9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
شیبا کوثر
“اس کائنات محبّت میں ہم مثل شمس و قمر کے ہیں
اک رابطہ مسلسل ہےاک فاصلہ مسلسل ہے۔ !
وہ جیسے ہی آفس سے تھکا ماندہ گھر میں داخل ہوا ۔رات کے دس بج رہے تھے ۔اسکے فریش ہوتے ہی اسکی وائف فائزہ نے کھانا serve کیا ۔کھانے کے دوران اسنے محسوس کیا کہ آج اسکا چہرہ کافی تھکا تھکا سا اداس اداس دیکھ رہا تھا ۔پتا نہیں کیوں مجھے وہ بہت تھکی ہوئی نڈھال محسوس ہوئ تھی ۔اسنے فورن اپنا سر جھٹکا اور کھانے میں مشغول ہوگیا۔ کھانے سے فارغ ہوا اور chair کھسکا کر اٹھ گیا ۔کیونکہ اب اسنے فائزہ پر دھیان دینا چھوڑ دیا تھا ۔اور یوں وہ کھلی فضا میں سانس لینے کے لئے ٹیرس۔ پر چلا آیا۔ ٹیرس پر ٹہلنے کے دوران سیگرٹ۔ کا کش لیتے ہوےءوہ اپنے combined Bed Room میں داخل ہوا ،جہاں اسکی وائف فائزہ Writing Table پر بیٹھی Diary کھولے کچھ لکھ رہی تھی شروع سے ہی لکھکنا پڑھنا اسکی Hobbies رہی ہے ۔میں نے اس سے مخاطب ہو کر کہا ۔”فائزہ میں تم سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتا ہوں فری ہو ۔۔۔۔ ؟”
” ہاں کہئے حمزہ میں سن رہی ہوں ۔کیا کہنا چاہتے ہیں آپ “!اسنے بڑے اعتمادسے پوچھا۔
فائزہ !یہ Allo money اور فلیٹ کے کاغذات ہیں ۔میں نے تمہارے نام کر دئے ہیں ۔اور یہ DivorcePaper ہے ان پر سائن کر دینا ۔”
طلاق لیکن کیوں حمزہ ۔۔۔ ؟میرا قصور تو بتائے ۔مجھ سے ایسی کون سی غلطی ہو گئی ،جسکی اتنی بڑی سزا آپ مجھے دے رہے ہیں ۔میرے ساتھ گزارے ان بارہ سالوں کی رفاقت کو بھی آپ بھول گے ء۔ Divorce paper کو دیکھکر وہ shocked ہو جاتی ہے ۔اور آنسوؤں سے لبریز غمزدہ لہجے میں بولی ۔حمزہ ! آپ نے ہماری بارہ سالہ ازدوواجی میں آخر ایسا کیا دیکھا ۔کون سی ایسی خطا مجھ سے ہو گئی جو آپ مجھے Divorce دے رہے ہیں ۔۔۔؟میرے ماتھے پر “طلاق “کا داغ مت دیجئے حمزہ please آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔۔۔۔کہ دیجئے یہ سب ایک مذاق ہے ،جھوٹ ہے ۔۔۔۔تمہیں چیھڑنے کے لئے ایسے ہی کہ رہا ہوں ۔”
میں نے سفافی سے کہا ” نہیں فائزہ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں ۔میں سچ کہ رہا ہوں ۔مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ اب ہمارے درمیان محبّت نہیں رہی ۔۔۔۔۔پھر ساتھ رہنے کا کیا جوآ ز ۔۔ ۔۔۔۔؟ میں سمیرا سے پیار کرتا ہوں اور اسکے بغیر نہیں رہ سکتا ۔تم چاہے کچھ بھی کر لو ،میں تمہیں ہر حال میں Divorce دونگا ۔۔۔۔۔؟
اور وہ بے یقینی سےایک بار پھر Divorce پیپر کو لیکر خوب الٹ پلٹ کر دیکھتی ہے۔ پھر وہ شدت غم کی تاب نا لاکر فرش بیٹھی خوب پھوٹ پھوٹ کر زارو قطار رونے لگتی ہے۔ اور پھر وہ جنونی کیفیت میں طلاق کے کاغذات کو ٹکرے ٹکرے کر دیتی ہے ۔اور بلا سٹ کر کے Bed Room سے نکل جاتا ہے اور ایک گھنٹے کے بعد جب وہ BedRoom میں واپس اتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ فائزہ۔ رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھی پھر کچھ لکھ رہی ہے اور طلاق کے کاغذات اسکے ارد گرد بکھرے پڑے ہیں ۔اور پھر وہ سو جاتا ہے ۔
“حمزہ کی چبھتی ہوئی نظروں کو محسوس کرتے ہوءےاس سے کہتی ہےکہ حمزہ مجھے اس نظر سے مت دیکھئے میں پاگل نہیں ہوں ۔۔نہیں میں shocked ہوں کیونکہ ابھی ہمارے بیٹے کا 10th کا فائنل اگزام ہونے والا ہے ۔اس period میں ۔میں اسے کسی طرح کا کوئی Tension نہیں دینا چاہتی ،جس سے اسکی پڑھائ متاثر ہو۔ ۔۔نہیں تو وہ dipration میں چلا جایگا ۔میں اپنے بیٹے کو کھونا نہیں چاہتی حمزہ ! بس آپ کو میرے ساتھ پہلے کی طرح رہنا ہوگا ۔حمزہ مجھے آپ کی Allomoney کی رقم بھی نہیں چاہیے ۔۔۔۔ ۔۔نا ہی یہ فلیٹ ۔۔؟بس آپ میرے ساتھ ایک مہینہ ویسے ہی رہ لیں۔ یہ میری ریکوسٹ ہے۔حمزہ اسکی بات ما ن جاتا ہے اور خوش خوش آفس کے لئے نکل پڑتا ہے ۔
حمزہ کی آنکھ کھلی تو آدھی رات گزر چکی تھی ۔بیڈروم میں اندھیرا تھا اسنے سائڈ لیمپ جلاکر گھڑی دیکھی پھر برابر والے بیڈ کو دیکھا ،وہ خالی تھا ۔اسکی بیوی ابھی تک رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھی دنیا و معافہاسے بخبر کچھ لکھنے میں مشغول تھی ۔
صبح جب وہ بیدار ہوا تو اسے ignore کر دیتا ہے ۔جب وہ صبح صبح ناراض ہوکر آفس کے لئے نکلتا ہے تو وہ اسے مخاطب ہو کر کہتی ہے ۔حمزہ آپ کی قربت اور رفاقت ہی تو میرا خواب تھا ۔پتا نہیں کہاں ہم سے غلطی ہوئی جو ہم دونوں کے درمیان رشتوں میں خلیج حائل ہونے لگی ۔؟
اینی وےجب آپ مجھ سے بیزار ہیں اور ہم سے علحدیگی چاہتے ہیں تو میں Divorce paper پر سائن کر دونگی ۔۔۔۔۔۔لیکن میری ایک شرط ہے ۔۔۔۔؟کیا آپ پوری کرینگے ۔۔۔؟اسنے نڈھال ہو کر بے بسی سے اسکی ۔طرف دیکھا ۔
“ہاں “اسنے بےساختہ کہا ۔
تو وہ بولی ۔۔،حمزہ آپ کو اس سے پہلے ایک ماہ تک میرے ساتھ رہنا ہوگا ؟ بلکل ویسے ہی جیسے ہم شادی کے شروعاتی دور میں رہتے تھے ۔۔۔۔آپ کو مجھے اسی طرح محبّت بھری نظروں سے دیکھنا ہوگا ۔۔۔ جیسے پہلے دیکھتے تھے ۔۔۔؟ایک دوسرے کے بانہوں میں با ہیں ڈال کر روز صبح آپ کو میرے ساتھ morningwalk پر جانا ہوگا ۔۔جیسے ہم پہلے ٹہلتے تھے ۔۔۔۔؟آپ کو یاد ہے نا حمزہ بولے ء شادی کے شروعاتی دور میں ہم دونوں کتنے ساتھ ساتھ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب رہتے تھے ۔۔۔۔۔!
گھبڑائے نہیں حمزہ ! ہمارے درمیان کوئی physical Relation نہیں ہوگا ۔ہم بس ایک bedroom میں ایک bed پر ساتھ ساتھ رہینگے اورایک دوسرے کے بازو پر سر رکھ کر دھیر سآری پیار بھری سر گوشیاں کرتےہوئے سو جاینگے ۔۔۔؟
فائزہ کے منھ سے یہ بہکی بہکی باتیں سنکر اسے اس طرح دیکھتا ہے کہ مانو اسکی بیوی کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہو ۔
آفس آنے کے بعد وہ سمیرا سے چہکتے ہوےء کہتا ہے کہ میری وائف ما ن گئی ہے۔وہ divorce paper پر سائن کر دیگی ۔مگر اسکی ایک شرط ہے مجھے اسکے ساتھ ایک ماہ رہنا ہوگا ۔؟
اسکی بات سنکر سمیرا خوب زور زور سے قہقہے لگانے لگتی ہےاور وہ اس سے کہتی ہے کہ۔ ۔۔حمزہ واقعی تمہاری وائف بوڑھی ہونے کے ساتھساتھ پاگل بھی ہو گئی ہے ۔
اسے سمیرا کا اسطرح قہقہ لگانا اچّھا نہیں لگا ۔ وہ اس سے ناراض ہو کر بولا ۔۔۔۔۔زبان سنبھال کر بات کرو میری وائف بوڑھی نہیں ہے ۔اسکو میری بے رو خی نے توڑ دیا۔ اس لےء اس نے خود پر دھیان دینا چھوڑ دیا ۔اب جو بھی ہے تمہیں ایک ماہ انتظار کرنا ھوگا ۔۔۔۔۔؟After All وہ ہماری wife ہے اور ہمارے اکلوتے بیٹے کی ماں ہے۔ میں اسکی یہ خواہش مسترد نہیں کر سکتا ۔یہ کہ کر وہ آفس سے نکل جاتا ہے اور گھر چلا اتا ہے ۔گھر اتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اسکی بیوی فائزہ نے اپنے سر کے کچھ بال جو تیزی سے وہا ئٹ ہو گے تھے ۔اسکو ڈائ کرکے کالا کر لیا تھا ۔اور وہ بہت ہی سلیقے سے تییار ہو کر اسکا انتظار کر رہی تھی ۔وہ جیسے ہی آگے بڑھتا ہے تو اسکا کوٹ اتارتی ہےاور باہوں میں باہنں ڈال کر اس کے شرٹ کو اتار کر ہنگ۔ کرتی ہے۔ اور اسکو ضرورتوں کی ساری چیز پیش کرتی ہے ۔حمزہ کے لئے یہ سب ایک اٹپٹآ سا لگ رہا تھا ۔کچھ بھی نیا نہیں تھا ۔وہ خاموشی سے فریش ہونے کے لئے باتھ روم چلا گیا ۔
اگلے دن صبح سویرے اسکے گالوں پر kiss کر کے اسکے بالوں کو سہلاتے ہوےء اسے جگا کر morning walk پر چلنے کے لئے کہتی ہے ۔
جیسے ہی وہ ہانتھوں میں ہاتھ ڈال کر مارننگ واک کے لئے گھر سے نکلا اسکے بیٹے نے اسے دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔wao کیا خوبصورت capal دیکھ رہے ہیں پاپا ۔۔۔۔آپ لوگ ہمیشہ ایسے ہی ساتھ ساتھ خوش رہا کیجئے پاپا ،دیکھئے آپ کے ساتھ ممآ کتنی جچ رہی ہیں ۔پہلے دن جاتے ہوئے اسے مارننگ واک میں کچھ اٹپٹا سا اسے لگ رہا تھا ۔لیکن جب میں مارننگ واک سے لو ٹا تو میں بری طرح تھک چکا تھا ۔اور عادت بھی چھوٹ چکی تھی ۔صبح نکلنے کی ۔اسلئے وہ بری طرح سے تھک کر صوفے پر لیٹ گیا تھا ۔ جب وہ نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا کہ فائزہ کبڈ کھول کر اسکے لئے آفس جانے کے کپڑے سلیکٹ کر رہی ہے ۔جیسے وہ شروعاتی دور میں کیا کرتی تھی ۔اسے یہ سب بڑا عجیب لگ رہا تھا ۔فائزہ کو کیا ہو گیا ہے ۔۔۔۔؟کیا وہ واقعئ میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔۔؟پھر وہ غسل سے فراغت پا کر ناشتہ کر کے آفس کے لئے نکل گیا ۔اور وہ اسے باہر تک چھوڑنے کے لئےآئ اوراللہ حافظ فی آ ما ن اللہ کہ کر اسے رخصت کیا ۔
وہ سارے خوبصورت پل جو شادی کے شروعاتی دنوں میں گزارے تھے ۔وہ ان سارے خوبصورت پلوں کو دوبارہ زندہ کر رہی تھی ۔دھیرے دھیرے مجھے بھی اسکے ساتھ ان پلوں کو دوبارہ جینے میں مزہ آنے لگا ۔پہلے فائزہ کے چھونے سے اور پاس انے سے مجھے بہت الجھن سی ہوتی تھی۔اب اسکا لمس میرے سوے ہوئے سارے احسا سات و جذباتوں کو پھر سے جگا نے لگا تھا ۔اور یوں مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میرے اندر اسکی سو ئ ہوئ محبّت جو ان بارہ سالوں میں کہیں کھو گئی تھی دوبارہ زندہ ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔پھر سے میرے جذبات جاگنے لگے تھے ۔۔۔۔۔وہ اسکی ناز برداریاں اورخود کو پہلے کی طرح فٹ رکھنا ۔۔۔۔۔۔شاید گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میں اس سے یہی سب کچھ چاہتا تھا ۔میری Exception بیچینی بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔اپنے اکلوتے بیٹے کی پیداءش کے بعد وہ گھر کی ذمداریوں میں خود کو کھونے لگی تھی اور میں یہ سوچنے لگا کہ مجھے اب اس سے محبّت نہیں رہی ۔اور اسکا ساتھ مجھے بوجھ لگنے لگا ۔اف لیکن ایسا نہیں تھا یہ میری غلط فہمی تھی ۔
اور دھیرے دھیرے میں اپنی عزیز از جان بیوی کی محبّت میں ڈوبنے لگا تھا ۔اور اسی طرح ایک مہینہ کیسے پلک جھپکتے گزر گیا، پتہ ہی نہیں چلا ۔آج وہ سویرے اٹھ کر جلدی جلدی تیار ہو کر سمیرا سے ملنے چلا گیا ۔اسے یہ بتانے کے لئے کہ وہ اپنی شریک حیات کو Divorce نہیں دیگا ۔کیونکہ وہ اسے بے انتہا محبّت کرتا ہے ۔اور سمیرا سے اسکی محبّت اپنی بیوی کی طرف سے بدگمانی اور وہ وقتیAttraction تھا جسے وہ محبّت سمجھ بیٹھا تھا ۔اتنا سنتے ہی سمیرا نے اسے گھما کر ایک جھاپڑرسید کیا ۔اور گالیوں کی بوچھار کر تے ہوئے اسکا بازو پکڑ کر اپنے گھر سے با ہر نکا ل کر اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا ۔
لیکن اسے اس کے تھپڑ اور گالیوں کا ذرا سا بھی ملال نہیں تھا ۔وہ ایک نےءجذبے سے سر شار مسکراتا ہوا گھر کی جانب چل پڑا ۔راستے میں اسنے فلار شاپ سے Red Rose کا گل دستہ لیا اور اسکے کارڈ پر لکھا ۔۔۔۔۔
“My loving wife i hold your hand tell my last breath.”
اور وہ گلدستہ کو لیکر خوشی خوشی گھر کی طرف چلا ۔گھر آ کر کیا دیکھتا ہے کہ خلاف۔معمول۔ اسکی وائف bed پر بے خبر سو ئ ہوئ ہے۔ وہ اسکو جگانے کے لئے ہاتھ لگاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اسکے وجود میں زندگی کی رمق باقی نہیں ہے ۔۔۔۔وہ اپنی تشففی کے لئے ڈاکٹر کو کال کرتا ہے اور اسکے آنے تک دیوانوں کیطرح کبھی اسکے ہاتھوں کو کبھی اسکے ہونٹوں کو اپنی سانسوں کی گرمی دیتا ہے ۔اسکا بارہ سالہ بیٹا فوزین بھی اپنی ماں کے پیروں کو اپنے ننھے ہاتھوں سے گرمی دیتے ہوئے پکارتا ہے ۔۔۔۔”مما اٹھیےء آج اپکو مارننگ واک پر نہیں جانا ہے۔مجھے قرآن نہیں پڑھانا ہے آج ،روز مارننگ واک سے آکر مجھے پڑھاتی تھیں آپ ۔”اٹھو نا مما پلیز ۔۔۔۔۔۔ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر اپنی شیفق مہربان ماں سے لپٹ کر زارو قطار روتا ہے۔ ڈاکٹر آتا ہے اور کہتا ہے “She is no more.” اتنا سنتے ہی حمزہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے ،تبھی ڈاکٹر کہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”You know she is suffering cancer” اتنا سنتے ہی وہ ڈاکٹر کو انکھ پھاڑ کر حیرت سے دیکھتا ہے ۔ تب اسکو پتہ چلتا ہے کہ اسکی جان عزیز بیوی کینسر جیسے موزی مرض سے اکیلے جنگ لڑ رہی تھی ۔ وہ اسکے رائٹنگ ٹیبل کے پاس جاتا ہے جہاں اسکے لئے letter رکھا ہوا ملتا ہے ۔جسمیں اس نے لکھا تھا ۔
میرے ہمدم ،میری زندگی !!
جب آپ کو یہ خط ملیگا ۔میں اس دنیا سے بہت دور قبر خموشاں میں ابدی نیند سو رہی ہونگی۔ میں آپ کو بتاتی ہوں کہ میں کینسر سے زندگی کی جدوجہد کر رہی تھی ۔جس دن ڈاکٹر نے confirm کہا کہ مجھے cancer ہے اور میں ایک مہینے سے زیادہ نہیں جی پاؤں گی۔ ۔۔؟تب مجھے موت کا اتنا ڈر نہیں لگا ،جتنا اس پل لگا ۔۔جب آپ نے “طلاق ” کے پیپر میرے ہاتھ میں دئے ۔cancer سے میرا وجود آج مرےگا۔ ۔۔۔لیکن میری روح کو آپ نے ایک مہینہ پہلے ہی مار دیا ۔۔۔۔۔لیکن میں نہیں چاہتی تھی کہ آپ مجھے divorce دیں۔ آپ کے Divorce paper میں اگر میں اسی پل Accept کر لیتی ۔اور ویسے بھی ایک مہینے کے بعد تو میری موت یقینی تھی۔ تب شا ید آپ اور آپ کے بیٹے کے درمیان جو فاصلے بڑھ جاتے وہ سا ری زندگی نہیں مٹ پا تے حمزہ ۔اسلئے میں نے آپ سے ایک مہینے ساتھ رہنے کا وقت لیا ،تا کہ آپ کے ساتھ محبّت بھری وہ رہگزر جنکا حقیقت میں اب کوئی وجود نہیں ہے ،پھر سے ہمارے بیٹے کی نظروں سے گزرے تا کہ وہ ہماری موت کے بعد آپ کو اسکا ذمدار نا ٹھراءے ۔ وہ یہ خط پڑھکر دیوانوں کی طرح اس کے جسم خاقی سے لپٹ کر زار زار رو رہا تھا ۔اسے
صحیح معنوں میں اپنی بیوی فائزہ سے سچی محبّت تھی ۔اور اب اسے رہ رہ کر یہ احساس کچوکے لگا رہا تھا کہ اسکی بیوی اسکی محبّت کینسر جیسے موزی مرض سے اکیلے جوجھ رہی تھی ۔اسکا ایک ایک پل ۔ایک ایک لمحہ ۔ایک ایک سانیس۔ ۔۔موت کے قریب لے جا رہا تھا اور وہ اسکی زندگی اور موت کے قریب کشمیکش کو کیوں نہیں سمجھ پایا ۔اسنے اپنی شریف نفس ،نیک بخت شریک حیات فائزہ اور خود کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔۔؟اسنے اپنی محبّت کو وقت کی بڑھتی ذمدارینوں میں الجھ کر خود اپنے ہاتھوں کھو دیا تھا ۔اور خود یہ اخذ کر لیا کہ ہمیں محبّت نہیں رہی ۔اب اپنی فنا ہوتی محبّت کے انجام پر سوا ےءپچھتاوےاور رونے کے سوا وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔
[email protected]