9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد ارشد کسانہ
آدھی رات گزر چکی تھی اور دادی کی لمبی کہانی کا خاتمہ ان جملوں پر ہوا ۔ ’’جمانے سے گجرنا تھا ،پریوں سے اسے ملنا تھا اور وہ ملا ۔میرے ہجارمنع کرنے پر بھی وہ انسونی کرتا تھا، آخر کیا ملا اسے ۔۔۔۔۔۔ پھر وہ کبھی لوٹ کر نی آیا۔قبربھی دیکھنا نصیب نی ہوئی ۔ اور ہمار آنکھیں ہیں کہ اس کی راہ آج بھی تکتی رہتی ہیں۔‘‘پھر دادی کی آنکھیں اشکوں سے بھر جاتی اور وہ گھٹنوں میں اپنا منہ چھپا ئے بلک بلک کر روتی ۔ گھر کے سارے فرد دادی کے یوں رونے سے بے قرار ہوجاتے مگر کوئی ہمت نہیں کر پاتا کہ آگے بڑھ کر دادی کو چپ کرا پائے۔ کافی دیر تک دادی کے رونے اور باقی افراد کا با خیرت اور اداس بیٹھنے کایہ سلسلہ یوں ہی قائم رہا ۔ پھر کچھ عجیب سی ہوا نے گھر میں دستک دی کہ خوف اور مہک سے پورا گھر کھل گیا ۔ پھر ناجانے کب نیند نے ان سب کو ایک ایک کرکے اپنی آغوش میں لے لیا کسی کو کچھ پتہ ہی نہ چلا ۔
صبح کو جب اٹھے تو ہوش سب کے ٹھکانے تھے مگر رات کی کہانی ہر ایک کے ذہن میں ہلچل سی مچا رہی تھی ۔ معمول کے مطابق سب نے ناشتہ کیا اور پھر سے دادی کے کمرے میں داخل ہوگئے ۔ دادی کے چہرے پراس وقت مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی ۔ سب کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر اور خوش ہوگئی اور ’’آئو میرے بچو ! آرام سے بیٹھی جائو‘‘ کے جملے سے سب کو خوش آمدید کہا ۔ سب خالی جگہ دیکھ کر کہیں نہ کہیں بیٹھ گئے اور دادی اپنی جگہ بیٹھے سب کے چہرے پڑھنے لگی ۔ کچھ دیر تک خاموشی یوں ہی قائم رہی ۔ دادی نے ایک ایک کرکے سب کے چہروں کا غور سے جائزہ لیا نتیجاً سب کے ہاں اداسی ہی دکھائی دی ۔ ’’یہ سب کے منہ اداس کیوں لگتے ہیں ؟‘‘ دادی نے اجتماعی طور پر سوال کیا ۔ اس سے پہلے کہ کوئی جواب ملتا نوکر نے دروازے پر دستک دی ’’دادی اماں ! باہر پولیس آئی ہے ‘‘ نوکر نے دروازے سے ہی اپنی بات کہی ۔دادی نے حیرانگی سے نوکر کو دیکھا ۔’’پولیس کیوں ؟ ‘‘ دادی نے اسی لہجے میں نوکر کو سوال کیا۔ ’’پتہ نہیں ‘‘ نوکر نے جواب دیا ۔ ’’ٹھیک ہے ان کو اندر بلائو‘‘ یہ کہتے ہی دادی نے سب کو رخصت کیا اور باہر آنے کو تیار ہونے لگی ۔ کپڑے درست کئے اور سر پر ڈپٹہ دینے کے بعد وہ کمرے سے باہر آئی۔چار پولیس والوں کو سامنے بیٹھے دیکھ کر وہ کچھ حیران سی ہوگئی۔ گھر کے باقی افراد بھی وہیں موجود تھے ۔ دادی کے پوتے انام نے پولیس سے اپنی دادی کو متعارف کروایا۔ دادی آہستہ سے ایک کرسی پر بیٹھ گئی ۔ ’’ ہم پچھلے ایک سال سے آپ کے بیٹے ابوبکر کے گم ہونے کی تحقیق کر رہے ہیں مگر آج تک کوئی ثبوت ہاتھ نہیں لگا ۔ ہماری تحقیق میں انام صاحب کی خاص مدد رہی ۔ اب ان ہی کے کہنے پر ہم نے اس گھر میں دستک دی ہے ۔ اگر یہاں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا تو ہمیں یہ کیس بند کرنا پڑے گا ۔ اس لئے آپ سے گذارش ہے کہ جوجو سوالات پوچھے جائیں ان کا صحیح سے جواب دیں ۔‘‘ انسپکٹر نے غیر جانبدارانہ انداز میں پورا مسلہ سامنے رکھا ۔
’’ کیوں کھوج کر رہیں آپ ؟ جب کہ سب کو پتہ ہے کہ ان کو پریوں نے مار ڈالا ہے ‘‘دادی نے مشورہ دیا
انام ۔ ’’ اس دور میں پریوں کو کون مانتا ہے دادی! وہ ضرور کسی سازش کا شکار ہوئے ہیں ‘‘
دادی۔’’ اگر ایسا ہے تو اس کی لاس کیوں نی ملی آج تک ۔ایک سال تک آپ لو گوں نے کیا کھوج کی ہے ۔ہمیں تو اتنا پتہ بھی نی لگ پایا کہ وہ کب ، کیسے ، اور کہاں سے گائب ہوئے ہیں ۔ کوئی اتہ پتہ ہے ہی نی ۔ اگر کسی انسان کی ساجس ہوتی تو کچھ نہ کچھ تو حاصل ہوتا ۔‘‘
انسپکٹر۔ ’’ یہ جو پریوں والی بات ہے یہ صرف آپ کے ذریعے عام ہوئی ہے ،اور تو کوئی کچھ نہیں کہتا اس بارے میں ،سب لوگ آپ ہی کا حوالہ دیتے ہیں ۔ پریوں کا کیا چکرہے اس پر ذرا بتایئے؟‘‘
دادی’’ ہمار پاس ثبوت تو نی مگر ہاں مجھے یقین ہے کہ یہ کام پریوں کا ہے ۔ ہمار داد اکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ ‘‘
انام ۔’’ دادی ہم بھی تو اسی گھر میں رہے ہیں آج تک کبھی پریوں کو نہیں دیکھا ۔ صرف آپ کے منہ سے ہی یہ سب سنا ہے ۔اگر آپ ان کا ذکر نہیں کریں گے تو یقینا پریوں کا وجود ہی اس گائوںسے ختم ہوجائے گا ۔‘‘
دادی ۔ ’’ تمہارکیا مطلب ہے کہ ہم اپنے بیٹے کو مارے ہیں؟‘‘
انام ۔ ’’ نہیں ! آپ صرف اتنا بتا دو کہ یہ پریاں کہاں رہتی ہیں ، ان کا وجود کہاں ہے۔‘‘
انسپکٹر ۔ ’’پریوں کے وجود کی کوئی جگہ تو ہوگی نا ! بس اس کی شناخت کروا دیجئے ہم کو ‘‘
دادی ۔ ’’ پریوں تک پہنچنا ہے تو کل ہی جمعہ رات ہے ، کل مگرب اور عسائکی نماج کے درمیان میرے ساتھ چلو لال گھاٹی کے پاس سارا منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔‘‘
انسپکٹر ۔ ’’ کیا آپ کبھی وہاں گئے ہو ؟ ‘‘
دادی ۔’’ نی ۔۔ ہاں مگر میں اس گھاٹی کے بارے میں بجرگوں سے سنتے آئی ہوں ۔‘‘
انسپکٹر ۔ ’’ تو ٹھیک ہے ہم کل ہی اس گھاٹی کا دورہ کریں گے ،اور اس کیس کا حل بھی کل ہی ہوگا۔ ان کی قبر کا تو کہیںنہ کہیں پتہ لگے گا ‘‘
یہ کہتے ہی پولیس والے رخصت ہوئے اور دادی نے غصے سے بھری آنکھوں سے انام کو دیکھا ۔ انام نے آج پہلی دفعہ دادی سے نظروں کا مقابلہ کیا ۔ ’’تمہیں کیا سک ہے رے ؟ ‘‘ دادی نے اسی طرح گھورتے ہوئے سوال کیا ۔ ’’ آپ کی رات والی کہانی کے پیچھے کوئی گہرا راز معلوم ہوتا ہے ‘‘ انام نے جواب دیا ۔
’’ کہانی پریوں کے بارے میں تھی ،اس کا مطلب یہ تو نی کہ میں اپنے بچے کے کتل کی داستان سنا رہی تھی ۔ ‘‘
’’ کوئی بات نہیں !۔۔۔ کل سب معلوم ہوجائے گا۔جب قبر مل جائے گی ‘‘یہ کہتے ہی انام نے نظریں جھکائیں اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔دادی کو ایک جھٹکا سا لگا مگر کسی کو احساس کچھ نہیں ہونے دیا ۔ وہ سارے بچوں سے بغیر کچھ کہے اپنے کمرے کی طر ف چلی گئی ۔
دوسرے دن شام کو وہی چار پولیس والے گاڑی لے کر آئے دادی اور انام کو ساتھ لیا اور لال گھاٹی کی طرف روانہ ہوگئے ۔ سورج ڈھل چکا تھا ،رات کا اندھیرا آہستہ آہستہ پورے علاقے پر چھا رہا تھا ۔ جوں جوں وہ جنگل کی گہرائی میں گھس رہے تھے اندھیرا اور گہرا ہوتا جا رہا تھا ۔کچی اور تنگ سڑک پر گھڈوں کی وجہ سے گاڑی اچھلتے ہوئے کافی تیز رفتار سے چل رہی تھی ۔ ارد گردھ پرندوں کی عجیب و غریب آوازیں خوف کا ماحول بنا رہی تھیں۔ کچھ ایک گھنٹے کے بعد گاڑی لال گھاٹی کے مقام پر پہنچ گئی ۔سارے لوگ گاڑی سے اترے اور آگے پیچھے کا جائزہ لیا ۔ مغرب کا وقت گزر چکا تھا اور عشا کے وقت میں ابھی وقت باقی تھا ۔ اپنے آپ کو سنبھالنے کے بعدسب نے دادی کی طرف دیکھا ۔ دادی نے ان کی طرف توجہ دیئے بغیر با آواز بلند اور ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’وہ دیکھو گھاٹی کے درمیان روشنی جلتی ہوئی ‘‘ سب نے پلٹ کر دیکھا ۔ گھاٹی کے بالکل درمیان گھنے اندھیرے میں عجیب قسم کی روشنی جل رہی تھی ۔ کبھی اس کا رنگ لال ہوجاتا ،کبھی سفید ،کبھی پیلا تو کبھی ہرا۔یہ نظارہ دیکھ کر سب لوگ حیران رہ گئے ۔پھر اسی حیرانگی کے عالم میں انہوں نے ایک بار پھر دادی کی طرف دیکھا۔’’جائو اور پریوں کو دیکھ کر تسلی کرلو۔‘‘دادی نے گاڑی کی طرف پلٹتے ہوئے کہا۔
پولیس والوں نے ٹارچ لگا کر اس سمت کی راہ کا جائزہ لیا ۔راستہ سخت کھاڑی تھا اور کانٹے دار گھنی جھاڑیاں اور پرندوں کا شور بھی ان کو خوف سے ورغلا رہا تھا ۔ مگر اس کے باوجود پولیس والے وہاں جانے کے لیے تیار ہوگئے ۔ انہوں نے انام کو بھی کہا مگر دادی نے اسے نہیں جانے دیا ۔ پولیس والے سخت اندھیرے اور گھنی جھاڑیوں کو چیرتے ہوئے روشنی کے قریب پہنچ گئے ۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے خوف کو بھگانے کے لئے دوچار فائر کیے مگر روشنی مسلسل جلتی رہی ۔ پھر آہستہ آہستہ وہ چاروں بڑی ہوشیاری سے روشنی کی طرف بڑھنے لگے ۔وہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے عجیب سی مہک پھیل رہی تھی ۔تھوڑی ہی دیر میں وہ روشنی کے پاس پہنچ گئے ۔روشنی کا کوئی وجود نہیں تھا مگر ایک شعلہ سا خلا میں چمک رہا تھا ۔اس کے پیچھے ایک گہری غار تھی جہاں سے مہک نمودار ہو رہی تھی ۔انسپکٹر نے غار کو دیکھ کر ایک بار پھر ہوا میں فائر کیا ۔فائر کی آواز سے پرندوں نے شور مچایا اور پھڑ پھڑ اتے ہوئے جھنڈ کی صورت میں گھاٹی کی چوٹی تک چلے گئے ۔ انسپکٹر نے دو آدمیوں کو اندر جانے کا اشارہ کیا ۔انہوں نے حکم کی تعمیل کی ۔ کچھ دیر بعد سارے پولیس والے اندر گھس گئے ۔ اندر سے یہ کافی بڑی غار تھی مگر پوری خالی پڑی تھی ۔ انہوں نے غور سے جائزہ لیا مگر کوئی بھی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے اندازہ ہو کہ یہاں کوئی رہتا ہے ۔بس وہاں کی مہک اور روشنی ہی ایسی چیزیں تھیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ کسی قدرتی طاقت کا یہاں قبضہ ہے ۔انسپکٹر کو جب یقین آگیا تو اس نے تین دفعہ با آواز بلند کہا ’’ہمیں ابو بکر کی تلاش ہے ، اس کی قبر کا کوئی اشارہ چاہئے ‘‘ مگر جواب نا دارد ۔کافی غور و فکر کے بعد جب کچھ حاصل نہیں ہوا اور جب عشا کا وقت بھی قریب آ گیا تو پولیس والے واپس پلٹ آئے ۔
خوف سے ان کے چہروں کے رنگ اڑے ہوئے تھے ، آنکھیں سب کی کھوئی کھوئی سی لگ رہی تھیں ،گفتگو کا سلسلہ نا جانے کب سے ٹوٹا ہوا تھا ۔وہ جیسے ہی گاڑی کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے ادھر ادھر دیکھے بغیر گاڑی اسٹارٹ کی اور ہوا کی رفتار سے چلنے لگے ۔ جو سفر ایک گھنٹے میں طے کیا جاتا تھا وہ آدھے گھنٹے میں ختم ہوگیا ۔ دادی کے گھر کے قریب گاڑی رکی اور انسپکٹر آگے سے اترا ،اس نے اسی اداسی اور خاموشی سے پچھلی باری کھولی ۔ دادی اور انام گاڑی سے باہر آئے اور کسی مناسب جواب کی جستجو کو آنکھوں میں لئے خاموشی سے انسپکٹر کو گھورنے لگے ۔ کچھ دیر انسپکٹر خوف زدہ کھڑا ہی رہا پھر اس نے باری کھولی اور گاڑی کے اندر بیٹھ گیا ۔ گاڑی اسٹارٹ ہو چکی تھی اور اس نے ایک بار پھر انام کی طرف خوف زدہ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’ کیس بند ہوگیا ، اب ابوبکر کی قبر کبھی نہیں ملے گی ‘‘۔ جملہ ختم ہوتے ہی گاڑی چلی گئی ۔
انام کی ساری امیدیں ٹوٹ چکی تھیں ۔ وہ اپنے باپ سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ باپ کی موت کو قبول نہیں کر پا رہا تھا ۔ وہ نئی دنیا سے تعلق رکھتا تھا اور اس نئی دنیا میں پریوں کا وجود بے معنی تھا ۔ اس کو شدت کا یقین تھا کہ اس کے باپ کو کسی نے قتل کیا ہے اس لئے وہ روایت کو توڑ کر اپنی دادی کے خلاف ہوگیا ۔ مگر آج اس کو ایسا محسوس ہو رہا ہے گویا وہ سب کچھ ہار گیا ہو۔ وہ اسی غم میں محو تھا کہ اچانک اس کے دل میں ایک عجیب طرح کے احساس نے جنم لیا ۔ ’’ نہیں پریاں وریاں کچھ نہیں۔۔۔۔ ابو کی قبر ہے ۔۔۔۔ یہیں کہیں ہوگی ‘‘ بے ساختہ اس کے منہ سے ایسے کلمات نکلنے لگے ۔ پھر اسے یقین ہوگیا کہ قبر ہے اور جلد ہی مل جائے گی ۔
حسب دستور رات کا کھانا کھانے کے بعد گھر کے تمام افراد دادی کے کمرے میں داخل ہوئے ۔ آج دادی پریشان تھی اس لئے خاموشی چھائی رہی ۔ کافی وقت گزر گیا مگر خاموشی یوں ہی جاری رہی ۔ پھر اچانک انام نے دروازے پر دستک دی اور اندر آنے کے لئے اجازت چاہی مگر کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ کچھ دیر کھڑا رہا پھر خود ہی دادی کے بالکل قریب آکر بیٹھ گیا ۔ دادی نے یہ سب دیکھا تو اپنا منہ جھکا لیا ۔ ’’دادی ۔۔۔۔ دا‘‘ ابھی جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کے گھر میںاچانک اندھیرا چھا گیااور وہی خشبو شدت سے پھیل گئی ۔ اور خاموشی کے ساتھ ساتھ خوف بھی طاری ہوگیا ۔گھر کے تمام افراد ڈر کے مارے بت بن گئے ۔ خشبو تیزی سے گہری ہو رہی تھی کہ اچانک دادی کی آنکھیں بلب کی طرح روشن ہوگئیں۔انام یہ دیکھ کر جھٹپٹایا اور پلنگ سے اوندھے منہ نیچے گر گیا ۔دادی کی آنکھوں کی روشنی کا رنگ برنگ بدلنے کا انداز وہی تھا جیسا لال گھاٹی کی غار کے سامنے تھا ۔ کمرے میں بیٹھے لوگوں میں خوف اس قدر تھا کہ ہلنا تو دور ان کا سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ خاموشی مسلسل جاری تھی کہ اچانک دادی کا منہ کھل گیا ’’ابو بکر کی قبر تلاشتے ہو ۔۔۔۔ اس کی قبر اسی گھر کے نیچے ہے ‘‘یہ جملے کہتے ہی دادی کی آنکھیں بج گئیں۔
پی ایچ۔ڈی اسکالر دہلی یو نی ورسٹی
[email protected]