9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد نہال افروز
ماہ اگست کے پہلے ہفتے کا کوئی دن تھا۔بارش ابھی مکمل طورپر شروع نہیںہوئی تھی۔ اُس سال مانسون پوری طرح ابھی نہیں آیا تھا۔ بارش کافی دیر سے شروع ہوئی تھی لیکن گاہے گاہے بارش ہو نے کی وجہ سے یونیورسٹی کے کیمپس کامنظر کافی ہرا بھرا نظر آرہا تھا۔ زیادہ تر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسی موسم میں داخلے ہوا کرتے ہیں۔کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم اسکولی تعلیم حاصل کرنے کے فوراً بعد یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے وہ یونیورسٹی کیمپس کی ہریالی اور وہاں کے ماحول میں اس طرح داخل ہوتے ہیںجیسے انہیں ایک نئی دنیا ملی ہو۔
’وہ ‘ اس سال گریجویشن کی تعلیم مکمل کر کے ایم اے اردو کی سند حاصل کرنے کی غرض سے الہ آباد یونیورسٹی کے داخلہ جاتی امتحان میں شامل ہواتھا اور پندرہویں رینک حاصل کیا۔ جب وہ داخلہ لینے کے لیے شعبہ ٔ اردو میں پہنچا تو احتشام حسین ہال میں بہت سارے طالب علم داخلہ لینے کی غرض سے بیٹھے ہوئے تھے اور اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ بھی جا کر انہیںطالب علموں میں شامل ہو گیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔سامنے کے کمرے میں داخلہ ہو رہا تھا اور ایک کے بعد دوسرے کو رینک وائز بلا کر داخلہ دیا جارہا تھا۔
وہ اپنی باری کا انتظار کر ہی رہا تھا کہ اس کی نظر سامنے کی کرسی پہ بیٹھی ایک لڑکی پر پڑی۔ نظر پڑتے ہی وہ لڑکی اُس کی آنکھوں سے ہوتے ہوئے سیدھے اس کے دل میں جا بیٹھی۔ اب اسے بے چینی ہوئی کہ کتنی جلدی وہ اس کانام معلوم کر سکے اور اس سے باتیں کرے۔ ابھی وہ یہ ساری باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ داخلہ روم سے ’’رینک پندرہ‘‘ کی آواز آئی اور وہ اس ارادے سے داخلہ لینے گیا کہ وہاں سے واپس آنے کے بعد اس لڑکی کانام ،پتہ اور اس کے متعلق دیگر باتیں معلوم کرنے کی مکمل کو شش کرے گا۔وہ داخلہ لے کر جیسے ہی روم سے باہر نکلا ، آواز آئی رینک سولہ، سمرن۔ اس آواز کو سنتے ہی وہی لڑکی اپنی نشست سے اٹھی اور سیدھے داخلہ روم میں داخلہ لینے کے لیے داخل ہو گئی، جسے وہ کچھ دیر پہلے اپنی آنکھوں کے راستے سے اپنے دل میں بیٹھا چکا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر تو جیسے اس کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہا۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ جب اتنی آسانی سے مجھے اس کا نام معلوم ہو گیا تو تعلقات بھی آسانی سے بن جائیں گے اور میں اپنے دل کی بات بھی اسے جلد ہی بتا دوں گا۔لیکن کسی کو اپنے نصیب کے بارے میں کہاں معلوم ہوتا ہے۔ انسان صرف اپنے ماضی کے بارے میں جانتا ہے ،مستقبل کہاں اسے پتہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنا حال بھی صحیح طرح سے نہیں جانتا ۔ پل میں کچھ اور پل ہی بھر میں کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔ پر ہوا کیا ؟یہ تو کہانی سن کر ہی معلوم ہوگا۔
اب سنیے اصل کہانی۔ ایم اے سال اول کے لیے پہلی منزل پر کلاس روم مختص کیا گیا۔کلاسیز شروع ہوئیں ۔نصاب سے طلباء و طالبات کی واقفیت ہوئی ساتھ ہی ساتھ طلباء و طالبات ایک دوسرے سے متعارف ہوئے۔ اسی دوران سمرن بھی اس سے واقف ہوئی۔ سارے طلباء نصاب میں مصروف ہوئے اور وہ سمرن کے عشق میں گم رہنے لگا۔ اس سے بات کرنے کی روز نئی نئی تدبیریں کرنے لگا،لیکن بات کرنے کاکوئی راستہ نہ نکال سکا۔بالآخر تھک ہار کروہ عاشقی کو بھول کر نصاب کی طرف متوجہ ہوا۔نصاب میں ’’اپیندر ناتھ اشک ‘ؔ‘ کا ڈراما’’تولیے‘‘ بھی شامل تھا۔ ڈراما ’’تولیے‘‘ آوٹ آف پرنٹ ہو نے کی وجہ سے آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔ اس نے تو کسی سینئر سے ڈراما حاصل کر لیا تھا،لیکن جب اسے معلوم ہو ا کہ یہ ڈراما میرے علاوہ کلاس میں کسی اور کے پاس ہے تو سمرن کے۔ اب اس کا عشق دوبارہ اس پر ہاوی ہوا اور وہ سمرن سے بات کرنے کا موقع نکال ہی لیا۔وہ سمرن کے پاس گیا اور بولا۔
’’سمرن آپ کے پاس ڈراماتولیے ہے۔‘‘
’’جی ہاں ! صرف میرے ہی پاس ہے۔آپ کو ضرورت ہے۔‘‘سمرن نے فخریہ کہا۔
’’ہاں اسی لیے تو آپ سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔یہ لیجیے۔‘‘ سمرن نے اپنے بیگ سے ڈرامے کی کتاب نکالی اور اسے دے دی۔‘‘
’’سمرن میں دو دن میں پڑھ کر واپس کر دوں گا۔‘‘ اس نے انکساری دکھائی۔
’’اوکے… آرام سے پڑھیے۔‘‘ سمرن نے جواب میں کہا۔
اس کے پاس ڈرامہ ہوتے ہوئے بھی اس نے سمرن سے ڈرامے کی کتاب لی اور ایک ہفتے کے بعد اس نے اس کتاب پر ایک مہر لگا کر سمرن کو واپس کر دی،جس مہر میں اس کا نام، پتہ اور موبائل نمبردرج تھا۔
کتاب واپس کرنے کے بعد وہ انتظار کرنے لگا کہ سمرن اسے فون ضرور کرے گی، پر کئی روز گزر جانے کے بعد نہ فون آیااور نہ ہی کلاس روم میں اس کتاب پر لگی مہر کے تعلق سے کوئی بات ہوئی۔وہ پریشان ہوا اور سمرن سے پوچھا۔
’’آپ نے کتاب تو اچھی طرح سے دیکھ لی ہے نا۔‘‘
’’جی … دیکھ لیا ہے مطلب؟‘‘سمرن نے پوچھا۔
’’میرا مطلب ہے آپ نے جس حالت میں مجھے کتاب دی تھی ،اسی حالت میں آپ کو واپس ملی ہے یا کتاب میں کچھ حذف یا اضافہ ہوا ہے۔‘‘ اس نے گھبراتے ہوئے کہا۔
’’جی وہ تو میں نے نہیں دیکھا۔اسی دن میں نے کسی اور کو کتاب دے دی اور وہ کسی اور کو ۔وہ کتاب ابھی تک میرے پا س واپس نہیں آئی۔‘‘ سمرن جواب دیتے ہوئے چلی گئی۔
دھیرے دھیرے تین مہینے کا عرصہ گزر گیا،لیکن وہ اپنے دل کی بات سمرن کو بتا نہیں سکا۔اس کا اضطراب بڑھنے لگا۔ اس نے اپنے دوستوں سے اس کے تعلق سے مشورہ کیا۔ دوستوں نے بلاکسی تاخیر اس سے اپنے دل کی بات بتانے کی رائے دی اور ساتھ ہی یہ بھی مشورہ دیا کہ جتنی جلدی اپنے دل کی بات سمرن سے بتاؤ گے اتنا ہی آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ان کی باتیں اسے بھی سمجھ میں آئی اور وہ اسی دن کلاس روم سے باہر زینے کے پاس کھڑے ہو کر سمرن کا انتظار کرنے لگا۔سمرن جیسے ہی کلاس روم سے زینے پر سے نیچے آئی،وہ اسے روک لیا اور بولا۔
’’سمرن کئی دنوں سے میں آپ کو ایک بات کہنا چاہتا تھا۔کیسے کہتا سمجھ میںنہیں آرہا تھا۔ لیکن آج میں اپنے دل کی بات کہہ کر ہی رہوں گا۔ سمرن میں آپ کو پسند کرتا ہوں ۔ آپ کو ہمراز بنانا چاہتا ہوں۔آپ میری زندگی ہو۔ آپ مجھے نہ ملیں گی تو میں جی نہیں پاؤں گا۔میں اپنی زندگی آپ کے نام کرتا ہوں۔ ابھی ،اسی وقت۔‘‘ وہ بنا رکے ایک ہی سانس میں ساری باتیں کہہ گیا۔
سمرن اس کی اتنی ساری باتیں سنتے ہی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔اور بولی۔
’’مسٹر پیار محبت کی باتیں ہوا میں نہیں کی جاتی۔‘‘
’’نہیں سمرن میں سچ کہہ رہا ہوں۔میں آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ پاؤں گا‘‘وہ جذباتی ہو کر بولا۔
اس کی جذباتی باتیں سن کر سمرن کے چہرے سے ہنسی غائب ہو گئی ۔ وہ گھبرا گئی۔اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا ۔ وہ کچھ سوچنے لگی اور غیر ارادتاً بول پڑی۔
’’لیکن میں اتنی جلدی فیصلہ نہیں لے سکتی ،مجھے تھوڑا وقت چاہیے۔‘‘
’’آف کورس… لیکن آپ کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے۔فیصلہ دل سے کیجیے گا،دماغ سے نہیں۔‘‘ وہ بولا۔
وہ سمرن کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔دن گزرے،ہفتے گزرے،یہاں تک کہ مہینے گزر گئے ،لیکن سمرن کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ فکر مند ہوا ۔اس کی بے قراری بڑھنے لگی۔ اب تک دونوں میں گاہے گاہے تھوڑی بہت باتیں ہو جاتی تھیں، لیکن جب سے اس نے اپنے دل کی باتیں سمرن سے کہہ دیا تھا تب سے صرف دونوں کی آنکھیںآپس میں ٹکراتیں پھر ایک دوسرے سے نظریںبچانے لگتیں۔
تقریباً تین مہینے کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی جب سمرن نے کوئی جواب نہیں دیا تو اس نے سمرن سے اپنی محبت معلوم کر نے کے لیے ایک مصنوعی پیار کا ڈھونگ رچا۔ اس نے اپنے ہی کلاس کی ایک لڑکی کو ساری باتیں بتا کر اس سے سمرن کے سامنے ایک ہفتے تک محبت کرنے کا وعدہ لیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ محبت بناؤٹی نہیں معلوم ہونی چاہیے۔
ان دونوں کے اس طرح رہنے سے سمرن کو برا لگنے لگا۔ایسے وقت میں جب وہ دونوںکلاس روم میں ایک ساتھ ہوتے یا باتیں کرتے تو سمرن کلاس روم سے باہر چلی جاتی۔ اس طرح اسے معلوم ہو گیا کہ سمرن بھی اس سے محبت کرتی ہے، لیکن کوئی تو بات تھی جس کی وجہ سے سمرن اس کے سامنے اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پا رہی تھی۔
وہ سمرن کو لے کر بہت فکر مند رہنے لگا۔کلاس میں گم صم بیٹھا رہتا۔نہ کسی سے باتیں کرتا نہ ہی کسی کی باتوں میں شامل ہوتا۔ بس گم صم ،بے خود،بے چین رہتا، مگر بے پرواہ نہیں۔ اسے پرواہ تھی سمرن کی۔سمرن کے جواب نہ دینے کی۔سمرن کے اس طرح خاموش رہنے کی وجہ جاننے کی۔اسی رنج ومحن میں وقت گزرتا رہا۔دھیرے دھیرے ایم اے سال اول کے متحان کا وقت آگیا۔ امتحان کے بعد موسم گرما کی چھٹی ہو ئی۔کلاسیز بند ہوگئیں۔دونوں کاوقت گھر ہی میں گزرنے لگا۔وہ ہر وقت،ہر گھڑی سمرن کے لیے فکرمند رہنے لگا۔اُدھر سمرن بھی اسے سامنے نہ پا کر بے قرار رہنے لگی۔سمرن دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ مجھے اس سے اپنی باتیں کہہ دینی چاہیے تھی۔کم سے کم وہ مجھ سے پوری طرح واقف تو ہو جاتا۔ میری حقیقت تو جان لیتا۔
کسی طرح چھٹیاں ختم ہوئیں۔دوبارہ کلاسیز شروع ہوئیں۔اب وہ لوگ ایک سیڑھی اوپر پہنچ گئے تھے،یعنی ایم اے سال دوم میں داخل ہو گئے تھے،لیکن اب ان کی کلاسیز پہلی منزل پر نہیں بلکہ زمینی منزل پر ہواکرتی تھی۔
پھر وہی اگست کا مہینہ ۔وہی بارش کا موسم۔ چاروں طرف ہریالی۔ماحول میں شادابی اور ترو تازگی۔زمین پو ری طرح سے سبز پوش۔ بالکل دھلے دھلے سے پھول پتیاں۔کیمپس کا منظر بالکل خوش نمااورخوش گوار ۔ہر کوئی اس ماحول میں خوش و خرم نظر آرہا تھا،لیکن وہ اسی طرح گم صم ،بے چین و بے قرار کلاس میں بیٹھا رہتا۔سمرن نے جب اس کی حالت بد سے بدتر ہوتی ہوئی دیکھی تو سمرن سے رہا نہ گیا اور وہ اس سے اس کی اداسی کی وجہ پوچھنے کا موقع تلاش کرنے لگی۔
ایک دن جب وہ صبح صبح کلاس روم کے باہر سیڑھیوں پر تنہابیٹھاہوا تھاتو سمرن اس کے پا س گئی اور اس کی پریشانی کی وجہ جاننے کے لیے بولی۔
’’سنیے! آپ اتنا خاموش کیوں رہتے ہیں؟اتنا پریشان کیوں رہتے ہیںآپ؟‘‘
وہ پیچھے مڑا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
’’میری پریشانی خود چل کر آئی ہے میری پریشانی کی وجہ پوچھنے۔‘‘
’’مطلب‘‘ سمرن نے پوچھا۔
’’کیا واقعی تمہیں نہیں پتہ میری پریشانی کی وجہ‘‘ اس نے کہا۔
’’جی میں سمجھ گئی۔‘‘
’’اچھا تم یہ بتاؤ کلاس میں اتنی ساری لڑکیاں ہیںپھر تم میرے لیے ہی کیوں پریشان رہتے ہو۔ کیا ہے میرے پاس جو دوسری کسی بھی لڑکی میں نہیں ہے؟‘‘
’’مجھے تمہاری جو بات پسند ہے وہ کلاس کی کسی لڑکی میں نہیں ہے۔‘‘
’’کیا ہے وہ بات مجھے بھی تو پتہ چلے‘‘
’’تمہاری ایک ادا؛گویا وہ کہتی ہے‘‘
ہیں تیز ہوائیں نئی تہذیب کی لیکن
ماتھے سے دوپٹے کو اڑانے نہیں دونگی
’’ایسا تو نہیں ہے۔کلاس میں ایسی بہت سی لڑکیاں ہیں ،جن کے سر پہ ہمیشہ دوپٹا رہتا ہے۔‘‘
’’میں یہیں بیٹھا ہوں۔تم جا کر دیکھوکلاس میں فلاں نام کی ایک لڑکی ہوگی ۔وہ میری بہن ہے۔ اس کے علاوہ کسی ایک لڑکی کے سر پر دوپٹا تمہیں مل جائے تو جو تم کہو سو میں ماننے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
وہ دوڑی دوڑی کلاس روم میں گئی اور تقریباً دو منٹ کے بعد اپناسر نیچے کیے ہوئے دھیرے دھیرے قدموں سے باہرآئی اور اس سے نظریں بچاتی ہوئی شعبے سے باہر چلی گئی۔اس کے اعتماد اور یقین کو دیکھ کر اس کے تو ہوش اڑ گئے،لیکن سمرن اپنی مجبوری ،اپنی پریشانی اسے کیسے بتائے۔سمرن کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ سمرن اپنی سہیلی نرگس کو بلا کر سارا واقعہ سنائی اور اس سے بولی کی جس دن اسے میری حقیقت معلوم ہوگی وہ مجھ سے نفرت کرنے لگے گا۔ اس سے اچھا ہے کہ تو جا کر میرے بارے میں اسے ساری باتیں صاف صاف کہہ دے۔میرے حالات سے اچھی طرح واقف کرادے۔
دوسرے دن نرگس اس کے پاس گئی اور بولی۔
’’آپ سمرن کے بارے میں کیا جانتے ہیں ،جس دن اس کی اصل حقیقت جانیں گے اسی دن اس سے محبت کا سارانشہ کافور ہو جائے گا۔‘‘
’’تو واقف کرا دو اصل حقیقت سے۔‘‘اس نے طنز بھراجملہ کہا۔
’’میں سچ کہہ رہی ہوں۔سمرن بہت غریب گھرسے تعلق رکھتی ہے۔کرائے کے مکان میں رہتی ہے۔ وہ لوگ تین بھائی اور تین بہن ہیں۔تینوں بھائی سمرن سے چھوٹے ہیں۔بہنوں میں ایک سمرن سے بڑی اور ایک سمرن سے چھوٹی ہے۔ اس کے والدکی ایک چھوٹی سی’ بک شاپ‘ ہے، جس سے پورے گھر کا خرچ چلتا ہے۔بھائیوں میں ابھی کوئی اس لائق نہیں کہ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹائے۔‘‘ نرگس نے ساری باتیں تفصیل سے بتا دی۔
اچھا تو تو مجھے سمرن کے متعلق گمراہ کرنے آئی ہے۔ویسے تو ایک بات سمجھ لے مجھے سمرن کے امیر غریب ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔میں نے تو اس کی سادگی سے محبت کیا ہے اور کرتا رہوں گا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں!نہیں! میں آپ کو گمراہ نہیں کر رہی ہوں ۔یہ ساری باتیںسمرن ہی نے مجھ سے آپ کو بتانے کے لیے کہا تھا۔میں بھلا کیوں آپ کو گمراہ کروں گی۔‘‘نرگس نے اپنی جان چھڑائی۔
اگلے دن جب اس کی ملاقات سمرن سے ہوئی تو وہ نرگس سے ہوئی باتوں کا اس سے تذکرہ کیا اور کہا۔
’’کیا تم یہ باتیں مجھ سے خود نہیں کہہ سکتی تھی۔تم کیا سمجھتی ہو،تم غریب ہو تو میں تم سے نفرت کروں گا۔ تمہیں بھول جاؤں گا۔ یہ تمہاری بھول ہے۔میں تم سے ،تمہاری سادگی سے ،تمہاری پاکیزگی سے محبت کر تا ہوں ۔میںعاشق ہو ںتمہارا۔عاشق ِصادق۔
’’مجھے پریشان مت کیجیے۔میں آپ کے قابل نہیں ہوں۔میرے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے کہ میں آپ سے محبت کرسکوں۔‘‘سمرن نے عتاب و خطاب میں اسے جواب دیا۔
سمرن نے نارضگی ظاہر کرتے ہوئے ڈانٹ ڈپٹ کر تو اسے جواب دے دیا،لیکن اس کی محبت کو بھلا نہیں پا رہی تھی۔چونکہ کہ یہ ناراضگی ظاہری تھی باطنی نہیں۔وہ اپنے حالات پر غور و فکر کرتی ۔کبھی گھر کے حالات کو دیکھتی۔کبھی بھائیوں بہنوں کے بارے میں سوچتی تو کبھی بوڑھے باپ کے بارے میں سوچتی،جن کے کاندھے پر پورے پریوار کا بوجھ تھا۔وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔
ایک دن نرگس نے فون کر کے اس سے بتایا کہ سمرن کا بھائی عاریت کی مدد سے بیرون ملک میں مزدوری کرنے کے لیے گیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو بہت جلد سمرن کے گھر کے حالات بدلیں گے اور آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔سمرن خوددار لڑکی ہے وہ اپنے باپ کا سر نیچا نہیں کرناچاہتی۔اپنے برابر کے لوگوں میں رشتہ کرنے میں وہ یقین رکھتے ہیں۔ لیکن خدا کی مرضی کون جانتا ہے۔ ابھی کچھ ہی مہینے کا وقت گزرا تھا کہ نرگس کا فون دوبارہ اس کے پاس آیا اور وہ بولی۔
’’آپ کو پتہ چلا ،سمرن کے بھائی کا بیرون ملک میں انتقال ہو گیا۔اِنَّاللہ ِوَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعوُن۔‘‘نرگس کی آواز درد میں ڈوبی ہوئی تھی۔
نرگس کی آواز سنتے ہی جیسے اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔جیسے وہ عصیر کے نشے میں دُھت ہو گیا۔اس پر عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی۔وہ بے خودی میں بڑبڑانے لگا۔
’’اِنَّاللہ ِوَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعوُن۔قدرت کی بھی ہے عجب شان،جو ہوتا ہے پریشان،اسے ہی کرتا ہے اور پریشان۔‘‘
اس حادثے کی وجہ سے سمرن بہت دنوں تک یونیورسٹی نہیں آئی۔وہ کتنا بد نصیب ہے کہ ایسے وقت میں تسلی کے دولفظ بھی سمرن سے نہ کہہ سکا۔
سمرن کا وقت اِدبار میں گرتا رہا۔جیسے اس کی زندگی کا ستارہ گردش میں گزر رہا ہو۔سمرن ہی نہیں بلکہ اس کے پورے پریوار پرجیسے مصیبت کی گھڑی ہو ٹ گئی تھی۔ غریب تو تھے ہی اوپر سے اتنا بڑا حادثہ۔ کسی طرح جب اس کے گھرکے حالات سازگار ہوئے تو سمرن یونیورسٹی آنے لگی۔وہ موقع دیکھ کر سمرن کو تسلی دینے کی غرض سے اس کے پاس گیااور اس سے ہمدردری بھری باتیں کی۔جب اسے لگا کہ اب سمرن اپنے بھائی کی موت کے غم سے باہر آگئی ہے تو اس نے فوراً اس کے سامنے اپنی شادی کا پیغام رکھ دیا۔ سمرن سنتے ہی جھنجھلا گئی اور بوی۔
’’آپ سمجھتے کیوں نہیں؟ میری ایک بڑی بہن ہے۔ پہلے اس کی شادی ہوگی۔اس کے بعد میں ہوں۔ پھر میری چھوٹی بہن بھی تو ہے۔آپ کو تو میرے گھر کی حالت پتہ ہی ہے۔کیسے اٹھائیں گے میرے ابو اتنی ساری ذمے داری۔‘‘
’’دیکھوسمرن تم گھبراؤ مت۔ ابو سے کہہ دو بڑی بہن کی شادی کے جو بھی اخراجات ہیں، اسے میں پورا کروں گا۔ تم میرے ساتھ آجاؤگی۔رہی بات چھوٹی بہن کی تو وہ ابھی بہت چھوٹی ہے،جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔‘‘ اس نے یگانگت ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’خوب کہا آپ نے۔ میرے ابو غریب ضرور ہیں لیکن بے غیرت نہیں۔کیسے لیں گے ایک انجان شخص سے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پیسے۔اور ہر کسی کا ارمان بھی ہوتا ہے کہ اپنی بیٹیوں کی دھوم دھام سے شادی کرنا۔توکیسے جانے دیں گیابو آپ کے ساتھ؟‘‘ سمرن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’سمرن تم غلط سمجھ رہی ہو۔ میں تمہارے لیے انجان ہوں؟‘‘ اس نے کہا۔
’’میرے لیے نہیں پر ابوکے لیے تو انجان ہی ہیں آپ۔پھر ہماری ذات بھی تو الگ الگ ہے۔کیسے ہو سکتا ہے یہ رشتہ؟‘‘ سمرن نے ایک نئی مصیبت پیدا کر دی۔
’’تو تم اتنا پڑھنے لکھنے کے بعد بھی ذات پات پر یقین رکھتی ہو۔‘‘وہ تعجب بھری نگاہوںسے سمرن کو دیکھنے لگا۔
’’میں نہیں رکھتی یقین ذات پات پر ،لیکن ہمارا سماج اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ سمر ن خود اعتمادی سے بولی۔
’’تم سماج کی اتنی فکر کیوں کر رہی ہو۔‘‘اس نے ناراضگی ظاہر کی۔
’’مجھے کرنا پڑتا ہے ۔میں ایک غریب باپ کی بیٹی ہوں۔ ہم غریبوں کو ہی سماج کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے۔ایک امیر باپ کی لڑکی یا لڑ کا اپنی ذات برادری سے باہر شادی کر سکتے ہیں۔اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائے گا۔لیکن اگر میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہوں تو یہ سماج میرے باپ کو جینے نہیں دیگا۔لوگ بولیں گے اِنہیں اپنی برادری میں کوئی لڑکا نہیں ملا اسی لیے کسی بھی لڑکے کو اپنی بیٹی سونپ دی۔ یہ بدنامی میرے ابو پرداشت نہیں کر پائیں گے۔پلیز میری باتوں کو سمجھو!میر ابونے اپنی زندگی میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں ہیں۔کبھی چین سکون سے جی نہیں سکیں ہیں ،انہیں چین سے مرنے تو دوں میں ۔اگر ایسی کوئی بدنامی ان کے سر لگ گئی تو وہ چین سے مر بھی نہیں پائیں گے۔‘‘سمرن نہ چاہتے ہو ئے بھی ایسا کہنے پر مجبور تھی۔اسے فکر تھی اپنے باپ کی۔ اپنے غریب باپ کی عزت کی۔سمرن عمیق محبت کرنے باوجود بھی اپنے دل کی بات اس سے کہہ نہیں پائی۔
وقت گزرتا رہا۔اتنے مسائل سے دو چار ہونے کے باوجود بھی وہ امیدلگائے تھے کہ شاید کو ئی راستہ نکل آئے۔ کچھ دنوں کے بعد ایم اے فائنل کا امتحان شروع ہو گیا ۔سبھی امتحان لکھ کر اپنی اپنی منزل کی جستجو میں مصروف ہو گئے۔جب امتحان کا نتیجہ آیا تو سبھی نتیجہ کارڈ حاصل کرکے اسی احتشام حسین ہال میں ایک دوسرے کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہوئے۔ سمرن پھر اس کے سامنے کرسی پہ بیٹھی تھی،لیکن اب یہ چہرہ انجان نہیں تھا۔ جانا پہچانا تھا،پر نظریں ایک دوسرے کو پہچا ننے سے انکار کر رہی تھیں۔کیوں کہ سمرن کے حالات ابھی بھی بدلے نہیں تھے۔بدلنے کے کوئی امکانات بھی نہ تھے۔سمرن سوچ رہی تھی کہیں ایسا نہ ہو کہ نظریں ملنے پر میری انکھیں ہی اس سے میری محبت کا اظہار نہ کر دیں۔ اس لیے سمرن اس سے نظریں بچا رہی تھی۔
وہ بھی سمرن کو مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ سمرن اس سے نظریں بچانے کی ناکام کو شش کیے جارہی ہے تو اس سے رہا نہ گیااوروہ سمرن کے پاس گیا،اسے ساتھ لے کر ہال سے باہر گیا اورٹھیک اپنے سامنے اسے کھڑا کر کے بے بسی میں اپنے نصیبی کو کوستے ہوئے بولا۔
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میںکیا نہیں ہوتا
اور اب ہو گا کیا…………؟
دیر میںیا حرم میںگزرے گی
عمر تیرے ہی غم میں گزرے گی
اس کی درد میں ڈوبی ہوئی باتوں کو سن کرسمرن کی آنکھیں نم ہو گئیں۔سمرن فوراً اپنی جگہ سے پلٹی اور تیز تیز قدموں سے اس سے دور جانے لگی۔دور جاتے ہوئے اس نے ایک مرتبہ بھی پلٹ کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔ شاید وہ اپنے آنسوؤں کو چھپا رہی تھی۔
٭٭٭
ختم شد
MD NEHAL
RESEARCH SCHOLAR
Department Of Urdu
Maulana Azad National Urdu University
Gacchibowli,Hyderabad – 500032
Mob- 9032815440
Email – [email protected]
Also read