اے ایم یو کا ہنگامہ۔۔۔۔۔۔۔ کیاکیرانا ضمنی انتخابات کی طرف اشارہ تو نہیں
کاظم رضا شکیل
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آج اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد اور ہندو یوا واہنی نے شرمناک حرکت کر تعلیم کے مندر پر حملہ کیا وہ قابل مذمت ہے۔ تاریخ گواہ رہی ہے کہ اس یونیورسٹی سے سبھی مذاہب کے طلباء و طالبات نے تعلیم حاصل کر کامیابی کا پرچم لہرایا ہے۔ اگر دھیان دیا جائے تو سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری جس طرح سے بھگوالوگوں کے نشانے پر رہے ہین اور آج وہ اسی یونیورسٹی میں تھے جب نعرے بازی اور ہنگامہ بلوائی کررہے تھے۔ اگر یہ دیکھا جائے کہ محمد علی جناح کی تصویر کا معاملہ ہے تو بھائی ابھی اترپردیش کے کابینہ وزیر سوامی پرساد موریہ کا ہی بیان دیکھ لیجئے۔ جناح پاکستان کے ہیں اس سے ہمارے ملک بھارت کے مسلموں کا کوئی سروکار نہیں جناح کی تصویر ہی کیا ہم تو کہتے ہیں تاریخ کی کتابوں سے بھی ان کا نام ہٹ جانا چاہئے۔ ایک کہاوت ہے جس کی شخصیت مٹانا ہو اس کا نام لینا بند کردو۔
اب آتے ہیں آج کے ہنگامے کے پیچھے کی کچھ اور سازش کی، کیرانہ کا لوک سبھا ضمنی انتخابات کا بگل بج چکا ہے اب تک اترپردیش میںہوئے لوک سبھا کے دونوں ضمنی انتخابات بی جے پی ہار چکی ہے۔ مغربی اترپردیش میں بھی بی جے پی کی وہ ساکھ بچتی نظر نہیں آرتی۔ وزیراعلیٰ ہوں یا پھر بی جے پی کے ریاستی صدر مہندر ناتھ پانڈے دونوں اس معاملے میں ابھی تک کامیاب رہے ہیں جس کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ ماحول نہیںبن پارہا ہے جس کی بی جے پی کو آبِ حیات کیلئے ضرورت ہے آج کا ہنگامہ کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ ہی نظر آتا ہے۔ اس ہنگامے سے ضروری طریقے سے کیرانہ کے ضمنی انتخابات میںفائدہ اٹھانے کی کوشش دیکھی جارہی ہے کیونکہ اگر جناح کی تصویر کا معاملہ ہے تو وہ کئی دہائیوں سے لگی ہے چار سال کی مودی حکومت اور ایک سال سے زیادہ کی یوگی حکومت یا یہ بھی کہیں کہ اس سے قبل کی کلیان سنگھ، راج ناتھ سنگھ یا پھر مرکز کی اٹل بہاری باجپئی کی حکومت نے ہٹوانے کی کوشش کیوں نہیں کی جبکہ یہ کوئی بڑا کا نہیں۔ آج کا ہنگامہ کیرانہ ضمنی انتخابات کی تیاری اور لوک سبھا عام انتخابات کا ریہرسل ہی نظر آتا ہے لیکن پولیس کا رول بھی یہی دکھاتا ہے کہ مخالفت کو کچلا جائے گا۔
ضضض