یہ تخلیق اودھ نامہ کمپٹیشن میں شامل کی گئی ہے۔اپلوڈ ہونے کی تاریخ سے 20 دن کے اندر جس تخلیق کوسب سے زیادہ لائکس ملیں گے اسے بطور انعام 500 روپئے دئے جائیں گے۔ 100 لائکس سے کم حاصل کرنے والی تخلیق کو مقابلہ سے باہر سمجھا جائے گا۔ دیگر تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں
موسی رضا (9807694588)
مبشرہ لیق
الحمدللہ آج میرا آخری پیپر تھا،اور آج ہی شام9بجے کی ٹرین سے میں گھر کے لیے نکل گئی تھی۔قریب چھ ماہ بعد میں گھر آ رہی تھی،24 گھنٹے کے طویل سفر کے بعد،رات بھر کی تھکان کی وجہ سے صبح دیر تک سوتی رہی تھی،اور تب اچانک کسی ایسی دل خراش صدا پر میں چونک کر اٹھی کہ سننے والوں کے کلیجے منھ کو آ جائیں،یہ حمیدہ خالہ کی آوازتھی۔
حمیدہ خالہ اکثر ہمارے یہاں آیا کرتی تھیں یہ کچھ سال پہلے ہماری پڑوسی تھیں ،اپنے شوہر کی وفات کے بعد
انہوں نے یہ جگہ چھوڑ دی تھی،اوراپنی اکلوتی بیٹی بانی کو لےکر ایک کراےکے مکان میں رہ رہی تھیں۔میرا چونکہ زیادہ تر وقت ہوسٹل میں ہی گزرا،لیکن پھر بھی وقتاً فوقتاً میں حمیدہ خالہ کے حالات امی سے دریافت کرتی رہتی تھی۔وہ ایک نہایت ہی غریب خاتون تھیں ،وہ امی سےکہا کرتیں،
خدا نے جو دن مجھے دکھائے ،میری بیٹی کا گزر اس دور سے کبھی نہ ہو ،،
اس سے پہلے حمیدہ خالہ کو میں نے تب دیکھا تھا ،جب وہ بانی آپی کی شادی کی دعوت دینے کی غرض سے میرے گھر آئیں تھیں ،یہ اتفاق تھا کہ بانی آپی کا سسرال ہمارے پڑوس ہی میں تھا ۔کہنے کو تو بانی آپی درمیانہ قدو قامت اور سانولی رنگت کی حامل تھیں ،لیکن بے شمار خوبیوں نے ان کے وجود کو پر نور کر دیا تھا،اور پھر بہت جلد ہی بانی آپی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ،اور ہزاروں ارمان و خواہشات کو اپنے دامن میں سمیٹے اپنی سسرال آئیں ۔امی بتاتی ہیں کہ بانی اپنی قسمت پر رشک کیا کرتی ،کہ میں بدنصیب اتنے بڑے گھر کی بہو کیسے بن گئی ?? اور قسمت مجھ غریب پر اتنی مہربان کیسے ہو گئی ؟؟
اب بانی آپی سارے گھر کا کام اکیلے ہی کیا کرتی پھر بھی خوش رہتی ،اور وقت گزرتا گیا بانی آپی حاملہ ہوئیں اور
ایک ننھی جان نے جنم لیا ۔عرشیہ کے پیدا ہونے کے بعد بانی آپی مرجھا سی گئی تھی ۔شاید سسرال والوں کو بیٹے کی امید تھی ،بانی آپی کے شوہر،ساس اور ایک نند سبھی اُن سے خفا رہنے لگے تھے ۔
کچھ وقت گزر ،اور پھر بانی آپی کو یہ خوشی دوبارہ نصیب ہوئی،اُن کے اندر ایک امید سی جگی۔لیکن قسمت۔۔۔پھربیٹی۔
اور اس بیٹی کے بعد تو جیسے گھر میں ماتم ہی برپا ہو گیا،اور ساتھ ہی گھر والوں کی وہ نفرت جسمیں مزید اضافہ ہو گیا ،یہاں تک کہ اُن کے شوہر نے کبھی اُن سے کوئی مطلب نہ رکھا ،اور نہ اُن معصوم بچیوں سے،جس دن سے بانی آپی اس گھر میں آئی تھیں،امی بتاتی ہیں کہ بانی کہ شوہر نے کبھی اُس پر ایک مبحت بھری نگاہ تک نہ ڈالی ہوگی ،کبھی ساتھ کھانا نہ کھایا،کسی بچی پر شفقت سے ہاتھ نہ رکھا ۔اُن کے شوہر کا کہنا تھا کہ ۔۔۔۔۔تو میری پسند نہیں ہے ،تُجھے تومیرے والد صاحب کی ضد سے مجھ پر زبردستی مسلط کیا گیا ہے ۔،،
ایک دن بانی آپی نے خبر دی کہ وہ تیسری مرتبہ حاملہ ہیں اور وہ بہت خوف زدہ ہیں اپنی ساس کی اس بات سے کے اُن کو اس بار بیٹا چاہیے ورنہ انجام۔۔۔۔۔۔اور پھر رونے لگیں اُن کے جی میں آتا کہ زہر کھا لیں یا کہ اپنی ماں کے یہاں چلی جائیں ،لیکن بوڑھی حمیدہ خالہ کا خیال آتے ہی بانی آپی کا جسم ایک نامعلوم جذبے سے کانپ اٹھتا۔
بانی آپی جس طوفان سے ڈر رہی تھیں ،اُس نے دستک دے دی تھی ،یعنی بیٹی۔۔۔۔ اس بد نصیب کا تو کسی نے
منہ تک نہ دیکھا اور بانی آپی رات بھر اس معصوم کو لےکر روتی رہیں ۔وقت گزرتا گیا اور بانی آپی یہی سوچتی رہی کہ وقت ہر زخم بھر دیتا ہے ،سب ٹھیک ہو جائیگا ،لیکن ظلم تھے کے ہر دن بڑھتے جاتے تھے۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ،آہ۔۔وہ سردی کی سخت راتیں ،جسمیں بانی آپی اپنی بچیوں کے ساتھ زمین پر
چٹائی بچھا کر سوتی ،گھر میں سب ساتھ کھاتے اور یہ آخر میں سب کی جوٹھن کھا تیں ،اب تو یہ عالم تھا کہ خرچ کے لئے پیسے بھی نہ ملتے اور سلائی کرکے اپنا اور بچیوں کا پیٹ بھر تیں ،دوبیٹیاں دوسروں کے برتن دھونے جاتیں اور جو کچھ وہاں ملتا کھا لیتی تھیں۔
امی بتاتی ہیں کہ ایک دن بانی روتی ہوئی جیسے اس کو الفاظ ہی نہیں مل رہے ہیں وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔مجھے کچھ روپیے اُدھاردے دیں،میں جلدی لوٹا دونگی،رمشہ کی بہت حالت خراب ہے،وہ مر۔۔۔مرجایگی بنا دیر کیے امی نے اُن کو پیسے دیئے اور لوٹانے کو منع کر دیا۔
دو دن ہو گئے تھے بچے اور خود بانی آپی بھوکی تھیں اور کسی کو خبر تک نہ تھی۔اچانک اُن کے گھر سے کچھ لڑائی
کی آواز سن کر امی گئیں تو دیکھا کہ جہاں اُنکی بیٹیاں برتن دھلنے جاتیں ہیں وہ خاتون آئیں تھیں۔امی کے دریافت کرنے پر بتایا کہ کئی دن سے خرچ کو پیسے نہیں ہیں،جو کمایا سب بیٹی کے اعلاج میں صرف ہو گیا اور میری بد نصیب دیکھیں کہ کارخانے کے مالک نے سلائی دینے سے انکار کر دیا ہے۔اور اس دوزخ ( پیٹ)کی آگ بجھانے کے لیے ان لڑکیوں نے چوری۔۔۔۔۔۔۔اور پھر رونے لگیں ۔میری امی نے پیسے دیکر بات کو رفع دفع کرایا۔
ایک دن دن بانی آپی زارو قطار روتی رو رہی تھیں اور امی سے بس ایک ہی بات بولتی جاتی تھیں کے مجھے کچھ ایسا راستہ بتا دیں کے میں اس دشوار گزار زندگی سے چھٹکارا پا سکوں۔تھک گئی ہوں اپنی بچیوں کو خراب اور گلی سڑی روڈ پر
پڑی ہوئی سبزیاں پکا کر کھلاتے۔اور اب تو میری بچیوں کی عزت پر بھی لوگوں نے اُنگلیاں اٹھانی شروع کر دیں ہیں،یہ سن کر میری امی کو بہت عجیب لگا کے اتنی چھوٹی بچیوں کے ساتھ اُنگلیاں ؟؟؟؟؟؟؟؟
محلے کے کچھ لڑکوں نے عرشیہ کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی،اور جب بانی آپی یہ بات اپنے شوہر
کو بتائی تو انہوں نے بس اتنا ہی کہا کہ ۔۔سن!! جب بیٹیاں سنبھالی نہیں جاتیں تو پیدا کیوں کیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اور سن۔۔۔،آئندہ میرے ساتھ ان منہوسوں کے تعلق سے کوئی بات نہ کرنا۔۔۔۔۔
میری امی کے صلاح دینے پر بانی آپی نے دونوں چھوٹی بیٹیوں کو مدرسہ بھیجنا شروع کیا ،لیکن اس خبر نے ہم سب
کو چونکا ہی دیا کہ،مولوی صاحب نے اُن بچیوں کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے انسانیت کو شرم سار کرنے والی حرکت اُن معصوم بچیوں کے ساتھ کی جو پہلے سے ہی اس ظالم سماج کی ستائی ہوئی تھیں۔اس حادثے نے بانی آپی کو بالکل توڑ دیا تھا کے اب اپنی بیٹیوں کو لےکر کس کوٹھری میں جائے یا زمین میں سما جائے۔۔۔۔۔۔۔
اب بانی آپی نے وہ راستہ اختیار کیا جو صرف موت کی طرف جاتا ہے وہ چوتھی بار حاملہ ہو گئیں تھیں،ڈاکٹر کے
منع کرنے کے باوجود کہ جان کو خطرہ ہے۔کیونکہ اُن کو خود تو پیٹ بھر کھانے کو نہیں،وه کیسے ایک اور جان کو ؟ ؟ ؟؟
میری امی نے اُن سے کہا کہ کیوں اتنا بڑا خطرہ مول لے رہی ہو؟جواب تھا کہ۔۔ایسی زندگی کس کام کی جسمیں کوئی رنگ ہی نہ ہو،اگر میرے سفید کفن سے میری بیٹیوں کی زندگی میں رنگ بھر جائیں،تو یہ کفن ہی میری خوشی کا ساماں ۔۔۔۔،،
کیونکہ یہ سارے حالات بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ہی تو تھے،بس یہی امید لےکر کہ شاید اس بار بیٹا ہو جائے , اور یہ دشواریاں ختم ہو جائیں۔اُن ہونے یہی سوچ کر یہ پر خطر راستہ اپنایا تھا۔
نہ جانے وہ کیسی طوفانی رات تھی کہ ساری رات بارش ہوتی رہی جیسے آسمان بھی ہی بھر کر کسی کی بےبسی پر زارو قطار رو رہا ہو،خوفناک بجلی کی آوازیں،بھیانک اور اندھیری رات اور پھر وہی حمیدہ خالہ کی دل دہلا دینے والی آواز۔۔۔جس پر میری آنکھ کھلی،اُن کی ایسی حالت دیکھ کر ہم سب کو صورت حال سمجھنے میں وقت نہ لگا،اور سب بانی آپی کے گھر کی طرف دوڑ پڑے ۔۔
الٰہی کیسا دردناک منظر تھا ،جسکو بیان کرنے سے میرا قلم بھی قاصر ہے بانی آپی کا بے جان ،ٹھنڈا جسم چارپائی پر پڑا
تھا۔اُن ہونے جڑوا بچیوں کو جنم دیا تھا،اور وه بے خوف و خطر اپنی پانچوں بچیوں کے ساتھ ہمیشگی کی نیند سو چکی تھیں۔۔۔۔
بریلی