Monday, May 13, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldترک تہذیب اور رومانیت کاشیدائی سجادحیدر یلدرم

ترک تہذیب اور رومانیت کاشیدائی سجادحیدر یلدرم

ڈاکٹر ہاجرہ بانو

یلدرم کے خاندان کو ان سارے عناصر پر فخر حاصل تھا جو ایک زمانے میں اشرف المخلوقات کا اعلی معیار سمجھے جاتے تھے ۔ میری مراد تہذیب، تمیز، شرافت اور نفس سے ہے۔ سید حسن ترمذی یلدرم کے سکڑ دادا تھے۔ جو ترمذ، وسط ایشیا سے ہندوستان آئے۔ یہ وہی ترمذہے جو ترکستان کے نقشے میں اپنا ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ علم، فہم و فراست کی نہریں اس گھرانے کی ایک نسل سے دوسری نسل میں بہتی چلی گئیں۔ یہ سارے افراد خاندان جید عالم تھے جن میں روایتی مولویوں کی دور دور تک رمق موجود نہیں تھی۔ یہی سبب تھا کہ قوی علمیت کے ساتھ ساتھ زندگی کا حسن بھی بر قرار تھا۔ اسی گھرانے کی ایک بی بی سیدہ ام مریم نے قرآن شریف کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ ان ہی کے قدموں تلے سجاد حیدر یلدرم کی جنت تھی۔ قصبہ نہٹور ضلع بجنور کی مٹی کو سجاد کا وطن کہلانے کا شرف حاصل ہوا۔
انقلاب 1857میں یلدرم کے دادا میر احمد علی نے زور و شور سے انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ نتیجتاً جاگیر سے ہاتھ دھونا پڑا اور زوال کے ہاتھوں کو گلے لگانا پڑا۔ نئی نسل نے انگریزی زبان سے مستفید ہوکر سرکاری ملازمتوں کے لئے خود کوکمر بستہ کرلیا۔ جن میں یلدرم کے والد محترم بزرگ وار اور چچا قبلہ پیش پیش تھے۔ یلدرم کے والد خان بہادر سید جلال الدین حیدر شہر بنارس کے حاکم تھے۔ جن کے رعب و دبدبے سے سارا بنارس تھرتھر کانپتا تھا ۔ ان کے چھوٹے بھائی یعنی یلدرم کے چچا خان بہادر ڈاکٹر کرار حیدر ریاست اترپردیش میں سول سرجن کے عہدہ پر فائز تھے اور انیسویں صدی کے آخر میں صوبے کے مشہور ڈاکٹرس میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ لیکن افسوس کہ 1896میںرائے بریلی میں گھوڑے سے گر کر وہ رب حقیقی سے جا ملے۔
یلدرم کی پیدائش 1880 میں ہوئی۔ بہن بھائیوں کے ساتھ گنگا ندی کے کنارے کھیلتے ہوئے بچپن گزرا۔ والد کی شفقت کے حصہ دار وہ بھی تھے۔ شفقت و محبت کے ساتھ فلسفے کےنکتے بھی والد کی جانب سے رگ و پے میں سرایت کرتے چلے گئے۔ والد نے اپنی اولاد کو زندگی کا سب سے اول درس یہ دیا کہ بندگان خدا کی دل آزاری گناہ عظیم ہے۔ یلدرم اور ان کے تینوں بھائیوں کی زندگی اس نصیحت کی کامل تفسیر ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم نے اپنی ساری زندگی خاموشی اور نہایت نرم روی سے گزاری۔ انا تو سب کی کمزوری ہوتی ہے۔ اس لئے اس خاندان کی بھی تھی۔ لیکن فن کار کے لئے یہی انا کبھی کبھی امرت سمان ہوتی ہے۔ لیکن سجاد حیدر فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ انا کے حصار میں نہیں تھے۔ زمانہ طالب علمی سے انہیں ترکی سے گہرا لگاؤ ہوگیا تھا۔ ایل ایل بی کی تعلیم کے دوران برطانوی فارن آفس سے کسی نے ان کے ایک انگریز پروفیسر کو لکھا کہ بغداد کے برطانوی قونصل خانہ کے لئے ترکی زبان کے ترجمان کی ضرورت ہے۔ پروفیسر نے ان سے ذکر کیا۔ سجاد حیدر یلدرم نے موقع غنیمت کا پورا فائدہ اٹھایا اور فوراً ترکی کے لئے رخت سفر باندھا۔
زندگی کے اس ٹرننگ پوائنٹ پر انہوں نے ترکی ادب کی طرف اپنی تمام تر توجہ مرکوز کردی۔ 1902میں انہوں نے احمد حکمت کے ایک ناول ثالث بالخیر کا ترجمہ کیا۔ کتاب کے شروع میں4اگست 1902 کی تاریخ کے ساتھ التماس مترجم کے عنوان سے یلدرم نے تحریر فرمایا:
میں اس ترجمہ کو بہت دھوم دھڑاکے سے پیش نہیں کرنا چاہتا اور نہ اس جرم کی معافی چاہتا ہوں کہ میں نے ناول کا ترجمہ کیا اور اس طرح پبلک کے مذاق کو ایک مضر شے کی طرف راغب کیا۔ قصوں کے ترجمے آج کل بہت ہورہے ہیں۔ مگر سب انگریزی سے اور اس کے عرض کرنے کی ضرورت نہیں کہ انگریزی سے بھی کس قسم کے ناولوں کے ترجمے ہورہے ہیں۔ میری تمنا یہ تھی کہ کسی طرح ترکوں کے قصے ترجمہ ہوں۔ اس سے نہ صرف ہمارے ناولوں کے لٹریچر میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا بلکہ ترکوں کی سوشل زندگی کا اصلی نقشہ بھی ہمیں نظر آجائے گا۔ ترکوں کی سوشل زندگی کی تصویریں اردو میں اس لئے ضروری سمجھتا تھا کہ ہماری سوسائٹی اور طرز معاشرت میں جو انقلاب پیش آرہا ہے وہ انہیں بھی پیش آچکا ہے۔ اس وجہ سے ہمیں اس نقشے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس منزل سے وہ کس طرح گزرے ہیں اور اب کہاں ہیں۔ ترجمہ اکھڑا اکھڑا اور انوکھا معلوم ہوگا مگر ترکوں کا طرز ادا مجھے کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے اور مغربی اور ایشیائی طرز تحریر کا ایسا معقول میل ہے کہ میں نے لفظی ترجمے کی کوشش کی ہے۔ گفتگو ضرور انوکھی ہے ۔ لیکن سنئے تو سہی۔
غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد
سجاد یلدرم کی رومانیت بھی ترکستانہ تھی۔ انہیں پس چلمن معشوق کے جلوے گراں گزرتے تھے۔ ان کی معشوق تو ساحل سمندر پر اٹکھیلیاں کرنے والی تھی۔ وہ عورت کو مرد کے شانہ بشانہ دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں لکھنؤ اور دلی کی چار دیواریاں رومانیت کی ترقی کو روندتی محسوس ہوتی تھیں۔ کھلی فضاؤں میں قلانچیں بھرنے والی رعنائیاں خوشبودار لگتی تھیں۔ یہی سبب تھا کہ انہوں نے ہندوستان سے باہر ترکی کو ہی اپنا مثالی مسکن قرار دیا۔ ایران و مصر تو پس ماندہ تھے۔ ترکی میں یوروپین اقوام کے قرب کی وجہ سے زندگی کی لہر تیز ہوچکی تھی۔ یلدرم نے جن ترکی ڈراموں کا ترجمہ کرکے ان کے زنانہ کرداروں کو اردو والوں سے روشناس کرایا مثلاً زہرہ، حمراء، قمراء، بہیجہ وغیرہ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ یلدرم کی آئیڈیل لـڑکیاں تھیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آزادی نسواں کے قائل تھے۔ اسی خیال کو عبد القادر کی ایک تحریر سے تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا:
مسلمانوں کی تعلیمی کانفرنس1907 میں کراچی میں منعقد ہورہی تھی جس کے صدر اس سال مولانا حالی تھے اور سجاد حیدر بھی اس میں شریک تھے۔ ایک دن جب میں جلسے کے بعد اپنی قیام گاہ کے قریب جارہا تھا تو سامنے سے سجاد آتے نظر آئے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کئی ایک چکر اپنے گرد لگائے جیسے خوشی سے رقص کررہے ہوں۔ مجھ سے کہنے لگے کہ کچھ نہ پوچھئے میرا دماغ اس وقت آسمان پر ہے اور میں زمین پر کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں ۔ میں نے پوچھا کہ کچھ تو بتاؤ کیا دیکھا ہے۔ کہنے لگے ایک ایسی خاتون سے مل کر آرہا ہوں جو آزادی کی حامی ہیں اور خود آزادی پر عامل ہیں۔
سجاد یلدرم نے 1912میں شادی کی۔ یہ تھیں خان بہادر سید نذر الباقر کی لڑکی نذر زہرا بیگم ، جن کی پھوپھی نے ایک معاشرتی ناول گودڑ کا لال تصنیف کیا تھا۔ نذر زہرا بیگم کے پھوپھی زاد بھائی اور بہنوئی میر فضل علی ایک صاحب طرز ادیب تھے، ان کی کتاب تخیلات اب نایاب ہے۔ نذر زہرا بیگم مس نذر الباقر کے نام سیلڑکپن ہی سے نامور مضمون نگار بن چکی تھیں۔ 1908میں بچوں کے مشہور اخبار پھول کی ایڈیٹر بھی تھیں جو شمس العلماء مولوی ممتاز علی کے دار الاشاعت پنجاب لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں انہوں نے بچوں کے لئے تین مقبول کتابیں پھولوں کا ہار،سلیم کی کہانی اور دکھ بھری کہانی لکھیں۔ ان کا مشہور ناول اختر النساء بیگم 1910میںشائع ہوا جب وہ صرف سولہ سال کی تھیں۔ ان کے مضامین نیرنگ خیال، زمانہ، تمدن، ادیب، انقلاب اور الناظر میںشائع ہوئے۔ ان کا انگریزی ترجمہ ٹائمز آف انڈیا میں چھپا اور بمبئی و مدارس کے انگریزی اخباروں کی طرف سے کئی انعامات ملے۔ تہذیب نسواں میں چھپے مضمون پر تو مہارانی بڑودہ نے انہیں تمغہ عطا کیا ۔ ان کی قوم پرستی سے متاثر ہوکر ہزہائی نس سلطان جہاں بیگم فرامانروائے بھوپال کی خواہش تھی کہ نذر زہرا بیگم جیسی ذہین لڑکی ان کی سکریٹری بن جائے۔ لیکن باوجود اپنی روشن خیالی کے سید نذر الباقر اس کی کی اجازت نہ دے سکے۔
یلدرم سے شادی کے بعد انہوں نے دہرہ دون میں لڑکیوں کا انگریزی اسکول قائم کیا اور تصنیف و تالیف کابھی مشغلہ جاری رکھا۔ مسلم گرلز اسکول علی گڑھ اور کرامت حسین گرلز اسکول لکھنؤ کے قیام کے سلسہ میں بہت کام آیا۔ آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس قائم کی۔
یلدرم ترکوں کے لہجے میں ترکی اور ایرانیوں کے لہجے میں ایرانی بولتے تھے۔ عربی بھی روانی اور شگفتگی سے بولتے تھے۔ انہوں نے مغربی طرز کی زندگی گزاری لیکن جدید کلب لائف اور حد سے زیادہ مغربیت زدہ خواتین انہیں ناپسند تھیں۔ خود پکے مذہبی لیکن مذہبی تنگ نظری کو بہت بڑا اخلاقی جرم تصور کرتے تھے۔ مختلف مذاہب کے فلسفوں پر ان کا مطالعہ بہت گہرا تھا۔ ان ہی اوصاف حمیدہ سے متصف ان کی دختر قرۃ العین حیدر تھیں۔
سجاد حیدر یلدرم کی ایک نظم جو ان کی رنگینی طبع،سیرت کی پاکیزگی اور ان کے نقطہ نظر کی دل آویزی کی ترجمان ہے۔ شملہ کا لکائن پرایک نظارے کے عنوان سے سب سے پہلے سہیل میں شائع ہوئی:
ماتھے پہ بندی آنکھ میں جادو،
ہونٹوں کی بجلی گرتی تھی ہر سو،
چال لچکتی بات لہکتی
جیسے کسی نے پی ہو دارو،
انکھڑیاں ایسی جن میں تھے رقصاں،
لمحے میں رادھالمحے میں راہو،
ایسی پھڑکتی خلق تھی حیران،
ریل پرآیاکہاں سے آہو؟
لکھنؤ کے ٹریننگ کالج کے مشاعرے کی تیسری بار صدارت کرتے ہوئے درج ذیل نظم پڑھی اور آئندہ کے لئے صدارت سے معافی مانگی:
کیوں مجھ کو کیا ہے صدر مجلس
کیوں مجھ کو عطا ہوئی یہ جاگیر
جب دیکھئے تخت پر ہوں بیٹھا
منبر پہ ہو جیسے واعظ پیر
مانا کہ ہے میرا نالہ دلکش
ہے دل میں تڑپ ، زبان میں تاثیر
رنگینی بھی ہے سخن میں ایسی
ہوتا ہے جوان عالم پیر
ہے تو سن طبع شوخ و طرار
چال اس کی کڑی کماں کا تیر
لیکن نہیں شاعری کا دعوی
ہاں نثر میں کچھ کیا ہے تحریر
یہ شوخی محض ہے وگرنہ
کیا ہیچمدان کی ہیچ تحریر
ہوں شاید شعر کا میں شیدا
بس اس لئے ہے میری یہ توقیر
صدر نہ سچی نوجواناں
یک قصر ادب شدست تعمیر
اس بزم میں ایک ادیب کہنہ
کیوں لائے ہیں آپ بہر تشہیر
تھا گوشہ انزوا میں مخفی
کیوں کھینچ کے لائے پابہ زنجیر
ممنون کرم ہوں لیکن اب تو
ہے تیسری مرتبہ یہ تعزیر
رسم رست کہ شائقین تحریر
آزاد کنند بندۂ پیر
سجاد حیدر یلدرم اس معنی میں شاعر نہیں تھے کہ وہ بڑے بڑے مشاعروں میں داد سخن حاصل کرتے اور صاحب دیوان ہوتے ۔ لیکن اس معنی میں شاعر ضرور تھے کہ شعر کہتے تھے اور اچھا کہتے تھے۔ ان کا تو سن طبع جس طرح نثر میں شوخ و طرار تھا اسی طرح نظم میں بھی ہو اسے باتیں کرتا تھا۔
خطاب نوجوانان کے عنوان سے 19 دسمبر 1940کو انہوں نے ایک نظم لکھی جس میں شاعر ، ادیب و اہل قلم کی زندگی کو ناکام اس لئے دکھایا گیا ہے کہ ان لوگوں نے علم کو عقل سے جدا کردیا۔
میدان جدو جہد میں اے نوجوان اڑ
کب تک پڑے رہو گے یونہی کوئے یار میں
کب تک قتیل دلبری شاہد سخن
مانا کشش بلا کی ہے اس سحر کار میں
میں جانتا ہوں تشنہ ذوق سخن ہے کیا
مدہوش رہ چکا ہوں میں اس کے خمار میں
دنیائے حسن و عشق ہی پیش نظر رہے
داخل ہوا نہ زیست کے میں کار زارمیں
بیٹھا رہا تصور جاناں کئے ہوئے
غالب کا میں شریک رہا انتظار میں
آہ و فغاں و نالہ تھا سرمایہ حیات
حسرت ہی جاگزیں تھی دل داغدار میں
میں انقلاب چرخ کا قائل رہا مگر
منکر کہ انقلاب بھی ہے روزگارمیں
جاگا تو دیکھا زیست ہے اہل عمل کی زیست
شاعر ہے کوئے یار میں وہ کارزار میں
انہیں اپنی نثر کا احساس تو تھا لیکن اپنی شاعری کا اعتراف نہ تھا۔ اپنے مخصوس منکسرانہ انداز میں فرماتے ہیں:
لیکن نہیں شاعری کا دعوی
ہاں نثر میںکچھ کیا ہے تحریر
یہ شوخی محض ہے وگرنہ
کیا ہیچمدان کی ہیچ تحریر
کلام یلدرم میں شامل عنوانات یہ تھے ۔ سر سید احمد خاں، غزل (اردو فارسی) ، عائشہ صدیقہ کے عقد کے موقع پر ، عذرا حیدر کے نکاح کے موقع پر ، عذرا و سعید، امتیاز حیدر کی شادی پر، حج کے بعد، ساون، آسمان، تاج و حجاب، مرثیہ، داغ، کشمیر و حسن کشمیر، مرزا پھویا علی گڑھ کالج میں، شملہ کا لکا ریلوے پر ایک نظارہ، نغمہ حسرت، ایک نکاح ثانی پر، جرات رندانہ ، ایک درخواست ، دعا ایک ناکتخدا عزیزہ کے لئے جو اس آٹو گراف البم میں لکھی گئی، رخصت شباب ،سعید خود اختیاری، اپنی بھتیجی کی کتخدائی کے موقع پر، نذر خواجگان خواجہ منظور حسین اور خواجہ غلام السیدین کے اساتذہ جامع علی گڑھ مقرر ہونے پر، ایک بت پرست محمود، نظم بہ تقرب شادی خانہ آبادی جناب خواجہ غلام السیدین دیکھا نظارہ ہم نے تمہارا ٹرین میں ایک ہم سفر عائلہ فیملی کی مسرت دیکھ کر ، ترانہ شوق، بلبل از ترکی، لکھنؤ ٹریننگ کالج کے مشاعرہ کی صدارتی نظم، عزم حجاز ، کعبے کے سامنے، شہیدان سیاست، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، نوجوان سے، ثروت آراء (مرحومہ ہمشیرہ نذر سجاد صاحبہ کی یاد میں) ہم دم دیرینہ ، (سر محمد یعقوب کی یاد میں) ایک غم زدہ دوست کے نام، عقدہ لا ینحل، نواب صاحب چھتاری کے نام، (دولت آصفیہ کی وزارت سے سرفراز ہونے پر ) فردیات۔سجاد حیدر یلدرم 11 اپریل 1943کو رات کے دو بجے حرکت قلب بند ہونے سے دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اس وقت وہ بالکل تندرست تھے اورکچھ عرصہ قبل ہی افغانستان میں چند ماہ گزار کر آئے تھے۔ ان کی یہ تمنا بھی پوری ہوگئی کہ ان کے آخری وقت میں باعث علالت دوسروں کو پریشانی نہ ہو۔ انہیں لکھنؤ کے عیش باغ میں سپرد خاک کیا گیا۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular