حفیظ نعمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم مولانا ڈاکٹر خالد حامدی فلاحی نے اپنے مضمون میں بابری مسجد کے مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بابری مسجد کے بارے میں ہندوستان کے عام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ
ہم اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ دوسرے ملکوں میں کیا ہورہا ہے ہم تو فقۂ حنفی کے قائل ہیں کہ مسجد جب بن گئی تو فرش سے عرش تک مسجد ہی رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں فقۂ حنفی کی غلط ترجمانی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں فقۂ حنفی میں دو مؤقف ہیں اوپر بیان کردہ مؤقف امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد امام ابو یوسفؒ کا ہے لیکن دوسرا مؤقف امام ابو حنیفہؒ کے دوسرے شاگرد امام محمد شیبانیؒ کا ہے جو اس کے برعکس ہے چنانچہ فقۂ حنفی کی مشہور کتاب ’’الہدایہ‘‘ میں یہ بات اس طرح کہی گئی ہے کہ
اگر مسجد کا ماحول خراب ہوجائے اور مسجد تصرف میں نہ رہے تو ابو یوسفؒ کے نزدیک وہ مسجد رہے گی کیونکہ وہ زمین مسجد بنانے والے کی ملکیت میں نہ رہی تو اس کی ملکیت میں واپس نہیں جائے گی۔ لیکن امام محمدؒ کے نزدیک وہ مسجد بنانے والے یا اس کی موت کے بعد اس کے وارث کی ملکیت میں لوٹ جائے گی کیونکہ اس نے ایک نیکی یعنی نماز کے لئے وہ زمین خاص کی تھی جس میں نماز کی ادائیگی اب ختم ہوگئی ہے۔ (الہدایہ)
یہاں فقۂ حنفی کے دو مؤقف بیان کئے گئے بتانے والوں نے پہلا مؤقف بتایا جبکہ دوسرا مؤقف نہیں بتایا اسے کتمانِ علم کہا جائے گا یا کچھ اور؟ تو ثابت ہوا کہ فقۂ حنفی میں دونوں نقطۂ نظر ہیں اور حسب موقع و زمانہ کسی بھی مؤقف کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہم کسی مسلمان ملک یا اسلامی ریاست کے شہری نہیں ہیں بلکہ ہندو اکثریتی ملک کے شہری ہیں جہاں جمہوریت عام طور سے اکثریت کے جذبات و احساسات اور افکار و خیالات سے عبارت ہے یہ کوئی عقلمندی نہیں ہے کہ شریعت جس کی اساس امن اور سلامتی و سہولت ہو۔ اسے ہم لازمی طور پر ہر معاملہ میں تشدد اور سختی میں تبدیل کردیں جبکہ اللہ کے رسولؐ کا اس سلسلے میں عمل کیا تھا وہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولؐ دو معاملات میں اگر وہ گناہ نہیں ہیں تو آسان معاملہ کا انتخاب فرماتے تھے۔ (بخاری) واضح ہو کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے اس لئے اس میں امام محمد شیبانیؒ کا مؤقف اختیار کرنا قرآن و احادیث اسوئہ نبویؐ کے مطابق ہے اللہ کے رسولؐ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ ترجمہ: آسانی پیدا کرو مشکلات پیدا نہ کرو لوگوں کو خوشخبری دو انہیں متنفر نہ کرو۔
دینی حکمت و دانش مندی یہی ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے ہم دوسرے فریق کے حق میں دستبردار ہوجائیں کیونکہ اب اس مقام پر کوئی مسجد ہی نہیں ہے جس کی حفاظت کی جاسکے بابری مسجد کے سلسلے میں مسلمانانِ ہند نے جتنی توانائیاں صرف کیں تو اگرچہ ان توانائیوں کو توحید کی افہام و تفہیم، شرک و کفر کے ردّ و انکار میں صرف کرتے تو نہایت بہتر نتائج برآمد ہوتے اور ایک منہدم مسجد کے مقابلہ انہیں ہزاروں مسجدیں ملتیں لیکن ہماری پیٹرو ڈالر والی منفی سیاست زدہ قیادت نے معاملہ کو انتہائی رخ پر ڈالا ہے اور یہ نتیجہ ہے شریعت پر عمل نہ کرنے کا۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ اس وقت صرف دو ریاستیں نہیں پورا ملک پدماوت نام کی فلم کے دکھائے جانے اور نہ دکھائے جانے کو لے کر تقسیم ہوگیا ہے۔ جس وقت اس فلم کا اعلان ہوا تھا اسی وقت اس کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا تھا اور اس اختلاف کے نتیجہ میں اس کو روک دیا گیا تھا۔ پھر اس میں قابل اعتراض حصوں کو تبدیل کرکے فلموں کے سینسر بورڈ نے دیکھا اور اسے ہری جھنڈی دکھادی لیکن وہ کرنی سینا جو راجپوتوں کی سینا ہے اور جو اس وقت سے اس کی مخالفت کررہی ہے جب وہ راجستھان میں بنائی جارہی تھی اس نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں دکھائی نہیں جائے گی اور کل 25 جنوری کو اسے دکھانے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کردیا ہے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کی حکومت پھر سپریم کورٹ میں گئی اور بتایا کہ حالات اتنے بگڑ جائیں گے کہ ہم قابو نہ پاسکیں گے اس لئے صرف ہماری ریاست میں اس پر پابندی لگادی جائے۔
سپریم کورٹ نے پھر پھٹکارکر بھگا دیا اور حکم دیا کہ فلم دکھانے اور امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری آپ کی ہے کیونکہ سینسر بورڈ مرکزی حکومت کا بنایا ہوا بورڈ ہے اور اس کے نزدیک کوئی بات قابل اعتراض نہیں ہے۔
ملک میں جو حضرات بھی ٹی وی دیکھتے ہیں اور خبروں کا چینل کھولتے ہیں انہوں نے اور ان کے علاوہ ملک کے ہر شہر میں اور ہر صوبہ میں ہندو تقسیم ہوگئے ہیں ایک طبقہ وہ ہے جو سب سے بڑی عدالت کا حکم آجانے کے بعد اس کی مخالفت کو توہین عدالت کہتا ہے اور دوسرا طبقہ پوری طرح کپڑے اتار کر اور تلواریں لے کر میدان میں آگیا ہے اس کا کہنا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت جنتا کی عدالت ہے اور وہ ہم ہیں ہمارا فیصلہ ہے کہ فلم پدماوت نہیں دکھائی جائے گی چاہے پورے ملک کو آگ لگانا پڑے اور یہ ان کی طاقت کا ہی ڈر ہے کہ وزیراعظم منھ چھپاکر سوئیزرلینڈ میں بیٹھے من کی بات کررہے ہیں۔ اور ایک لفظ ان کے منھ سے ان چہیتوں کے لئے نہیں نکلا ہے جن کو انہوں نے ہی غنڈہ بنایا ہے اور انہوں نے ہی ان کو راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ مسلم نواز ہندو ہیں اور ہم تو ہندو ہیں اور ہندو نواز ہیں۔
اب صرف مسلمان یہ سوچیں کہ سپریم کورٹ نے مسجد مسلمانوں کو دے دی تو کیا اس مودی سینا کا مسلمان مقابلہ کرپائیں گے؟ جو روشن خیال ہندو کو ختم کرنے پر تلی ہے اور وہ کیا مسلمان کو برداشت کرے گی؟