9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مسرور صغریٰ
یہ جو ہیبت دلوں پہ چھائی ہے
یہ یے اپنی نہ یہ پرائی ہے
سانس سے ہوگٸے بدن خالی
ہآئے کیسی وبا یہ آئی ہے
کیسے بچ پاٶ گے کورونا سے
قہر بندوں پہ یہ خداٸی ہے
اب نہ بھیگیں گے ساتھ ساتھ بدن
جان و تن میں ہوٸی جداٸی ہے
حوصلے ہیں شکستہ روحوں کے
جو بھی زندہ ہے کربلاٸی ہے
خوف و دہشت بلا کا سناٹا
رنج و غم کی گھٹا بھی چھاٸی ہے
ہے یہ کڑیل جوان نذر وبا
اک ضعیفہ کی یہ کماٸی ہے
بھوک نوحہ کناں ہے آہوں میں
مر نہ جاٸے کہیں دہاٸی ہے
سارے عالم میں شور واویلا
صبر نےکیسی چوٹ کھاٸی ہے
قربتِ غیر کا گماں بھی نہیں
اک وبا بن کے دلہن آٸی ہے
ہاٸے جلوے تری سخاوت کے
کیسی عزت غموں نے پاٸی ہے
ہے جو انجان اس سیاست سے
تھالی اس نے ہی بس بجاٸی ہے
بس کرٶ آگ پر یہ رقص کا کھیل۔
آگ تم نے ہی یہ لگاٸی ہے
گھر میں بیٹھو خدا کا ذکر کرٶ
اس میں ہی سب کی اب بھلائی ہے
شعبہ اردو،سی ایم کالج دربھنگا بہار