تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
سفرنامہ نگار: شمس العارفین
دوپہر کے قریب 12:20ہو رہے تھے۔میں کلینک سے واپس گھر جا رہا تھا۔ابھی میں بائک ہی پر تھا کہ موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔میں نے ایک طرف گاڑی روکی موبائل دیکھا تو اس کی اسکرین پر مجاہد کالج کا نام عیاں ہو رہا تھا۔میں نے فون اٹھایا اور سلام کیا ۔سلام کے بعد کچھ رسمی سی گفتگو ہوئی پھر مجاہد نے اپنی شادی کی دعوت دی اور پھر فرمانے لگا کہ نکاح 21مئی 2022کو ہے۔لیکن آپ لوگ 18مئی تک آجائیں۔ یہ کال 11مئی 2022کو آئی تھی۔اس سے آگے کی گفتگو کریں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ مجاہد اور اپنی دوستی کے بارے میں بتا دیں۔
سال تھا 16-2015 لکھنؤ یونیورسٹی سے منسلک ایک کالج میں ہم لوگوں نے گریجوایشن کی پڑھائی کے لئے داخلہ لیاجہاں پر بہت سارے دوست بنے لیکن چار لوگوں کا ایک گروپ بنا جس کی دوستی پورے کالج میںرفتہ رفتہ مشہورہو گئی ۔اس گروپ میں مجاہدالاسلام بھاگلپوربہار سے تعلق رکھتے ہیں۔محمد غفران لکھنؤ سے ۔محمد ابرار ندوی کھگڑیا بہار سے اور راقم الحروف کا تعلق بھی شہرِ لکھنؤ سے ہے۔اس سفرنامے میں اسی گروپ کے دوستوں کا مرکزی کردار ہے۔اپنے اس گروپ کے حوالے سے ــ [ مادھو رام جوہر کا[ ایک شعر یاد آتاہے۔
دوست دو چار نکلتے ہیں کہیں لاکھوں میں
جتنے ہوتے ہیں سو اتنے ہی کم ہوتے ہیں
مجاہد نے جب کال کیاتو اس نے ایک بات اور کہی کہ یار ہو سکے تو میرا سہرا لکھ دینا میرا ایک دوست فیصل رشیدی آئے گا تو اس سے سہرا پڑھوائیں گے اس کی آواز اچھی ہے۔اس کے بعد میرے ذہن میں سہرے کے کچھ اشعار آ گئے ۔اس سہرے کے چند اشعار یہاں درج کر رہا ہوں:
فضل رب کا ہوا تجھ پے نوشہ میاں تیری جوڑی ہمیشہ سلامت رہے
ابنِ آدم تجھے بنتِ حوا ملی زندگی میں تیری بس مسرت رہے
کتنے ارمان تھے گھر کے افراد کے تیرا سہرا سجے پھول کلیاں کھلے
پر مسرت فضا یہ سماں ہے وہی دو دلوں میں خدایا محبت ر ہے
اس سہرے کے لکھنے میں غفران بھائی نے بھرپور تعاون کیا تھا ورنہ اتنا طویل سہرا لکھنا میرے لئے آسان نہیں تھا۔مجاہد سے گفتگو ہونے کے بعد رات میں نے غفران کو کال کیا کہ کیا ارادہ ہے؟ مجاہد کی شادی کو لیکر میرے سوال پر جناب غفران صاحب نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ جواب دیا اما ضرور جائیں گے مجاہد کی شادی میں۔دوسرے دن صبح کے 11بجے غفران بھائی کی کال آئی جس میں انہوں نے اطلاع دی کہ میں نے کاماکھیا ایکسپریس ٹرین میں دو ٹکٹ بک کر لی ہیں۔ہم لوگوں کو 17مئی کو دوپہر میں 2;30بجے سے پہلے چار باغ ریلوے اسٹیشن پر حاضر ہونا ہے۔خیر ہم لوگوں کا ذہن بار بار خیالات کی دنیا کی سیر کر رہا تھا۔
اول تویہ کہ عرصے دراز کے بعد اس گروپ کے ملنے کی شکل مجاہد کی مبارک شادی کے موقع پر ہو رہی تھی ۔دوسرے یہ کہ پہلی باران لوگوں کے گھر جا رہا تھا۔اس لئے دل و دماغ میں امنگوں کے ساز چھڑے ہوئے تھے۔
17مئی کی صبح ہی ہم نے اپنا بیگ تیار کر لیا تھاجس میں کپڑوں کے علاوہ ضروریات کی دیگر چیزیں بھی تھی۔غفران سے بات ہوئی تو اس نے کہا چارباغ اسٹیشن پر ملو۔1:55پر ہم لوگ چارباغ میں ملے۔پھر ہم لوگ اسٹیشن کے اندر داخل ہوئے جہاںبرقی نوٹس بورڈ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ہم لوگوں کی مطلوبہ ٹرین اپنے صحیح وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر سے آ رہی ہے۔
اس کے بعد ہم لوگوں نے خالی وقت میں ایک کام کی ابتدا کی اور وہ تھی vlogشوٹنگ کی ۔اسی سفر میں ہم نے اپنے youtubeچینل paini nazarکے لیے وی لاگ شوٹ کرنا شروع کیا ۔قارئین حضرات چاہے تو چینل پر جا کر اس سفر نامے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
ٹرین آنے میں ابھی وقت تھا ہم لوگ پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے۔پلیٹ فارم پر اچھی خاصی بھیڑ تھی۔ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دنیا کے سارے لوگ آج سفر پر نکل آئے ہیں۔
اسٹیشن پر دیگر ٹرینوں کی آمد و رفت مسلسل جاری تھی۔تھوڑی دیر میں مائک سے اعلان ہوا کہ ـــــــ :کاماکھیا ایکسپریس تھوڑی ہی دیر میں پلیٹ فارم نمبر ایک پر آ رہی ہے… تھوڑی دیر بعد ٹرین کے اگلے حصے کا دیدار ہوا جو سست رفتاری سے آ رہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کہہ رہی ہو کہ کافی طویل سفر سے آ رہی ہوں تھوڑا آہستہ چلنے دو۔ٹرین کو دیکھ کر میرے لبوں پر ’جاں نثار اختر‘کا ایک شعر برجستہ آ گیا۔
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی
حالانکہ رات کے آنے میں ابھی تقریباّ چار گھنٹے باقی تھے لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ منزلِ مقصود پر پہنچنے کے لئے پوری رات سفر کرنا تھا۔کاماکھیا ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر ایک پر آ کر کھڑی ہو چکی تھی۔ہم لوگ اس بوگی کی جانب بڑھ چلے جس میں ہم لوگوں کی سیٹ ریزرو تھی۔مسافر ایک دوسرے سے دھکا مکی کرتے ہوئے چڑھ رہے تھے۔ہم لوگ سکون سے اپنے وی لاگ کا ابتدائیہ شوٹ کر رہے تھے۔جب بھیڑ کم ہوئی تو ہم لوگ ٹرین کے اندر داخل ہوئے۔اور اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئے۔سیٹ پر پہنچے تو عجیب و غریب منظر پیش آیا۔ہم لوگوں کی سیٹ پر ایک خاتون قبضہ کر کے سو رہی تھیں۔جب ہم نے انہیں جگایا تو وہ بھڑک اٹھیں اور بولیں یہ میری سیٹ ہے ۔آپ لوگ کہیں اور دیکھ لیں۔یہ تو وہی بات لگ رہی تھی’’چوری کی چوری اوپر سے سینہ زوری‘‘۔اچھی بات یہ تھی کہ سیٹ کے آس پاس والے مسافر پڑھے لکھے تھے انہوں نے اس خاتون سے ٹکٹ دریافت کیا ۔ٹکٹ دیکھنے پر پتا چلا کہ ان کا ویٹنگ ٹکٹ ہے۔میرے ساتھی غفران نے کہا ویٹنگ ٹکٹ کے ساتھ acکوچ میں سفر کر رہی ہو ۔ابھی ٹی ٹی کو بلاتے ہیں۔اتنا سننا تھا کہ وہ خاتون بیک فوٹ پر آ گئیں اور گزارش کرنے لگی کہ ایک سیٹ پر آپ دونوں ہو جاٗے ایک پر میں اور میرا بچہ ۔غفران تھوڑا غصے میں آ گیا اور بولا اب بہت ہو گیا چلئے نکلئے اب یہاں سے ۔جب وہ خاتون وہاں سے اٹھیںتو پتا چلا کی تین سفری بیگ دو ہاتھ والے بیگ اور ایک بوری میں کچھ سامان تھا ۔سارے مسافر حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔اب ہم لوگ اپنی سیٹ پر آ چکے تھے اور یہاں سے ’’ لکھنؤ سے بھاگلپور ‘‘کے سفر کا با قائدہ آغاز ہوا۔ٹرین تقریباّ 3:40پر لکھنؤ سے روانہ ہوئی اس وقت میرے ذہن میں ایک شعر آ رہا تھا۔
شہرِ لکھنؤلوٹ کر پھر ایک دن ہم آئیں گے
آکے تیری سر زمیں پر گیت گن گنائیںگے
اپنی اپنی سیٹ پر بیگ رکھنے کے بعد ہم لوگ کچھ دیر گفتگو کرتے رہے۔ٹرین فیض آباد ہوتے ہوئے جا رہی تھی ۔مجھے ٹرین کا سفر بہت پسند ہے اور اس کے اندر ہونے والے مشاہدات تو اور بھی دلچسپ لگتے ہیں۔میںنے موبائل نکالا اور گروپ کے تیسرے ساتھی محمد ابرار ندوی صاحب کو فون کر دیا جب اس کو پتا چلا کہ ہم دونوں لکھنؤ سے آ رہے ہیں تو اس کو بھی بہت خوشی ہوئی۔اس نے فرطِ مسرت سے کہا آیئے بہار کی سرزمین پر آپ دونوں کا خیر مقدم ہے۔ابھی بات چل ہی رہی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی ۔’’چائے ے چائے ے ے گرما گرم چاے‘‘مجھے اس کے انداز پر ہنسی آ گئی۔پھر میں نے اسی کے انداز میں تک بندی کی۔
ٹرین کا یہ سفر آیے ہایے ہایے
پیچھے سے صدا آئی چائے چائے چائے
جن لوگوں نے ٹرین کا سفر کیا ہے وہ اس طرح کی آواز و انداز سے خوب واقف ہوں گے۔ہم لوگوں کی سیٹ کے آس پاس والے زیادہ تر لوگ راجستھان کے تھے۔اچھا ایک بات اور اکثر طویل سفر میں رسمی گفتگوسے لیکر اچھی دوستی تک ہوتی ہیں ۔اور کئی بار تو ایسی تحریریں بھی نظروں سے گزری ہیں جن میں سفر کے دوران جان پہچان سے لیکر شادی کے مرحلے تک کا ذکر ہوا ہے۔
راجستھان کے مسافروں سے بھی گفتگو جاری تھی۔کئی مدعوں پر بات ہوئی ۔ان میں سے ایک صاحب نے کہا بھائی آپ لوگ تو لکھنؤ سے ہیں اور یقین جانئے لکھنؤکے نام سے وہاں کا ذائقہ یاد آ جاتا ہے۔بریانی سے لیکر شیرمال تک سب کچھ ہی بہت عمدہ ہوتا ہے ۔میں نے ان حضرت سے دریافت کیا کہ آ پ کے یہاں کون سا کھانا مشہور ہے۔انہوں نے جواب میں’’دال باٹی چورما ‘‘ کا نام لیا ۔
شام کا وقت ہو چکا تھا آفتاب اپنے سفر کی آخری منزل طے کر رہا تھا۔ایسا معلوم ہو رہا تھاجیسے آفتاب کی آخری شعائیں رات کی تاریکیوں میں غوطہ زنی کر رہی ہوں۔
کمپارٹمینٹ کے زیادہ تر لوگ اپنے اپنے موبائل میں لگ چکے تھے۔میری نظریں کھڑکی پار سر سبز مناظر کا دیدار کر رہی تھی ۔ٹرین اپنی رفتار سے چل رہی تھی ۔میری نگاہیں ابھی بھی کھڑکی پار ہی تھی جہاں شاداب درختوں کی قطاریں ایسی معلوم ہو رہی تھیں جیسے ٹرین سے شرط لگا کر ریس کر رہی ہوں اور میری نظروں کے اعتبار سے درخت شکست کھا کر پیچھے ہٹ رہے ہوں،یہ مشاہدہ کافی دیر تک چلتا رہا۔
اب رات ہو چکی تھی ۔ٹرین بنارس اسٹیشن پر پہنچ چکی تھی ۔کچھ مسافر اتر رہے تھے اور کچھ نئے سوار ہو رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد ٹرین نے پھر سے دوڑنا شروع کر دیا۔
رات کافی ہو چکی تھی لوگوںنے کھانا تناول کرنا شروع کر دیا تھا۔میری نظروں کا مرکز غفران بھائی کے حرکت کرتے ہوئے ہاتھ تھے۔وہ اپنے بیگ سے ٹفن نکال رہے تھے۔مجھے یقین تھا کہ ٹفن میں بریانی ہوگی یا کباب پراٹھے۔کیوں کہ غفران بھی کھانے کا بہت شوقین ہے۔گزشتہ سفر میں وہ شامی کباب اور پراٹھے گھر سے بنوا کر لایا تھا۔خیر ٹفن نکال کر ہم لوگوں نے دسترخوان کی جگہ پر پرانا اخبار بچھا لیا تھا۔بھوک شدت سے لگی تھی نظریں بیتاب تھی لال سفید چاول کا دیدار کرنے کے لئے۔جیسے جیسے ٹفن کا ڈھکن کھل رہا تھا میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو رہا تھا۔آخر وہ لمحہ بھی آیاجب ٹفن کا ڈھکن کھلا اور میری نظریں ٹفن کے اندر رکھے ہوئے کھانے پر جا پڑی۔نظریں پڑتے ہی میرے ارمانوں کا خون ہو چکا تھا اور بھوک کی شدت میں بھی کمی آ چکی تھی۔اس کی وجہ تھی ٹفن میں رکھے کریلے اور پراٹھے ۔ایک تو کریلا میں ویسے بھی نہیں کھاتا اوپر سے پراٹھے کے ساتھ تو بالکل بھی نہیں۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کریلے کے اوپر نیم کا ذائقہ چڑھا دیا گیا ہو۔
کریلے نہ پسند ہونے کے باوجود بھی ایک دو لقمے کھائے۔ابھی میںبھوک کے بارے میں سوچ ہی رہا تھاکہ پیچھے سے آواز آئی ۔گرما گرم کھانا آرڈر کریں۔میں نے اس پینٹری کار والے سے کھانے کی تفصیلات دریافت کی۔تو اس نے بتایا کہ 120روپئے کی تھالی ہے جس میںچار روٹی،چاول،مٹر پنیر،چھولا ایک مٹھائی اور سلاد ہوگا۔میں نے ایک تھالی آرڈر کر دی ۔ٹھوڑی دیر میں تھالی آ گئی ۔ادھر غفران بھائی کریلے اور پراٹھے کے ساتھ پوری توانائی کے ساتھ انصاف کر رہے تھے۔میں نے تھالی کھولی تو اس میں سب کچھ تھا جو پینٹری کار والے نے بتایا تھا البتہ مقدار سے میں مطمئن نہیں تھا۔مٹر پنیر میرے نقطہ نظر میں60 ایم ایل کے آس پاس ہوگا جیسے کھانسی کا چھوٹا سیرپ۔روٹی مقدار کے اعتبار چار تھی تو ضرور لیکن اتنی چھوٹی تھی کہ ایک روٹی میں فقط دولقمے بنتے تھے۔چھولے کی بات کرے تو وہ مٹر پنیر پر تھوڑا سبقت لے گیا تھا ۔سلاد کے نام پر دو سلائس پیاز اور ایک سلائس کھیرے کا تھا۔مٹھائی میں برفی جیسی کوئی چیز تھی جس کا مجھے نام نہیں معلوم اس مٹھائی میں چینی اپنے لشکر کا کثرت سے پتا دے رہی تھی۔البتہ چاول ٹھیک ٹھاک تھے۔خیر جیسا بھی تھا کھانے نے بھوک پر فتح حاصل کر لی تھی۔کھانے کے بعد ربِ کائنات کا شکر ادا کیا۔رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے ٹرین مغل سرائے اسٹیشن سے آگے نکل چکی تھی۔میں نے اپنا برش نکالا اور برش کرتے ہوئے سونے کی تیاری کرنے لگا ۔برش کرنے کے بعد ضروریات سے فارغ ہوکر واپس سیٹ پر آ گیا۔ ویسے اس ٹرین کا بیت الخلاکافی صاف ستھرا تھا جو کہ عام طور پر نہیں ہوتا ۔بوگی کی لائٹ بند ہو چکی تھی اور اکثر لوگ سو چکے تھے۔میں بھی لیٹ گیا لیکن مجھے نیندنہیں آ رہی تھی۔مجھے سفر میں اکثر نیند نہیں آتی۔میں نے اپنے بیگ سے ایک تاریخی کتاب نکال لی۔مجھے کتاب پڑھتے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی کہ ایک شور اٹھا ۔کسی کی آواز آئی پکڑو اس کو جانے نہ پائے پھر کسی اور نے کہا کہ بوگی کا دروازہ بند کر دو۔میں اپنی سیٹ پر اٹھ بیٹھا گھڑی دیکھی جو رات کے دو بجا رہی تھی۔لمحہ بھر بعد ایک آدمی دوڑتا ہوا نکلا اس کے پیچھے کافی لوگ تھے ۔کسی نے بوگی کا دروازہ بند کر دیا تھا تو آگے والا شخص بھاگ نہ پایا اور لوگوں کے ہاتھ آ گیا۔پھر جو کٹائی ہوئی ہے اس کی اس کو زندگی بھر یاد رہے گا۔کسی کو اس بھیڑ میں پتا ہی نہیں چل پا رہا تھا کہ ہوا کیا ہے؟اور یہ بندہ کیوں مارا جا رہا ہے۔پانچ منٹ بعد جب بھیڑ کچھ کم ہوئی تو پتا چلا کہ اس نے سوتے میں کسی لڑی کو چھیڑا تھا۔اس آدمی کے منہ سے خون نکل رہا تھا چہرہ بھی سوج گیا تھا۔اس نے شراب بھی خوب پی رکھی تھی۔اتنا مار کھانے کے بعد بھی وہ بڑی بڑی ہانک رہا تھا۔وہ جتنا بولتے لوگ اس کو اتنا ہی مارتے ۔ایک تعلیم یافتہ شخص نے اس کا آدھار کارڈ دیکھا تو وہ بنارس کا رہنے والا تھا اس شخص کا نام یہاں قصدن نہیں لکھ رہا ہوں۔مزہ تو تب آیا جب ایک بزرگ عمر قریب 70سال تھی آئے اور بنا کچھ بولے ہی ایک تھپڑ رسید کیا۔تھپڑ کی شدت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تڑاک کی آواز گونج گئی۔تھپڑ مار کر وہ چپ چاپ چلے گئے گویا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک اہم ارکان ادا کرنے آئے تھے۔یہ سلسلہ بکسر ریلوے اسٹیشن تک چلا وہاں RPF کے کچھ جوا ن آئے اور اس کو گرفتار کر کے لے گئے۔ہم پھر واپس اپنی سیٹ پر لیٹ گئے اس بار نیندنے کب اپنی آغوش میں لے لیا پتا ہی نہ چلا۔صبح کے آ ٹھ بجے نیند سے جب بیدار ہوئے تو پتا چلا ٹرین دو گھنٹے تاخیر سے چل رہی ہے۔ہم لوگ آرا،پٹنہ ،برونی جنکشن پچھے چھوڑ آئے تھے۔ٹرین بیگوسرائے اسٹیشن پر پہنچ چکی تھی۔ضروریات سے فارغ ہو کر پینٹری کار والے کو ناشتے کا آرڈر دیا ۔ناشتے میں پوڑی سبزی تھی۔لکھنؤ سے پٹنہ تک تو ٹرین اچھی رفتار سے دوڑ رہی تھی لیکن اس کے بعد ہر پانچ منٹ پر رک کر سانس لینے لگتی۔ہم لوگوں کو اپنی منزلِ مقصود پر یعنی صبح آٹھ بجے پہنچ جانا تھا لیکن ٹرین آٹھ کے بجائے دوپہر 11بج کر 28منٹ پر نوگچھیا پہنچی ۔ٹرین سے اتر کر ہم نے مجاہد کو کال کیا جواب میں اس نے کہا بس تھوڑی دیر میں پہنچ رہے۔۔۔۔(جاری)