افسانچہ

0
137

محمد علیم اسماعیل

مستقبل

وہ ایک کال سنٹر پر کام کرتی ہے،ایسا اس نے اپنے شوہر سمیر سے کہا تھا جبکہ وہ ایک وائس چیٹ سروس پر کام کر رہی تھی ۔وہاں رومینٹک وائس چیٹ کر کے لوگوں کا دل بہلانا اس کا کام تھا ۔
’’میں تھک ہار کرآفس سے رات میں گھر آتا ہوں اور تم کال سنٹر پر چلی جاتی ہو ۔ میں برانچ منیجر ہوں۔میری تنخواہ سے جب ہمارا گزارا ہو جاتا ہے تو پھر تم کیوں ۔۔۔۔۔۔؟؟؟‘‘
سمیر کی بات مکمل سنے بغیر ہی روشنی غصے سے بولی ’’میں ہماری آنے والی زندگی کو خوشحال بنانے کے لیے ہی تو کام کر رہی ہوں۔‘‘
اس مسئلے کو لے کر دونوں میں کئی بار بحث و تکرار ہو ئی تھیں۔روشنی کبھی اپنے مستقبل کی دہائی دیتی تو کبھی اپنے کیرئیر کو بنانے کی بات کرتی۔
پھر ایک روز ایک کسٹمرکی اسے کال آئی ۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ہمارے صاحب کوایک ایسی لڑکی سے بات کرنی ہے جو ان سے ملے، ان کے ساتھ بیٹھے، وقت گزارے، خوب باتیں کرے،اور ان کے اکیلے پن کو دور کرے اس کی قیمت جو بھی ہوگی ادا کی جائے گی ۔‘‘
روشنی نے کہا ’’ ٹھیک ہے مل جائے گی۔۔۔ نام اور ایڈریس بتائیں‘‘
’’وہ برانچ منیجر ہے اور ان کا نام سمیر ۔۔۔۔۔‘‘ ایڈریس سنے بغیر ہی کال کٹ چکی تھی۔

خاموش دھماکہ

وہ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو رہی تھیں۔
’’اب یہاں کس لیے آئی ہے ۔ہمیں تجھ سے یہ امید بالکل بھی نہیں تھی ،کتنی ذلیل حرکت کی ہے تو نے ۔۔۔۔۔۔اب ہماراتجھ سے کوئی رشتہ نہیں۔ خدا نے ہمیں اولاد کی خوشی سے محروم رکھااس لیے کتنے ارمانوں سے تجھے گود لیا تھا ہم نے۔۔۔۔۔۔اب یہاں تیرے لیے کوئی جگہ نہیں جا وہیں۔۔۔۔۔۔ اسی کے پاس ۔۔۔۔۔۔جس کے ساتھ منھ کالا کیا ہے‘‘ چاچی نے چیختے ہوئے غصے سے کہا۔
’’اس لیے تو یہاں آئی ہوں چاچی ‘‘اس نے روتے ہوئے بھرائی آواز میں گھر کے ایک کونے میں سہمے ہوئے کھڑے چاچا کی طرف دیکھ کر کہا۔

(محمد علیم اسماعیل،ناندورہ،مہاراشٹر)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here