کھوکھلا پہیا کا تجزیاتی مطالعہ

0
110

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

محمد بشیر

’’کھوکھلاپہیا‘‘ Monologue یعنی ’’خود کلامی‘‘ کی Technique ، فن یا طریقہ کار میں لکھا ہوا افسانہ ہے۔ اس افسانہ میں اس حقیقت کو بیان کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ ٹیکنالوجی کے دور میں ظاہری طور پر انسانی زندگی جتنی ترقی کرتی جارہی ہے باطنی طور پر اتنی ہی کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس افسانے میں جدید دور کی ترقی پر بڑا طنز کیا گیا ہے۔ انسان موجودہ دور میں ترقی کی میدان میں بہت آگے بڑھ گیا ہے، لیکن اس کو یہ احساس نہیں ہے کہ کتنی قیمتی چیزیں اس سے چھوٹتی جارہی ہیں، اس افسانے میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ موجودہ دور کے انسانوں کو یہ علم نہیں کہ وہ اندر ہی اندر سے کتنا کھوکھلا ہوتا جارہا ہے۔
افسانہ نگار نے کہانی کا مرکزی کردار ایک ایسے طبقہ سے لیا ہے جو ’’کفن چور ‘‘ ہے اور پوری کہانی اسی کے ارد گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے ، اس لیے کردار نگاری کے حوالے سے یہ ایک کامیاب ترین کہانی ہے۔ اس افسانہ میں افسانہ نگار نے مرکزی کردار ’’کفن چور‘‘ کی مدد سے جدید دور کی انسانی زندگی کی پوری تصویر کشی ہے۔
کفن چور ایک روز شام کو اپنے کام پر نکلتا ہے، تو راستہ میں اس سے کوئی چیز چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، نزدیک جاکر دیکھا تو وہ ایک چھوٹا سا چمکتا ہوا بلب تھا جو لکڑی کے چھوٹے چھوٹے دو پہیوں کے درمیان باندھا ہوا تھا۔ ان دونوں لکڑی کے بنی ہوئی پہیوں کو دیکھ کرکفن چور کو اپنے بچپن کے زمانے کے پہیوں کی یاد آجاتی ہے اور وہ موجودہ پہیوں کا اپنی دور کے پہیوں سے تقابلی مطالعہ کرتا ہے۔ مطالعہ کرنے کے بعد اس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ پرانے زمانے کے پہیے کو بریک کی ضرورت نہ تھی بلکہ وہ متوسط رفتار میں چلتاتھااور جدید دور کے پہیے کو بریک کی ضرورت ہے اور اپنی متوسط رفتار بھی کھو چکا ہے۔ کفن چور کو موجودہ دور کے پہیوں سے نفرت ہونے لگتی ہے کیوں کہ وہ جان چکا ہے کہ جدید پہییے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بنے ہوئے ہیں لیکن اندرسے کھوکھلے ہیں۔ اسی کھوکھلے پن سے کفن چور کو نفرت ہونے لگتی ہے۔
کفن چور نے زندگی میں پہلی بار جب شکور تیلی کی قبر کھوکر اس کے کفن کو چرایا تھا تو کفن چور کو بہت ہی قیمتی ملائم کپڑا ملاتھااور ایک عرصہ کے بعد جب قصبہ نے کافی ترقی کرلیاتو اس دوران اس نے مال دار حاجی وحید کی قبر سے کفن چرایا تھاتو اس سے چیتھڑا یعنی کپڑے کا ٹکڑا ملا۔
’’اس وقت اس یاد آیا کہ استاد نے بتایا تھا۔ بہت دنوں کی بات ہے جب اس قصبے میں سب مکان کچے تھے اور برسات میں ہر آدمی کا چھپر ٹیکتا تھا۔ اس وقت استاد کے دادا نے جس قبر سے کفن چرایا تھا۔ اس میں سونے چاندی کے تاروں کا بنا ایک دو شالہ نکلا تھا۔‘‘(ص۔۳۶)
اس اقتباس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جب شہر میں مکان کچے تھے تو قبر میں قیمتی کفن ملتے تھے، اور اب جب شہر نے ترقی کرلیا تو قبر میں گھٹیا کفن ملتے ہیں۔ موجودہ دور میں اب لوگوں نے مردوں کو کفن دینا ہی چھوڑ دیا ہے، اس بات کا احساس تب ہوتا ہے جب کفن چور ویرپور کے قبرستان میں پہنچتا ہے اورقبر کھود کر انکڑا ڈالا تو اس میں کفن کے بجائے مردے انسان کی جسم کی کھال آئی۔
اب وہ کفن چرانے کے لیے شہر سے باہر عیسائیوں کے قبرستان میں پہنچا اور اپنا دھندہ شروع کیایعنی قبر کھودنے لگا تو دیکھا کہ قبر کے اندر ایک خوبصورت تابوت ہے۔ اس نے سوچا کہ جب تابوت اتناسندر ہے تو تابوت کے اندر جو لاش ہے وہ کتنی مال دار اور خوبصورت ہوگی۔ یہ سوچ کر اس نے تابوت کی کیل اکھاڑ دی اس وقت اتنااندھیرا تھا کہ کفن چور کو یہ پتا کرنا بہت ہی مشکل ہوا کہ تابوت کا کیل سونے کی ہے یا نہیں، یہ تابوت دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا کہ آج تو ایک بہت ہی قیمتی کفن ضرور مل ہی جائے گا۔ آخرکار جب اس نے تابوت کو کھول کر اس کے اندر اپنا ہاتھ ڈالا تو اندر لاش نہیں تھی بلکہ تابوت خالی تھا۔
پچھلے کلائمکس میں قبر میں مردہ تو تھا لیکن کفن خراب تھا۔ اب نہ مردہ ہے اور نہ کفن بس خالی تابوت۔
’’اس نے تابوت کے اوپر کا تختہ ہٹایااور جلدی سے مردے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھانا چاہا مگر جب اس کے ہاتھ مردے کے بجائے تابوت کے تختے پر جالگے تو وہ لرز گیا تابوت خالی تھا بالکل خالی‘‘ (ص۔ 41)
افسانہ نگار نے یہاں یہ راس بیان کی ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں انسان اپنی فائدہ کے لیے اب لوگوں کو مردہ قرار دیتا ہے اور اس کو مردہ قرار دے کر حکومت سے اس کی انشورنس حاصل کرتا ہے، اس تابوت کا خالی ہونا انشورنس حاصل کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
’’ارے یہ لوگ اس طرح چپکے چپکے کیا باتیں کر رہے ہیں؟ اس نے کان لگا کر سننا چاہا مگر باتیں اتنی آہستہ ہو رہی تھیں کہ شاید بات کرنے والا بھی اپنی بات نہیں سن پا رہا تھا۔ سننے کی بہت کوشش کی مگر وہ صرف اتنا سن پایا۔ اب کوئی فکر کی بات نہیں سب یہی سمجھیں گے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان میں سے ایک نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکال کر سامنے کھڑے شخص کو دیے۔ دوسرے نے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی باقی لوگ ادھر اُدھرچلے گئے۔ ‘‘(ص۔40)
افسانہ نگار بتاتا ہے کہ ان کے چہروں پر ڈر کا اثر تو تھا لیکن ماتم کا نام و نشان تک نہیں تھا جو اصل میں ہونا چاہیے تھا۔ یہی بات قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر کوئی مرتا ہے تو روتا کیوں نہیں۔
’’ان لوگوں کے چہروں پر خوف کیوں ہے؟ شاید موت کا خوف ہو ۔۔۔۔ مگر کسی کے چہرے پر رنج و الم کا نام و نشان بھی نہیں۔‘‘ (ص۔39)
کردار نگاری میں افسانہ نگار نے بڑی فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ کفن چور کی مدد سے حقیقی طور پر یہ بتانا چاہتا ہے کہ آج کل کے انسان نئی نئی قسم کے چیزوں کا استعمال تو کرتا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ چیزیں ان کو اندر سے کتنا کھوکھلا کر رہا ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جدید عہد کی زندگی کی کھوکھلی ترقی پر بھرپور طنز کیا ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار کفن چور ہے، اور پوری کہانی مرکزی کردار کے ارد گرد گھومتی ہے۔ افسانہ نگار نے کفن چور کے حوالے سے معاشرتی تبدیلیوں کا ذکر بڑی خوبی کے ساتھ کیاہے۔
’’حاجی وحید! ہاں وہی وحید پہلوان جن کی اب دو منزلہ عمارت ہے۔ یہی ان کا کچا مکان تھا۔ اُسارے میں اپنے چیلوں کو لیے بیٹھے رہتے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانا پینا چلتا رہتا۔ کبھی بادام، کبھی دیسی گھی میں بنا انڈا کے زردی کا حلوا، دیسی گھی تو وہ پانی کی طرح اوک سے پی جاتے ۔ پھر انھوں نے اُسارے کی جگہ بیٹھک بنوائی اور دیسی گھی پینا بند کردیا۔ جب پچھلا کوٹھا تڑواکر دو کمرے بنوائے تو زردی کا حلوا بھی بند ہوگیا، اور جب ان کی لکڑی کی ٹال آرا مشین کا کارخانہ بنی تو چیلے چپاٹے غائب‘‘ (ص۔36)
یہاں افسانہ نگار یہ ذکر کر رہا ہے کہ معاشرتی تبدیلیوں کے نتیجے میں انسان نے ترقی تو کرلی، لیکن زندگی کے اعلیٰ اقدار کا زوال ہوا۔ قدیم دور میں جب لوگ مردے کے ساتھ جاتے تو ان کے چہروں پر غم و خوف کے آثار ہوتے تھے لیکن اب جدید دور کے انسانوں کے چہروں پر نہ غم کے آثارے تھے اور نہ خوف۔
’’لوگ مردے کو دفن کرکے واپس جارہے تھے۔ اس نے چھپ کر واپس جاتے لوگوں کو دیکھا۔ ان کے چہروں پر نہ غم کے آثار تھے اور نہ موت کا خوف‘‘ (ص37)
ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان ترقی کرتا گیااور ترقی کی دوڑ میں اتنا لالچی بن گیا کہ انشورنس حاصل کرنے کے لیے زندوں کو بھی مردہ قرار دیاگیا، اور قبر میں خالی تابوت رکھ دیا۔ بقول افسانہ نگار:
’’ارے یہ لوگ اس طرح چپکے چپکے کیا باتیں کر رہے ہیں؟ اس نے کان لگا کر سننا چاہا مگر باتیں اتنی آہستہ ہو رہی تھیں کہ شاید بات کرنے والا بھی اپنی بات نہیں سن پا رہا تھا۔ سننے کی بہت کوشش کی مگر وہ صرف اتنا سن پایا۔ اب کوئی فکر کی بات نہیں سب یہی سمجھیں گے کہ ۔ ۔۔۔۔۔ پھر ان میں سے ایک نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکال کر سامنے کھڑے شخص کو دیے۔ دوسرے نے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی باقی لوگ ادھر اُدھرچلے گئے۔ ‘‘(ص۔40)
اوپر دے گئے اقتباس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے چپکے چپکے باتیں کرنے اور کاغذات کی لینے دینے کرنے سے اس سازش کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زندوں کو فرضی طور پر مردہ قرار دے کے قبر میں خالی تابوت رکھ دیا جائے، اور اس کی انشورنس حاصل کی جائے۔
’’کھوکھلا پہیا‘‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کلائمکس در کلائمکس سے کام لیا گیا ہے۔ پہلے کلائمکس ’ویر پور‘ کے قبرستان کا واقعہ ہے اوردوسرا عیسائیوںکے قبرستان کا واقعہ، اس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مختصر افسانہ کلائمکس در کلائمکس کی بہترین مثال ہے۔ اس کہانی میں ڈرامائی عناصر بھی اچھے خاصے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ خوف کے جذبے کو سیدھے سادے انداز میں بیان نہیں کیا بلکہ اس ڈرامے کے اندازمیں پیش کیا:
’’بڑے سے بڑا سنار بھی اس کی زنجیر اور دوشالہ خریدنے کو تیار نہیں۔ خریدے بھی کیسے؟ کس کے پاس ہے اتنا روپیہ؟اتنا قیمتی سامان تو کوئی راجا ہی خرید سکتا ہے۔ اسے لگا کہ پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے۔ پولیس! ’’نہیں‘‘ اس نے دیکھا کہ نہ اس کے کندھوں پر دوشالہ ہے اور نہ گلے میں سونے کی زنجیر۔‘‘ (ص۔41)
مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’کھوکھلا پہیا‘‘ میں جو کہانی پیش کی گئی ہے وہ جدید زندگی پر بڑا طنز کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں زبان کا استعمال بہت سلیقہ سے ہوا ہے۔ یہ کہانی ڈرامائی اسلوب اور انوکھے موضوع کی وجہ سے جدید اردو افسانوں میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔
’’ میری نظر میں یہ افسانہ طارق چھتاری کے افسانوی مجموعہ ’’باغ کا دروازہ‘‘ کے اہم افسانوں میں اس افسانہ کا شمار ضرور ہونا چاہیے۔ اس افسانہ کو تجزیہ کرتے وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ آج کے دور میں انسان خوشی سے جیتا نہیں ہے بلکہ وہ صرف ترقی کے دوڑ میں لگا ہوا ہے۔‘‘
اسکالرشعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد،
7794073136
***

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here