اودھ کی خاک اوڑھے سو رہا ہے دبیر

0
998

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

آفتاب احمد

مداح ِ امیر ابن امیر آتا ہے
دربار میں شاہوں کے فقیر آتا ہے
مشتاق ِ ُسخن خلق چلی آتی ہے
لو مرثیہ پڑھنے کو دبیر آتا ہے
کربلا کا واقعہ کائنات کی ہر شئے پر اثر انداز ہوا ہے اور ہر زبان کے ادب نے کربلا کے موضوع سے فکری روشنی حاصل کی ہے۔ کربلا محض ایک حدیثِ غم ہی نہیں بلکہ اسرارِ حیات و کائنات کی معرفت سے بھر پور ایک بے مثال اخلاقی و تربیتی مخزن بھی ہے۔ اطاعتِ معبود ،حق پروری،حق گوئی، عرفانِ ذات، حقوق انسانی کی شناخت، شرافتِ کردار، صبر و ایثار اور ظلم و طاغوت کے خلاف دائمی ثابت قدمی جیسی اعلیٰ انسانی اقدار مکتبِ کربلا کے وہ بنیادی سبق ہیں کہ جو شخصی زندگی سے لیکر معاشرتی زندگی تک سماج کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ یوں تو اردو ادب کی تمام تخلیقی اصناف کربلا کے ادراک سے لبریز نظر آتی ہیں لیکن اردو شاعری کی تاریخ اس موضوع کے بغیر اپنی شناخت ہی مکمل نہیں کر پاتی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اردو شعر و ادب کربلا سے صرف متاثر ہی نہیں ہوئے بلکہ مضمونِ کربلا نے اردو شاعری کو کئی گرانقدر اصناف سے آراستہ بھی کیا ہے۔ تاریخِ ادب کے جائزہ سے یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ سلام، مرثیہ ، نوحہ اور منقبت جیسی اصناف کی تجسیم و تخلیق ہی کربلا کے بغیر نا ممکن تھی۔
عہد قدیم سے لے کر اب تک کے شعراء میں اگر مرثیہ کی مخصوص صنف سے ہٹ کر نگاہ کی جائے تو اردو زبان کی غزل کو بھی ہر عہد کے شعراء کربلا کی تشبیہات اور استعارات سے مزیّن کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ اِس میدان میں مسلمان شعرا کے علاوہ اردو زبان کے بعض غیر مسلم شعراء کی تخلیقات بھی کربلائی استعارات اور افکار سے لبریز رہی ہیں اور یہ بات کربلا سے اردو کے لا زوال رشتے کی گواہی کو اور زیادہ مضبوط کر دیتی ہے۔ شاعری میں کربلا کے موضوع کی شعوری ترکیب مرثیہ ، سلام ، نوحہ او ر رباعی میں ظہور کرتی ہے جبکہ اس موضوع کی غیر شعوری ترکیب کا حوالہ اردو غزل و نظم میں موجزن نظر آتا ہے۔ اردو غزل کی لغات میں پیاس، وفا ،دشتِ بلا، شام غریباں، مقتل، نوکِ نیزہ، گریہء خون ، خیمہ ،قفس، درد ، خیر و شر، تشہیر، کوچہء عشق، فرات، دھوپ، سجدہ، جراحت،ماتم، سفر، یتیمی ، تشنہ دہانی ،غربتِ جاں ، چراغِ خیمہ ، آخری وداع، رسن بستگی،صبر، بیکسی، خنجرِ قاتل، شہیدِ وفا،مسافرت، حُر، گردِ سفر،تیغِ ستم، چہرے پہ خون ملنا،بندشِ آب،سر بُریدگی، بازو قلم ہونا، مشکیزہ، دریا، پامالی، بازارِکوفہ ، خاکِ مزار یا خاکِ شفا ، وقتِ عصر، چادرِ سر،عزا، مجلس اور اس جیسے کئی دیگر استعارات و اشارات کا معدن کربلا کے سوا کچھ اور قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مرزادبیرؔ مرثئے کی عظمت کے بنیادی ستونوں میں ہیں، یہ ایک ایسا بیان ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری ہمیشہ سوالیہ نشانوں کی زد پر رہی۔ میرے خیال میں اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دبیرؔ کو دبیرؔ کی شکل میںنہیں دیکھا گیا ان کی تنقید و تجزیے پر ہمیشہ تقابل جاری رہا اور وہی مراثی ٔدبیرؔ کی شعریات بن گیا اس پونے دو سو سال میں مطالعۂ دبیرؔتقابلی اور دفاعی شعریات سے باہر نہ نکل سکا۔
مرزا دبیرؔ کے مطالعے کے وقت دو باتوں پر خاص طور سے توجہ رکھنے کی ضرورت ہے اول اس عہد کا تہذیبی خراج اور اس کا ادبی معیار دوسرے مرثییٔ کا نظام اور اس کی تہذیب، یوں تو ہر ادبی صنف کے نظام اور اسکی تہذیب میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے، لیکن مرثیہ ان سب سے بڑی حد تک مختلف ہے۔ وہ دوسری اصناف سے استفادہ بھی کرتا ہے اور الگ بھی ہے بعض باتیں مرثئے اور دوسری اصناف میں مشترک ہیں لیکن مرثییٔ کے موضوع نے انہیں مختلف بنادیا ہے۔ مثلاً تغزل عشقیہ اور مسرت آگیں شاعری کا حصہ ہے اور مرثیہ اظہار غم کے لیے مخصوص ہے لیکن شعراء نے مرثییٔ میں بھی تغزل کے پہلو پیدا کئے ہیں اور مرثییٔ میں چہرے، رجز، سراپا اور جنگ میں اکثر تغزل کے جوہر دکھائے ہیں۔ اسی طرح مدح قصیدے کا بنیادی عنصر ہے جس میں ممدوح کی شخصیت، اس کادبدبہ، اسکی عظمت، اس کا عدل وانصاف، اسکی سخاوت یہاں تک کہ اس کے گھوڑے اور تلوار وغیرہ کی تعریف میں مبالغہ آرائی کی جاتی ہے۔ مرثیے میں شعراء نے مدح بھی نظم کی اور جنگ کے مناظر بیان کرنے میں گھوڑے اور شمشیر و سناں کی تعریف کا کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑا لیکن مرثیے کا ممدوح عام بادشاہ یا امیر نہیں۔ اس لیے مرثییٔ کی تہذیب میں مبالغہ منقبت اور عقیدت و احترام کا اظہار بن گیا۔
اردو کے باکمال شاعروں میں مرزا دبیر بھی ہیں جن کو عام طور پر نظر انداز کیاگیا۔ان کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق ہیں ۔ان کے متنوع کلام کا غائر نظر سے مطالعہ کیا گیا اور نہ اس کے حسن کواجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ۔مرزا دبیر کے کلام کا خاص جوہر زور بیان ، شوکت الفاظ ، بلندی ، تخیل اور صنائع کا استعمال ہے۔
لیکن جہاں تک خیالات کی بلند پروازی علمی اصطلاحات ، عربی فقروں کی تضمین اور ایجاد مضامین میں ان کا فن خوب چمکا ہے۔ اور یہ ان ہی کا خاصہ ہے کہ وہ ہر واقعہ کو بیان کرنے میں تشبیہ اور استعارے اور تلمیح و صنائع کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ جس سے اشعار کی شان و شوکت بڑھ جاتی ہے۔
مرزا دبیر کے ہاں مناظر کی تصویر کشی میں اصلیت کا کافی رنگ ملتا ہے ۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں وہ میر انیس کے ہم پلہ ہوتے ہیں ۔ ان مناظر کی تصاویر کے علاوہ دبیر نے تلوار اور گھوڑے کی تعریف میں بھی پرواز خیال اور ایجاز مضامین کا بہت ثبوت دیا ہے ۔ جس سے ان کی طبیعت میں خلاقی کا عنصر غالب تھا۔
مرزا دبیر کے یہاں تشبیہات و استعارات کا بھی خاص جوہر ہے۔ مرزا دبیر اپنی دقت آفرینی سے ایسے عجیب و غریب اور نادر تشبیہات و استعارات پیدا کرتے ہیں کہ کوئی اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا ۔
مرزا غلام حسین کے بیٹے تھے۔ دہلی میں پیدا ہوئے۔ سات سال کی عمر میں والد کے ہمراہ لکھنو منتقل ہوگئے۔ گیارہ سال کی عمر میں دبیر کے والد انہیں میر ضمیر کے پاس لے گئے اور کہا کہ صاحبزادے کو مداحئ اہلبیت کا شوق ہے تو میر ضمیر نے دبیر سے کہا صاحبزادے کچھ سناؤ تو مرزا صاحب نے یہ قطع پڑا جس پر ضمیر اور حاضرین مجلس پھڑک اٹھے اور کوئ کہنے لگا “واہ کیا بلا کی طبیعت پائ ہے”
کسی کا کندہ نگینے پہ نام ہوتا ہے
کسی کی عمر کا لبریز جام ہوتا ہے
عجب سرا ہے یہ دنیا کہ جس میں شام و سحر
کس کا کوچ کسی کا مقام ہوتا ہے
مرزا دبیر 1803ء دلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں ہی محرم کی مجالس میں مرثیے پڑہنے شروع کر دیئے تھے۔
بچپن سے مرثیہ گوئی کا شوق تھا۔ مشہور مرثیہ گو مظفر حسین ضمیر کے شاگرد ہوئے۔ جب میر انیس فیض آباد سے لکھنؤ آئے تو دونوں میں دوستی ہوگئی۔ 1857ء تک لکھنؤ سے باہر نہ نکلے۔ البتہ 1858ء میں مرشد آباد اور 1859ء میں پٹنہ عظیم آباد گئے۔ 1874ء میں ضعف بصارت کی شکایت ہوئی۔نواب واجد علی شاہ کی خواہش پر بغرض علاقے کلکتہ تک گئے اور مٹیا برج میں مہمان ہوئے۔۔ بہ کثرت مرثیے لکھے جو کئی جلدوں میں چھپ کر شائع ہوچکے ہیں۔
مرزا دبیر نے لکھنؤ پہنچ کر تعلیمی مدارج طئے کئے اور اسی شہر کے نامور علماء سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، صرف و نحو، منطق، ادب و حکمت کی درسی کتابیں پڑھیں ، حدیث، تفسیر قرآن و اصول حدیث و فقہ کا علم حاصل کیا۔ شاعری کا ذوق بچپن سے تھا۔
گیارہ سال کی عمر میں ضمیر کی شاگردی اختیار کی۔ ضمیر نے خود انہیں دبیر تخلص عطا کیا۔ یہ 1814ء کی بات ہے۔ اس وقت لکھنؤ میں ناسخ و آتش کے چرچے تھے۔ مرزا دبیر نے مرثیہ نگاری میں بلند مقام حاصل کیا۔ ابھی تک مرزا کے مرثیوں کی صحیح تعداد متعین نہیں ہوسکی ہے۔ پھر بھی دفتر ماتم کی تمام جلدوں کے مراثی اگر شمار کر لئے جائیں تو یہ تعداد چار سو سے اوپر پہنچتی ہے۔ ان کے بعض مرثیوں کے مطلعے درج کئے جاتے ہیں
دبیر بڑے پرگو مشاق اور قادر الکلام شاعر تھے۔ جذبات نگاری اور شوکت الفاظ کو دبیر کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔ سراپا نگاری اور رزم نگاری کے اعلا نمونے دبیر کے یہاں ملتے ہیں۔ دبیر کے مرثیوں میں ضائع و بدائع، لفظی و معنوی خوبیوں کا استعمال فیاضی سے ملتا ہے۔ بعض مرثیوں میں تو دبیر نے تمام صنعتیں ایک ساتھ نظم کر دی ہیں۔ دبیر کے یہاں مرثیوں میں علمیت، فنی پختگی اور زبان و بیان کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ ان کی تعلیم اور عالمانہ ژرف نگاہی کی وجہ سے مرثیوں میں وزن و وقار آگیا ہے لیکن کبھی کبھی یہی محاسن کھٹکنے بھی لگتے ہیں۔
ان کی ایک کتاب ابواب المصائب بھی ہے۔ یوں تو ان کے ہزاروں شعر مثال میں پیش کئے جاسکتے ہیں ، مگر میر انیس کی وفات پر ان کا بے نظیر قطعہ تاریخ اور اس کا آخری شعر معجزہ فن کا نمونہ ہے۔
آسماں بے ماہ کامل سدرہ بے روح الامیں
طور سینا بے کلیم اللہ و منبر بے انیس
ادبی خدمات
انہوں نے اپنی زندگی میں تین ہزار (3000) سے زائد مرثیے لکھےجس میں نوحے اور سلام شامل نہیں ہیں۔
انہوں نے بغیر نقطوں کے ایک کلام لکھا جس کا پہلا شعر تھا
’’ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہوا‘‘
اس بے نقطہ نظم میں مرزا دبیر نے اپنے تخلص دبیر کی جگہ اپنا تخلص ’’عطارد‘‘ استعمال کیا اور اس پوری نظم میں شروع سے آخر تک ایک نقطے کا استعمال بھی نہیں کیا۔ ایک انگریز مصنف ، پرو فیسر اور قدیم اردو شاعری کے کے ماہر پروفیسر فرانسس ڈبلیو پرچیٹ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ’’ اس طرح کا مکمل مرثیہ نگار، شاعر اور انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا‘‘

آپ کے چند مشہور مرثیے
۔ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔
۔ دست ِخدا کا قوتِ بازو حسینؑ ہیں۔
۔ جب چلے یثرب سے ثبت مصطفٰےؐ سوئے عراق۔
۔ بلقیس پاسبان ہے، یہ کس کی جناب ہے۔
۔ پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی۔
اگرچہ مرزا دبیر کی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی لیکن انہوں نے شاعری کی دوسری اصناف پر بھی بہت کام کیا جس میں سلام، رباعی، قطعات اور غزلیات بھی شامل ہیں۔ آپ کی غزلوں کا اسلوب مرزا غالب سے ملتا جلتا ہے۔
مرزا دبیر اور میر انیس نے اردو ادب پر، خاص طور پر مرثیہ نگاری کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انہوں نے مرثیہ نگاری میں بہترین اسلوب اور اصنا ف متعارف کرائیںاور الفاظ کا بہترین چناؤ اور استعمال کیا۔
مرزا دبیر اور میر انیس نے مرثیہ نگاری کو جو پہچان دی وہ صرف انہیں سے منصوب رہے گی۔ ان کی مرثیہ نگاری نے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے پر بہت ذیادہ مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔جب بھی مرثیہ نگاری اور اردو ادب میں خدمات کا ذکر کیا جائے گا مرزا دبیر کا نے ہمیشہ سر فہرست لکھا جائے گا۔
خاندانی شاعر نہ تھے۔ لڑکپن میں مرثیہ پڑھتے تھے۔ اس شوق نے منبر کی سیڑھی سے مرثیہ گوئی کے عرش کمال پر پہنچا دیا۔ان کے کلام کی بیس جلدیں لکھنؤ سے شائع ہو چکی ہیں۔ فقہہ کے بڑے عالم تھے۔ اپنے 7 مرثیوں میں جنات کا ذکر کیا۔ ایک بے نقطہ مرثیہ بھی کہا۔ ڈاکٹر تقی عابدی کی تحقیق کے مطابق مرزا دبیر نے اردو ادب میں سب سے زیادہ رباعیات کہیں جن کی تعداد 1332 ہے اور جن کو 106 مضامین پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جیسے دبیر خود ایک مصرعے میں کہتے ہیں
“مضمون میرا گھر پوچھتے آتے ہے فلک سے”
مرزا دبیرکی شہرت و منزلت عالم ِ شباب ہی میں اتنی عام ہو چکی تھی کہ شاہ اودھ غازی الدین حیدر نے ان کو شاہی امام باڑے میں دعوت دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف خلیق، ضمیر، دلگیر اور فصیح وغیرہ کا طوطی بول رہا تھا ان کا کہنہ مشق اساتذہ کی موجودگی میں نوجوان دبیر کی شاہی مجلس پڑھنا اس کے فنی کمال کی دلیل ہے۔
مرزا دبیر نے بھی اپنے مرثیوں میں تلمیحاتِ رُسل کا وسیع ذخیرہ برتا ہے۔ مرزا دبیر کی زیادہ تر تلمیحات اسلامی اور رُسل سے متعلق ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت ان کا یہ مذکورہ بالا بند ہے
لقمان نے حکمت کی سند پائی ہمیں سے
عیسیٰ نے بھی سیکھی ہے، میسحائی ہمیں سے
ایوب نے کی اخذ شکیبائی ہمیں سے
اور مہر سلیمان کو بھی ہاتھ آئی ہمیں سے
ہم بندوں سے صانع نے کمال اپنا دکھایا
حکم اپنا، وقار اپنا، جلال اپنا دکھایا
مرزا دبیر کے مراثی میں تلمیحات کی بھر مار نظر آتی ہے اور یہ بھر مار ان کے کلام کی خامی نہیں بلکہ ان کی فنی مہارت اور چابکدستی کے زمرے میں آتی ہے اس حوالہ سے مرزا دبیر کا زبان زدِ عام بند لائق توجہ ہے
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے
ہر قصرِ سلاطین زمن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
دبیر نے بغیر نقطوں کے ایک کلام لکھا جس کا پہلا شعر
“ہم طالع ہما مرا وہم رسا ہوا”
اس بے نقطہ نظم میں مرزا دبیر نے اپنے تخلص دبیر کی جگہ اپنا تخلص ’’عطارد‘‘ استعمال کیا اور اس پوری نظم میں شروع سے آخر تک ایک نقطے کا استعمال بھی نہیں کیا۔ ایک انگریز مصنف، پرو فیسر اور قدیم اردو شاعری کے کے ماہر پروفیسر فرانسس ڈبلیو پرچیٹ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ’’ اس طرح کا مکمل مرثیہ نگار، شاعر اور انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا‘‘
مرزا دبیرکی شہرت و منزلت عالم ِ شباب ہی میں اتنی عام ہو چکی تھی کہ شاہ اودھ غازی الدین حیدر نے ان کو شاہی امام باڑے میں دعوت دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف خلیق، ضمیر، دلگیر اور فصیح وغیرہ کا طوطی بول رہا تھا ان کا کہنہ مشق اساتذہ کی موجودگی میں نوجوان دبیر کی شاہی مجلس پڑھنا اس کے فنی کمال کی دلیل ہے۔
جب غازی الدین حیدر نے اپنے عزاخانے میں ذاکری کے لیۓ بلوایا۔ مرزا دبیر منبر پر گۓ، حمد و نعت میں ایک ایک رباعی پڑھی اور پھر مسدس کا یہ بند پڑھا جو راستے میں لکھا تھا
واجب ہے حمد و شکر جناب ِ الہ میں !
فضل ِ خدا سے آیا ہوں کس بارگاہ میں
مجھ سا گدا، اور انجمن ِ بادشاہ میں !
چرچا یہ لوگ کرتے ہیں اس وقت راہ میں
ذرّے پہ چشم ِ مہر ہے مہر ِ منیر کو
حضرت نے آج یاد کیا ہے دبیر کو
یہ مرثیہ پڑھا جس کا مطلع ہے “داغ غم حسین میں کیا آب و تاب ہے” جب مرثیے کا یہ بند پڑھا تو بادشاہ رونے لگا
جب روز کبریا کی عدالت کا آۓ گا
جبّار بادشاہوں کو پہلے بلاۓ کا
انصاف و عدل ان سے بہت پوچھا جاۓ گا
تو آج داد دینے کی کل داد پاۓ گا
گل کر دیا ہے دونوں جہانوں کے چراغ کو
لوٹا ہے تیر ے عہد میں زہرا کے باغ کو
اپنے ایک مرثیے میں حضرت علی اکبر کے حال میں چہرے کو مخصوص رنگ و آہنگ عطا کرتے ہیں
محتاجِ کفن لاش ہے کس فخر جہاں کی
ہم گورِ غریباں میں ہے دھوم آہ و فغاں کی
پوچھو تو زمانے میں ہے یہ رسم کہاں کی
تابوت پہ سہر ا نہیں میت ہے جواں کی
مرنا تو ہے برحق سبھی اک روز مریں گے
لیکن یہ شباب اور یہ اجل یاد کریں گے
“دبیر کے کلام کا خاص جوہر زورِ بیان، شوکتِ الفاظ، بلند تخیل، ایجاز مضامین اور صنائع کا استعمال ہے۔ تخیل کی بلند پروازی، علمی اصطلاحات، عربی فقروں کی تضمین اور ایجاز مضامین کے زور میں وہ بے مثل ہیں یہ ان کی خاص مملکت ہے۔ ”
مرزا دبیر ایک مرثیہ نظم کر رہے تھے کہ میر انیس کے انتقال کی خبر ملی۔ مرثیہ ناتمام چھوڑ دیا اور کہا “دبیر یہ تیرا آخری مرثیہ ہے” اور یہی نامکمل مرثیہ اپنی آخری مجلس میں پڑھا۔ یہ مرثیہ حضرت عباس کے حال میں تھا اور اس میں مولاۓ کائنات اور جناب ِ ام البنین کے عقد کا بھی ذکر ہے
انجیل ِ مسیح ِ لب ِ شبّیر ہیں عباس
سرخئ سر ِ سورۂ تقدیر ہیں عباس
یہ مصحف ِ اخلاص کی تفسیر ہیں عباس
ہر جزو ِ ُکل آیۂ تسخیر ہیں عباس
شمشیر ِ خدا ہیں سپر ِ شاہ عرب ہیں
خالق کے سوا قبضہ میں اس تیغ کے سب ہیں
اگر میرا نیس کے مرثیوں اور مرزا دبیر کے مرثیوں میں اختلافی پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے تو دونوں شعرا کے ہاں مستعمل تلمیحات میں چند نمایاں اختلافات و افتراقات بھی سامنے آتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم تلمیح حضرت آدمؑ کی ہے۔ مرزا دبیر نے حضرت آدمؑ کی تخلیق، ابلیس کا آدمؑ کو سجدے سے انکار، ذات کائنات کا ابلیس کو دھتکارنا، حضرت آدمؑ کو تمام اشیا کے نام سکھلانا، حضرت حواؑ کی تخلیق اور دونوں کی جنت سے بے دخلی کو کئی بار اپنے مرثیوں میں بیان کیا ہے جبکہ میرانیس کے ہاں حضرت آدمؑ کی تلمیح کہیں بھی بیان نہیں ہوئی۔ اس کے بعد شمر کی تلمیح بھی میر انیس نے ایک بار غیر واضح انداز میں بیان کی ہے جس سے پوری آگاہی حاصل نہیں ہوتی اس کے برعکس مرزا دبیر نے شمر کی تلمیح کو بھی کئی بار نہایت واضح انداز میں بیان کیا ہے حضرت محمدﷺ کا معجزہ شقِ بدر بھی مرزا دبیر کے ہاں تلمیح کی صورت میں موجود ہے جبکہ میر انیس نے ان کے حوالے سے معجزات کا ذکر اپنے مرثیوں میں کہیں بھی نہیں کیا۔ حضرت عیسیٰؑ کے معجزات کا ذکر بھی میر انیس کے ہاں دکھائی نہیں دیتا جبکہ مرزا دبیر نے کئی بار اپنے مرثیوں میں حضرت عیسیٰؑ کے معجزات کا ذکر کیا ہے۔ مرزا دبیر نے یونانی فلاسفروں اور دانش وروں افلاطون، ارسطو اور سقراط کا ذکر بھی کئی بار اپنے مرثیوں میں کیا۔ فرعون اور غزوہ کے خدائی کے دعوئوں کا ذکر بھی مرزا دبیر کے ہاں واضح دکھائی دیتا ہے۔
مرزا دبیر کانام اور کلام عام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی میں نہ ان کاکلام چھپا نہ ان کے بارے میں کوئی کتاب لکھی گئی ۔مراثی دبیر کی دو جلدیں ۱۸۷۰ ء میں نو لکشور پریس لکھنؤ میں چھپیں۔ یہی سا ل ان کی وفات کاہے ۔ان دو جلدوں میں ۹ ۴ مرثیے ہیں جبکہ ڈاکٹر تقی عابدی کی شماریات کے مطابق ان کے مراثی کی تعداد ۶۷۰ سے کم نہیں ہے ان میں سے بھی ۲۸۵ مرثیے ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہونے پائے ہیں اور بیا ضوں میں محفوظ ہیں ۔
اسے اردو ادب کا بہت بڑا سانحہ کہیے کہ مرزا سلامت علی دبیر بحیثیت انسان اور بحیثیت مرثیہ نگار جس مرتبے کے مستحق تھے ہم اردو والے نہ صرف انھیں وہ مرتبہ دلانے میں ناکام رہے ہیں بلکہ انھیں متعارف کرانے سے بھی گریز کرتے رہے ہیں۔ دراصل ہمارا یہ عمل اردو ادب کو عظیم ادبی سرمایہ سے محروم رکھنے کی سعی کے مترادف ہے۔
وہ اپنی صفت کے طور پر نہیں بلکہ خدا کے انعام کے طور پر اس کا بیان کرتے ہیں ۔ اظہار کا یہ انداز بھی اس عہد کی تہذیبی قدروں کی نشان دہی کرتاہے۔ ذیل کے بند میں وہ اپنی مضمون آفرینی اور قدرتِ سخن کا ذکر کرتے ہوئے بیت میںصنعتِ تضاد سے ایک خاص لطف پیدا کرتے ہیں
میں بلبلِ خوش لہجہ، دبستانِ سخن ہوں
میں معرکے میں، رستمِ بستانِ سخن ہوں
میں وارث اورنگِ سلیمانِ سخن ہوں
ایمانِ سخن، دین سخن، جانِ سخن ہوں
عاجز ہوں کہ بندہ ہوں پر اعجاز بیاں ہوں
سرتابہ قدم ہیچ ہوں، لیکن ہمہ داں ہوں
مرزا دبیر کوبھی اگر کبھی یادکیاجاتا ہے تو صرف ان کے مراثی کی وجہ سے حالانکہ اصناف سخن کے اعتبار سے کوئی صنف ایسی نہیں جس میں ان کی تخلیقات موجود نہ ہوں۔ان سے یادگار غزلیں ہیں رباعیات اور قطعات ہیں ،مثنویاں ہیں،حمد،نعت ،منقبت ،سلام ، خمسے ہیں کلام منقوطہ بھی ہے کلام غیر منقوطہ بھی ہے ۔اگریہ کہا جائے کہ تمام اصناف ادب ،تمام صنائع وبدائع سب سے زیادہ ذخیرۂ الفاظ مروجہ تمام محاورے اور روز مرہ کا مطالعہ کرنا ہوتو صرف مرزا دبیر کا کلام کافی ہے۔
تلوار کی تعریف میں مضمون آفرینی کے جوہر ملاحظہ کیجئے
ہیبت میں تزلزل میں سماتا بہ سمک ہے
ہفت آئینہ چرخ سے پار اسکی چمک ہے
شور آبِ دم تیغ کا زخموں کا نمک ہے
بجلی کی تڑپ ہے کبھی شعلہ کی لپک ہے
گہہ مرگِ مفاجات ہے اور گاہ قضا ہے
گہہ ابر ہے گہہ رعد ہے گہہ سیل فنا ہے
چھل بل تھی چھلاوا تھی طلسمات تھی اسرار
چالاک، سبک سار، طرح دار نمودار
نیزہ کہیں، خنجر تھی کہیں اور کہیں تلوار
بجلی تھی کسی جا، تو کہیں نور کہیں نار
سیماب تھی، سیلاب تھی، طوفاں تھی ہوا تھی
شعلہ تھی شرارہ تھی قیامت تھی بلا تھی
مرزا دبیرؔ تلوار کی کاٹ اور جنگ کے مناظر دکھانے کے لیے ہر بار نئے تلازمات اور تشبیہات وضع کرتے ہیں اور سامع کوایک نئی جنگ کا احساس دلاتے ہیںان بندوںمیں تکرار، تواتر، ہم صوت الفاظ اور ابرو رعد کے استعاروں سے ایک نئی فضا تخلیق کردی ہے۔
ہمیں ڈاکٹر تقی عابدی کا مرہون منت ہونا چاہیے کہ انہوں نے ۱۳۳۳ رباعیات کا پتہ چلایا ہے کہ اردو میں سب سے زیادہ رباعی کہنے والا شاعر دبیر ہے یہ رباعیاں متنوع موضوعات پر ہیں حمدیہ ،نعتیہ ،منقبتی کے علاوہ فلسفیانہ ، اخلاقی اور سماجی موضوعات ان میں شامل ہیں
نعتیہ رباعیات
(1)
کیا روئے پیمبر نے ضیا پائی ہے
فرقان کی بِلا فرق یہ زیبائی ہے
ہرشے سے مقدم ہے ہمیں اس کا ادب
قرآن سے پہلے یہ کتاب آئی ہے
(۲)
اندامِ بنی نے کیا صفائی پائی
سائے کی بھی وصل سے جدائی پائی
وہ سایہ ہوا دواتِ قدرت میں جمع
لکھنے کو قضانے روشنائی پائی
(۳)
معراج نبی میں جا ئے تشکیک نہیں
ہے نور کاتڑکا شبِ تاریک نہیں
قوسین کے قرب سے یہ ثابت ہے دبیرؔ
اتنا کوئی اللہ کے نزدیک نہیں
مرزا دبیر سے منسوب کتنی مثنویات ہیں جن میں اہم احسن القصص اور معراج نامہ ہیں اول الذکر میں انہوں نے اپنے اعتقاد کے مطابق چہاردہ معصومین کی پیدائش اور ان کی زندگی کے اہم واقعات نظم کیے ہیں ۔یہ طویل مثنوی ہے جو چودہ ابواب اور ۳۳۱۶ اشعار پر مشتمل ہے پہلا باب حال ولادت باسعادت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے انداز مثنوی کاہے اور اشعار دوسو سے زائد ہیں ۔
مرزادبیر مثنوی میں جب مدحت پر آتے ہیں وہ سلاست اور روانی دکھلاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے خیالات اورالفاظ کاسیلاب ہے کہ امنڈتا چلا جاتا ہے ۔یہ حصہ کا مثنوی ہونے کے باوجود اس میں قصیدوں کی شان موجودہے لہجہ باوقار ،بلند آھنگ،الفاظ میں جاہ وجلال ،شان وشوکت ،صنائع وبدا ئع عروج اظہار پر ہیں ۔
پڑھو کلمہ گویو پڑھو اب درود
میں لیتا ہوں نامِ حبیبِ ودود
شہِ مرسلاں ، قبلۂ شش جہات
محمد ، محمد علیہ الصلوٰت
حضور کاسایہ نہ ہونا نعت گوشعرا کامحبوب موضوع ہے اس عنوان سے وہ حسن تعلیل کی عمدہ مثالیں پیش کرتے ہیں مرزا دبیر نے بھی حضور کاسایہ نہ ہونے کی کتنی ہی دلیلیں پیش کی ہیں
کوئی بے مثال ایسا آیا نہیں
کہیں جسم انور میں سایا نہیں
نہ کیوں ساتھ سایہ کا ہونا گوار
کہ فضل خدا ساتھ ہے سایہ دار
دبیر حب نبی میں ڈوبے ہوئے تھے اور جس کسی صنف سخن میں طبع آزمائی کی اس کو ذکر نبی سے محترم اور معزز بنادیا رباعی ،قطعہ ،مثنوی ،مرثیہ ہرایک صنف کو موزوں قرار دیتے ہوئے فن کا وقار بھی قائم رکھا اور حضور کی فضیلت کے ذکر سے ان کا مرثیہ بھی آسمان تک پہنچا دیا ۔
مرزا سلامت علی دبیر کا انتیقال 29 اگست لکھنو میں ہوا اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو اپنے ہی گھر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔آپ کی عمر 72 سال تھی ۔
اود ھ کی خاک اُوڑھے مدتوں سے گہری نیند شہرہ آفاق مرثیہ نگار سور ہا ہے ۔
آفاق سے استاد یگانہ اٹھا
مضموں کے جواہر کا خزانہ اٹھا
انصاف کا نوحہ ہے یہ بالائے زمیں
سرتاج فصیحان زمانہ اٹھا

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here