افسانہ

0
8304

یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم حاصل کرنے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)

سلیم خان

اس نے جب ہوش سنبھالا تو ضرورتیں اس کے قدموں سے لپٹی ہوئی تھیںاور حُقوق و فرائض دامن گیر تھے،جن کی تکمیل ہی سفرِ حیات تھا۔اس کے پیش رویہ سفر طئے کر چکے تھے۔بحر و بر کا سفر،جنگل بیابان اور ریگ زاروں کا سفر۔جہاں سکھ کی کلیاں اور دکھ کے کانٹے بچھے ہوئے تھے۔جن پر چل کر کبھی اس کے قدموں سے جھرنے پھوٹ پڑے تھے،دہکتی آگ گلزار بن گئی تھی اورمصائب کے اونچے اونچے پہاڑموم کی طرح پگھل گئے تھے۔گویا یہ سفر ،سفر نہ ہو بلکہ ایک آزمائش ایک امتحان ہو۔
یہ سفر اس کے لیے مشکل ضرور تھا لیکن ناممکن نہیں،کیوںکہ اس کی جھولی میںعلم و حکمت کابیش بہا خزانہ اور اپنے اسلاف کے تجربات کا سرمایہ تھاجو زندگی کی انجان تاریک راہوں میں مینارئہ نور کی طرح اس کی رہنمائی کر سکتا تھامگردو قدم چلنے کے بعد ہی اسے یہ راستہ کافی دشوار اور پیچیدہ لگا۔اندیشوں کے گہرے سایوں نے اسے آگھیرا اور وہ ایک دو راہے پر رک گیا۔اس نے اپنے اطراف کا بغور جائزہ لیا تو دیکھا کہ ایک طرف کچھ لوگ فطری رنگ میں بڑی سادہ ،بے غرض اور بامقصد زندگی بسر کررہے ہیں۔دوسری طرف ایک خوش نما دنیا ہے جہاںلوگ بڑی عالی شان پُر لطف عیش و نشاط بھری زندگی جی رہے ہیں۔ اس کے قدم بے ساختہ خوش نما دنیا کی طرف اٹھ گئے۔جب وہ قریب پہنچا تولوگوں کے زرق برق معطر لباسوں، ست رنگی روشنیوں میںنہاتی فلک بو س عمارتوںاوردل فریب رقص و سُرود کی محفلوں نے اسے مسحور کردیا۔ اس کے دل میں خواہشوں کی قوس ِ قزح اتر گئی اور بلا تا مل اس نے ان لوگوں کی تقلید کو اپناشِعار بنا لیا۔
اب اس کے سامنے ایک سبز مخملی رہگزر تھی جس پر رنگا رنگ تتلیاں آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔وہ آنکھوں میں خواب سجائے ماہ و سال کی گردشوں سے بے خبر دوڑتا رہا۔ہر خواب کی تکمیل ایک نئے خواب کو جنم دیتی رہی۔اور وہ دلکش رنگین تتلیوں کے تعاقب میں آگے بڑھتارہا۔اس کی سماعت کے دریچوں پر ہوس کے تالے پڑچکے تھے۔اور وہ ایک مشینی انسان بن کے رہ گیاتھا۔وقت گزرتا رہا اور وہ زمین سے آسمان تک فضاؤں، خلاؤں میں اڑتاچاند تاروں پر کمندیں ڈالتا رہااوراپنی جھولی بھرتا رہا۔
ایک طویل مدت بعد، جب اس کے بالوں میں چاندی پھیل گئی،عمر کے بوجھ سے کمرجھک گئی،کتابوں کے الفاظ رینگتے دکھائی دینے لگے اور تھکے پیروں نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ تو اس نے آرام و استراحت کے لیے اپنا سارا بوجھ اور آنکھوں پر چڑھی عینک اتاردی۔تب اس کے وجود میں احساس کی لہریں دوڑ گئیں اور اسے یوں لگا۔جیسے وہ کسی طویل طلسمی خواب سے بیدار ہوا ہو۔اور جب احساس کے سبھی دریچے کھل گئے تو اس نے اپنے آپ کوایک گھنے جنگل میں ببول کی شاخوں پر بنے مچان پر پایا۔جس کی دوسری شاخوں پرچیل، کوؤں، گرگٹ ، خنزیر اور سانپوں کی شکل کے انسانوں کا بسیرا تھا۔ان کے چہروں سے عیاری درندگی اور حیوانیت ٹپک رہی تھیں۔وہ حیران و پریشان ہواٹھا۔اورجب اس کی نظرببول کے تنے سے لپٹے ہوئے خوف ناک اژدہے پرپڑی تووہ لرزکررہ گیا۔ اس نے ماحول کا جائزہ لیا۔نیچے تاحدِ نظر بنجرزمین خاردار پودوں سے اٹی ہوئی تھی کچھ فاصلے پرایک طرف آتشی دلدل ابل رہی تھی اوردوسری طر ف ایک چٹان پرگِدھوں کا پَرا بیٹھاہواتھا۔ ان انسان نما جانوروں کے درمیان اس کادم گھٹنے لگا،اورجب اژدہا اس کی طرف بڑھنے لگا تو گھبرا کر اس نے نیچے چھلانگ لگادی۔بھالے کی اَنی کی طرح تیز انگنت کانٹے اس کے بدن میں پیوست ہوگئے۔ کانٹوں بھری ٹہنیوں میںالجھ کر اس کا پیرہن تارتار ہوچکا تھااور جسم پر جابجا گہری خراشیں آچکی تھیں۔رستے زخموں کی جلن اور چبھن سے وہ کراہنے لگا۔ اور کچھ دیر بعد جب دوپہر کا آگ اگلتا سورج اس کے وجود پر نیزے برسانے لگا۔اس کی آنکھیں چندھیانے لگیں، پیٹ دھسنے لگا اور زبان تالو چاٹنے لگی ۔اس نے اپنی بکھری ہمت بٹور کر کھڑے ہونے کی کوشش کی مگراس کے بوڑھے زخمی لرزتے پیر اس کا ساتھ نہ دے سکے۔ وہ بڑی حیرت سے ببول کی ننگی ٹہنیوں کی طرف سے دیکھنے لگا۔جو اسے نہ سایہ دے سکتی تھیں نہ پھل۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا نڈھال شکستہ وجودخار زار کی آغوش میں سما گیا۔
انجام کارکئی دنوں تک حشرات ُ الارض اور گدھ مزے لے لے لیکراپنا پیٹ بھرتے رہے۔اور پھراس کا خشک نکیلا ڈھانچہ اس خارزار کی میراث بن گیا۔!!

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here