیابی کے لئے سوشل میڈیا کا مرہون منت اور شکرگذار ہونا چاہئے جس کے طفیل آج پوری دنیا میں ہر طرف اس کے ہی نام کا ڈنکا بج رہا ہےورنہ سوشل میڈیا کے بغیرتو کورونا کو کوئیاپنے منہ بھی نہ لگاتا. سوشل میڈیا کوبھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ لوگ سانپ کے زہر سے زیادہ سانپ کی دہشت سے مرتے ہیں. اسی لئے کورونا کے مقابل سوشل میڈیا کے مارے ہوئے حضرات کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے. ماضی میں دنیا میںپھیلے وہ وائرس کتنے بدنصیب تھے جنھیں اس وقت سوشل میڈیا جیسی سہولت میسر نہ ہونے کے سبب وہ شہرت اور قبولیت نہ مل سکی جو آج کوروناجیسے وائرس کو میسر ہے.مستقبل میں لکھی جانے والی اس دور کی تاریخ میں عوام میں تیزی سے خوف و حراس پھیلانے کا سہرا کورونا سے پہلے سوشل میڈیا کے سر ہی باندھا جائیگا. کورونا کے اس قہر کے دوران آج کل جاری لاک ڈاؤن کے باوجود بھیجب ہم نے میر صاحب کو محلے کے نکڑ سے منہ لٹکائے ہوئے واپس آتے ہوئے دیکھا تو دل بڑا گھبرایا اور برے برے وسواس پیدا ہونے لگے. بغیرضرورت باہر نکلنے والوں پرپولیس کی ‘مہربانیاں’ ہم اپنی بالکنی سے چھپ چھپ کر دیکھتے رہے ہیں. کل ہی اک پولیس آفیسر سڑک پر جاتے ہوئے اک شخص سے پوچھ رہا تھا:
” کہاں جارہا ہے معلوم نہیں کرفیو لگا ہوا ہے؟”
وہ بے چارہ اپنے ہاتھ پیچھے کی جانب کرکے سہلاتے ہوئے کہنے لگا :
” کرفیو لگنے کا پتہ تو پچھلے چوراہے پر ہی لگ گیا تھا اب تو آئیو ڈیکس Iodexلینے جارہا ہوں”
ہمارے دریافت کرنے پرمیر صاحب بتانے لگے : ” بس جناب خاکسار ضروریات زندگی اورحفظان صحت کے لئے کچھ اہم لوازمات خریدنے کی نیت سے چوراہے کی جانبآگے بڑھا ہی تھا تووہاںاک جم غفیرکھڑا پایا.
” آپ یہ جانتے ہوئے بھی کہاس طرح گھر سے باہر نکلنا جان کے لئے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے باہر نکلے. جبکہ ہرطرف پولیس اپنی کاروائی بہت خوش اسلوبی سےکررہی ہے. پولیس کی ‘خوش اسلوبی کی لمبائی سے تو آپ واقف ہی ہونگے. آپ ایسی کون سی ضروری اشیاء خریدنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے جن کے بغیر آپ کا گذارہ مشکل ہورہا تھا؟” ہم نے میرصاحب سے انکی اس لاپرواہی کا سبب جاننے کی کوشش کی.
” بھئی بیگم کے پیہم اصرار پر انکے روز مرہ کے استعمال کی مختلف انواع کی کریمیں اور ہیر ڈائی لینے کے لئے نکلے تھے. آپ تو جانتے ہیں انکے بغیر بیگم اور ہمارا دونوں کا گذارہ کرنا کتنا مشکل ہے . کھانے پینے کی اشیاء تو فلاحی انجمنوں کے لوگ روزانہ گھر پردے ہی جاتے ہیں. معلوم نہیں یہ فلاحی انجمنیں بیگمات کی کریموں کی فراہمی کی جانب سےاتنی لاپرواہی کیوں برت رہی ہیں. کیا ان لوگوں میں شادی شدہ حضرات نہیں ہوتے ؟ ان کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ انسان بغیر کچھ کھائے تو کچھ وقت زندہ رہ سکتا ہے مگر بیگم کی کریم کے بغیر ایک لمحہ سانس لینا بھی عذاب جاں ہوتا ہے” میر صاحب وضاحت کرنے لگے.
” میرصاحب آپکی بیگم کا گذارہ نہ ہونے کی بات تو سمجھ میں آسکتی ہے مگر آپ کا گذارہ ؟ ” ہم نے میر صاحب سے سیدھا سوال کیا.
” حضوربیگم کے ساتھ انکی اصلی حالت میں ایک لمحہ گذارنے سے بہتر تو کورونا کے ساتھ کسی ہسپتال میں جاکر کوارنٹائن ہونا ہی ہے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن ” میر صاحب اپنی صفائی دیتے ہوئے بولے.
“کیونکہ پولیس اس وقت قریب ہیجاری ایک لنگر کی اور اپنے پیٹ کی خبرگیری کرنے کے لئے مصروف تھی اس لئے چوراہے پرکئی سو لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی تھی. عجب افراتفری کا عالم تھا. اسبھیڑ کے آدھے لوگ اس بات پر مصر تھے کہ کورونا ایک وبائی مرض ہے جو ایک دوسرے سے لگ کر پھیل رہا ہے اس لئے ان سب کو شہر کے اسپتال کی جانب جانا چاہئے. جبکہ آدھی بھیڑ اس بات پہ بضد تھی کہ کورونا قہر الہی ہے اس لئے انھیں شہرمیں ائے ہوئے ایک بڑے پہنچے ہوئے بابا سے کوئی گنڈا تعویذ کرانا چاہئے. اسی کشمکش میں لوگ وہاں ‘سوشل ڈسٹینسنگ کا احترام کرتے ہوئے وہاں جمع تھے.”
” مگران لوگوں کو آخر یہ سب معلومات دے کون رہا ہے ؟ ” ہم نے میر صاحب سے استفسار کیا.
“سوشل میڈیا اور کون ” میر صاحب جھٹ سے بولے.
پھر کہنے لگے:” صبح آنکھ کھلنے سے پہلے ہی ایک واٹس اپ گروپ میں میسیج آیا:
” آج شام پانچ بجے سب لوگ اپنی اپنی چھتوں پر اکھٹا ہوجائیں. پانچ بج کر پانچ منٹ پر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف سیدھے اٹھائیں اور تب تک اٹھائے رہیں جب تک ہمارا نیا میسج نہ آجائے ”
” آدھے منٹ کے بعد گھنٹی پھر بجتی ہے دوسرا میسیج اتا ہے : ” آج رات دس بجے سے پہلے اپ اپنی ساری کھڑکیاں دروازے اچھی طرح سے بند کرلیں . کورونا باہرگھوم رہا ہے. صدقہ جاریہ سمجھ کر اس میسج کو وائرل کریں”
میر صاحب واٹس اپ میسیجیس کی شکایات کرتے ہوئے بیگم کی کریمیں اٹھائے اس وقت تو اپنےگھر چلےگئے مگرشام ڈھلتے ہیپھر آدھمکے. ہمارے کچھ پوچھنے سے پہلے انھوں نے موبائیل نکال کر ایک واٹس اپ میسیج پڑھنا شروع کردیا ” دوسو گرام اجوائن کو گرم پانی کے ساتھ… ”
میر صاحب ہاتھ میں اٹھائے اک برتن دکھا کر کہنے لگے : ” علی االصبح آئے ایک میسیج کے مطابق ہم نے اس میں پیاز’ لہسن’ ادرک اور لیمو کا عرق ملا کر تیار کرکے رکھا ہی تھا کہ دوسرا میسیج اگیا کہ اس میں ہلدی کی آمیزش سے کورونا کا دائمی علاج کیا جاسکتا ہے. ابھی ہلدی کا پاوڈر تلاش ہی کررہے تھے کہ نیا میسج ملا کہ ہلدی کی جگہہ کلونجی ڈالی جائے”
میر صاحب اپنے واٹس گروپس سے بہت نالاں نظر آرہے تھے.
” اس سلسلے میں ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟” ہم نے میرصاحب سے پوچھا.
” کچھ دیر قبل ایک میسیج کے ذریعہ ہدایت دی گئی ہے کہ اجوائن کو گرم پانی کے ساتھ لینے سے کورونا قریب بھی نہیں پھٹکے گا. پوری کالونی میں کسی کے پاس اجوائن نہیں مل رہی ہے.حکومت کو چاہئے تھا کہ ماسک کے ساتھ اجوائن بھی عوام میں بٹوادیتی. اب بتائے کرفیو میں آدمی کہاں سے اجوائن کا بندوبست کرے . اپ اگرتھوڑی اجوائن کا بندوبست کرادیں تو.. ” میرصاحب گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگے.
” میرصاحب ان سب چیزوں کو چھوڑئیے . ہمارے پاس کورونا بھگانے کا ایک آزمودہ تعویذ ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس تعویذ کو گھر میں رکھنے کے بعد گھر کا کوئی فرد تین ہفتے تک گھر سے باہرنہیں جاسکتا” ہم نے میر صاحب کو اپنے طریقہ سے تجویز پیش کی.؎
” وہ تو ٹھیک ہے مگر ہماری بیگم کے لئے اب ایسا کرنا مشکل ہوگا. وہ اب پارلر جائے بغیر ایک پل بھی گھر میں نہیں رہ سکتیں .کل ہی کی بات ہے. ہماری پڑوسن نے دستک دی تو بیگم نے دروازہ کھولا. پڑوسنہماری بیگم سےکہنے لگی بھائی صاحب ‘ بیگم صاحبہ کو بھیج دیجئے” ۔۔۔٭٭