9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ابن رشید مصباحی
مجبوری
’’ لمحوں کے تصادم سے بکھرجانا بھی کتنا کھٹن پل ہوتا ہے۔ بکھرکرکے لڑکھڑانے اورسنبھل جانے کا بھی اپنا ایک کرب اور مزا ہوتا ہے۔ اس دنیائے رنگ وبو میں کوئی اپنا، پرایا نہیں ہوتا کون کب اپنا بنے کون کب پرایا ہوجائے معلوم نہیں پڑتا۔ ہاتھ پکڑ کرچلنا سیکھایا مجھے۔ہنسی خوشی سے بھرا اپنا پریوار کب بکھیر گیا پتا بھی نہیں چلا۔۔ بابا اچانک سے ایسے غائب ہو گئے جیسے کبھی موجودتھے نہیں۔ یہ قدرت کے فیصلے بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں یہاں کون کب اور کیسے داغ مفارقت دے پتہ نہیں چلتا۔ان کے بعد پریوار کو یکجا رکھنا، پریوار کی دو وقت کی زوزی روٹی کا انتطام جب سر پر آتا ہے وارث کے تو احساس ہوتاہے کہ بابا کی حیات کس قدر انمول ہوتی ہے۔پریوار کی رفاعی و معاشی برآوردگی کے لیے انسان کو کیا کیا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ حتی کہ جھولی پھیلانے کی نوبت بھی آ جاتی ہے، مگر جھولی پھیلانا اہل ضمیر کا شیوہ نہیں، سو یہ راہ چن لی میں نے۔میں کرتا بھی کیا کرتا آمدنی آٹھنی تھی جبکہ خرچہ روپیہ۔۔ رنگداری کی میں نے، قافلے لوٹے، بڑی سے بڑی کارکردگیاں دیکھائی ہیں مگر کسی کا حق نہیں مارا، کسی غریب کو تنگ نہیں کیا، کسی یتیم کا حق نہیں مارا۔مجھ میں کئی اور بھی ہنر تھے، بابا کی شفقت و محبت نے مجھے لا علم بھی نہیں رکھا تھا۔مگر میرا علم ،میری صلاحتیں سب بے سوہوگئی تھیں۔میں معاشی تنگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر در پر گیا، ہر صورت ایمانداری کی دولت سے مالا مال رہنے کی ٹھانی، صبر کا دامن نہ چھوڑنے کی بہت تک ودو کی۔ مگر معاشرہ جب سمت ِمخالف کی روش اختیار کرے، سماج کے بھلائی طبقے میں نیکیوں کا کوئی مول ہی نہ ہو، وسطی طبقہ بھی ’’اس حمام میں سب ننگے ‘‘ہونے کی عملی تفسیر پیش کرے، تو نچلے طبقے میں جو دبے ،کچلے لوگ بچتے ہیں ان کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو سب کچھ سہہ لیں یا تصادم سے اگے نکل جائیں۔۔ میں نے اگے نکلنے کو ترجیع دی۔۔ گو یہ ترجیع بلا مرجع تھی مگر مجھے ندامت کا احساس نہیں ہے۔ میرے پاس اپنے کئے پر کفِ افسوس ملنے کے لیے بھی کوئی وجہ نہیں بنتی‘‘۔ بنک ڈکیتی کا مجرم، کمشنر کے بنگلے میں چوری کے الزام میں پکڑے گئے اس ملزم کے چوربننے کی کہانی سن کر آنسو بہا رہا تھا
سڑک چھاپ
”ابن ِصحرا تو سڑک چھاپ ادیب ہے۔ افسانہ لکھنا اس کے بس کی بات نہیں” سہ ماہی رومانہ کے ایڈیٹرارسلان نے بڑی اطمینان سے اپنی رائے رکھی اسی مجلس میں ابنِ صحرا کا بھی ایک دوست تھا جسے ارسلان کی باتیں سن کر بہت تکلیف ہوئی غصے میں ان کی ارسلان صاحب سے تھوڑی نوک جوک بھی ہوگئی۔۔
اسی سال اکاڈمی ایوارڈ کے لیے ارسلان کا چناؤ ہوا۔۔ ہر طرف سے ارسلان صاحب کو مبارک باد یوں کے پیغام ملنے لگے۔ پورے ملک میں ارسلان کی شہرت پھیل گئی۔ ایک بہت بڑے ادیب کے طور پر مشہور وہ ادبی دنیا میں چھا گئے۔ بڑے بڑے اخبارات میں ارسلان کے انٹرویوز چھپنے لگے۔۔۔ ٹی وی والے ان کو مختلف پروگراموں میں بلاتے۔ بہت سارے پروگراموں میں مہمان خصوصی کے طور بلائے جاتے۔۔
آخر سال میں ملک کے ایک عظیم ادبی ایوارڈ میں سال کا بہترین افسانہ نگار کے ابن صحراکے نام کا اعلان ہوا۔۔۔۔ سارے لوگ ابن صحراکے چکر میں لگ گئے۔ اس کا نمبر ڈھونڈنے لگے۔۔ تاکہ جلد از جلد ان کو مبارکباد پیش کرکے ان سے مراسم قائم کریں۔لیکن ارسلان صاحب کا نومینیشن اسی ایوارڈ کے لئے یہ کہہ کر منسوخ ہوا تھا کہ اس نے ابن صحراکا ایک افسانہ چرایا ہے۔اور ہرجانہ کے طور پر ارسلان کو ابن صحراکو چھ ہزار روپے بھی دینے پڑیںگے۔۔لیکن ابن صحرانے اسے یہ کہہ کر معاف کردیا کہ رہنے دو میں تو سڑک چھاپ ادیب ہوں۔۔۔۔
دراس کرگل لداخ
8082713692
ََََٓ َََََََِِِ
ََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََ