پیامِ اقبالؔ کی عصری معنویت

0
195

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ڈاکٹر ریاض توحیدی

عذاب ِ دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
(علا ّمہ اقبالؔ)

مابعد جدید دور کی ثقافتی صورت حال(Post Modern Cultural Condítion)اور مابعدجدیدتنقید (Post Modern Criticism)کے تناظر میںجب کلام اقبالؔ کی متنی ساخت(Textual Structure))کو ردتشکیل تھیوری Deconstruction Theory ) )کے پیش نظر زیر بحث لایا جائے توتخلیقی سطح پر بیشتر کلام نہ صرف مابعد جدید دور کے سیاسی‘ سماجی‘تہذیبی اورمعاشی مسائل کاڈسکورس سامنے لاتاہے بلکہ موضوعاتی ومعنیاتی طور پرعصر حاضر کے ہلاکت خیز اندیشوں کی کرب ریز صورت حال کی مفکرانہ پیش گوئی (Prediction) بھی کررہاہے ۔کلام اقبال ؔ کا یہی تخلیقی وموضوعاتی اظہارنہ صرف دورجدید کے انسان کوعذاب دانش حاضرکے جمہوری جبریت(Democratic Determinism)سے آگاہ بلکہ اسکے داخلی جذبات واحساسات کی ترجمانی بھی کررہا ہے اور شعری تنقید(Poetic Criticism)کا یہی اختصاص کلام ِاقبالؔ کی عصری معنویت یا معاصر چیلنجز کاجواز بھی فراہم کررہا ہے۔
عذابِ دانش کا یہ جمہوری کرب‘ نمرودی آگ بن کر کئی عشروں سے معصوم اور کمزورانسانوں کو بھسم کرتا آیا ہے۔ جنگ عظیم اول و دوم کے روح فرساسا نحات کے ذمہ دار جمہوری دیو استبداد یعنی امریکہ اور اس کے حوارین کا جمہوری لبادے میں آگ و خون کھیلنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔علا ّمہ اقبالؔ نے اس جمہوری نظام کے پس پردہ مکروہ عزائم کو بھانپ کراسی وقت اہل دانش و بینش کو خبردار کیا تھا کہ ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی نیلم پری
اور وقت نے ثابت کردیا کہ جمہوریت کے علم بردار یہ کالے اور سفیددیوکس طرح جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر انسانیت کواپنے قدموں تلے روندھے چلے جارہے ہیں۔چاہئے وہ عراق و لبیا میں لگائی گئی ہولناک آگ کے خون فشاں مناظر ہوں یا چاہئے فلسطین و افغانستان یا دنیا کے دیگر مظلوم و محکوم انسانوں پر ڈھائے جارہے جمہوری مظالم کی داستان الم ہو۔مغرب یا امریکہ کے ان جدید جمہوری مظالم کا اگر پیام اقبالؔ کے تناظر میں جائزہ لیں اور اس پیام کی عصری معنویت پر غور کریں تو انہوں نے جس طرح۱۹۳۵؁ ء میں اپنی نظم’’مسولینی۔۔۔اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے‘‘ میں مسولینی کی زبان سے جمہوریت کے ٹھیکیداروں کی سیاہ کاریوں کو بے نقاب کیا تھا توکیا وہی صورت حال آج بھی جاری نہیں ہے ۔علا ّ مہ اقبالؔ اس نظم میں مسولینی کی زبان سے کڑوی سچائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسولینی کو ظالم و جابر کہنے والے کیا خود بھی عملی طور پر ظالم ثابت نہیں ہورہے ہیں۔اگر ہم اس نظم کوعصری معنویت کے تناظر میں مسولینی کے بدلے صدام حسین یا کرنل قذافی کے جذبات میں پرکھیںتو کیا جمہوریت کے دعویداروں کی وہی دوغلی پالسی اور جابرانہ عزائم ہر جگہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ؎
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم؟
بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار! توچھلنی میں چھاج
میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم
تم نے کیا توڑے نہیں کمزوروں کے زجاج؟
یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں
راجدھانی ہے ‘ مگر باقی نہ راجہ رہے ‘نہ راج
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لوٹی کشتِ دہقاں! تم نے لوٹے تخت وتاج
پردۂ تہذیب میں غارت گری ‘آدم کشی
کل روا رکھی تھی تم نے ‘ میں روا رکھتا ہوں آج!
(ضرب کلیم)
کلامِ اقبالؔ کے کئی اشعار کے تخلیقی متن کے بین المتونی(Inter Textual)مطالعہ سے ظاہر ہے کہ انہوںنے شعر گوئی کو فنی مستی کے طور پر نہیں اپنایا بلکہ انہوں نے شعوری طور پر اپنی شاعری کو نظریاتی وسیلہ بنا دیا۔انہوں نے گل و بلبل کی ترنم سازی کے برعکس مقام آدمیت وانسانیت کے گیت سنائے‘بقول ممتاز نقاد پروفیسر قدوس جاوید:
’’شعر اقبال ؔ اپنے غیر معمولی متون کی بناء پر انسان اور انسانیت کے حوالے سے صورِاسرافیل کا حکم رکھتا ہے۔اقبالؔ کے متون یہ ثابت کرتے ہیں کہ صد پہلو انتشار و بحران کے اس دور میںہر سطح پر انسان کی کامل بیداری ہی اقبالؔ کا مشن تھا اور اسی کے حوالے سے اقبالؔ کے متون میں عصری ‘سیاسی ‘تہذیبی ‘عمرانی اور فنی حتیٰ کہ رسمی صوفیانہ اقدار پر بھی نکتہ چینی ملتی ہے۔‘‘(اقبالؔ کی تخلیقیت۔ص۱۴۳)
اسی نظریہ سازپیام کے توسط سے علاّمہ اقبال ؔ نے مغرب کے پوشیدہ مفاد پرستانہ نظریات کے دبیز پردوں کو چاک کرکے رکھ دیا۔مغرب کی کئی دہشت پسند تنظیمیں (جن کے نام تک مغرب سے مرعوب انسانوں کو معلوم نہیں ہونگے)کے نظریات اور عملی اقدامات دیکھ کر باشعور انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔مغرب کی ایک تنظیم ’’شیطانیت‘‘ (Satanism)کا تنظیمی نظریہ ہے کہ انسان کو اپنا مقصدپانے کے لئے کسی بھی حد کو پار کرنا چاہئے۔اس تنظیم کا ایک رکن اپنے مقاصد کے سلسلے میں کہتا ہے:
I feel laws are, obviously, made to be broken.I see nothing
wrong with robbing somebody on the street
(Terrorism..The Ritual of the Devil.P66)
’’میں سمجھتا ہوں کہ قوانین تو بنائے ہی جاتے ہیں توڑنے کے لئے۔میں راستے میں کسی بھی انسان کو
لوٹنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ہوں۔‘‘
ان ہی نظریات کے حامل افراد دنیا کو جمہوریت اور انسان دوستی کا سبق پڑھاتے رہتے ہیں۔ یہ سب ڈھونگ صرف اپنے پوشیدہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے رچایا جاتا ہے بلکہ ذرا سنجیدگی سے سوچیں تو جمہوریت ‘ چنگیزیت کا جدید روپ ہے کیونکہ کیا آج مغرب ‘ جمہوریت کی آڑ میں اپنے مقاصد کی خاطر کسی بھی قانون کی پاس داری کرتا نظر آرہا ہے۔۔۔؟ہر جگہ ’’فلسفۂ بے رحمی‘‘(Theory of Ruthlessness)اور’’دوردہشت‘‘(Terror Reign)پھیلا ہوا ہے ۔جس کی تازہ مثال افغانستان میں گرائے گئے ایک غیرجوہری طاقتور بمGBU-43/B(جس کو Mother of all bombs کہا جاتا ہے )کاانسانیت کش تجربہ ہے جس کی تباہ کاری پر امریکہ کی بربریت کا اتحادی افغان صدر حامد کرزائی بھی بی ۔بی ۔سی کی انگلش نیوز سروس پر ایک طرف واویلا کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ یہ اقدام دہشت گردی کے جواز میں افغانستان کے خلاف کھلی جارحیت ہے تو دوسری جانب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا صدارتی بیان دکھایا جارہا تھا کہ ’’یہ بم گرانے پر امریکہ کواپنے جنگی تجربات پر فخر ہے ۔‘‘جمہوریت کے اس روپ کی اندوہناک صورت حال پر نہ صرف علا ّمہ اقبالؔ بلکہ کئی اور مغربی شعراء نے پہلے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا ۔مثلا میتھو آرنلڈ کی نظم ’’Dover Beach‘‘ کے یہ علامتی مصرعے دیکھیں:
Nor certitude ,no peace, nor help for pain
And we are here as on a darkling plain
Swept with confused alarams of struggle and plight
Where ignorant armies clash by night
علا ّمہ اقبالؔ جمہوری جبر کی اس تاریخی جبریت(Historical Determinism)کے پوشیدہ حقائق کو نثر و نظم میںجگہ جگہ اجاگرکرتے نظر آرہے ہیں‘اس ضمن میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ جمہوریت کامل سیاسی سکون کی ضمانت ہے تو وہ تاریخ سے بالکل ناواقفہے۔حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔جمہوریت میں ایسی تمام خواہشات و شکایات کو پھر سے ابھرنےکا موقع ملتا ہے جنہیں شخصی حکومت کے دور میں دبایا گیا ہو یا پورا نہ کیا گیا ہو۔‘‘(کتاب‘اقبالؔ نئی تفہیم۔۔۔ص۳۸۵)
اسی طرح یورپ والوں کے علم ودانش اور سیاسی عزائم کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں:
یہ علم ‘ یہ حکمت ‘ یہ تدبّر‘ یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم ِ مساوات
کیا آج بھی مغرب کی یہ جارحانہ سیاست مساوات کے نام پر معصوم انسانوں کا خون نہیں بہاتی ہے۔پچھلے کئی برسوں میں ہی کتنے ایسے واقعات پیش آئے کہ دہشت گردی کی آڑ میں ڈرون حملے کرکے کئی اسکولی طلبہ کو پڑھنے کے دوران زندہ دفن کردیا گیا اور کف افسوس ملنے کی بجائے اسے جمہوریت کی بحالی کا دعوی کیاگیا ۔ مغرب کی اس دہری پالسی کو علا ّمہ اقبالؔ کی طرح کئی اور تخلیق کار بھی موضوع گفتگو بنا تے آئے ہیں جیسے افسانہ’’ہائی جیک ‘‘کے یہ جملے دیکھیں:
’’ڈرون حملے میں اسکول تباہ‘ درجنوں معصوم بچے موت کی آغوش میں۔‘‘
’’ یہ دہشت گردی ہے‘ حیوانیت کے شکار معصوم بچوں کے والدین کا احتجاج۔‘‘
’’نہیں ‘ ایسے اقدام دنیا میںامن بحال کرنے کے لئے ضروری ہیں۔‘‘سفیر امن کا بیان۔
’’ایک خوفناک دھماکے میں نیٹو کے درجن بھر فوجی ہلاک۔‘‘
’’یہ دہشت گردی ہے‘‘سفیر امن کا بیان۔’’جمہوریت کے دشمنوں سے ضرور بدلہ لیا جائیگا۔‘‘
(ہائی جیک۔۔۔ڈاکٹر ریاض توحیدی)
مجموعی طور پر دیکھیں تو موجودہ دنیا کے پُر تناؤ ماحول کے پیش نظر کلا م اقبالؔ کی عصری معنویت میں اضافہ ہی ہورہا ہے کیونکہ انہوں نے شرق و غرب کے سیاسی ‘ سماجی اور اقتصادی حالات کا مشاہدہ بڑی باریک بینی سے کیا تھا اور اپنے کلام میں ان مسائل کو ایسے تخلیقی پیرائیہ میں پیش کیا کہ ان کی مستقبل آشنا معنویت مسلسل بڑھ رہی ہے۔فکر اقبال ؔکی معنویت کو اجاگر کرتے ہوئے معروف اقبالؔشناس پروفیسر بشیر احمد نحوی ایک مضمون’’نئی صدی میں شاعر مشرق کی معنویت‘‘میں لکھتے ہیں:
’’فکر ِاقبالؔ ایک اتھاہ سمندر کی مانند ہے‘ اس کی گہرائی میں شعور‘ علم تجربہ ‘دردمندی اور سوزوگدازکے ان گنت خزانے ہیں۔جب بھی ایک سنجیدہ قاری اس سمندر میں غوطہ خوری کرتا ہے تو نئے گہر‘ اور نئے صدف اس کے ہاتھ آجاتے ہیں۔۔۔‘‘
(رسالہ اقبالیات۔ص۳۴۔شمارہ ۱۷)
زیر نظر مضمون میں کلام اقبالؔ کے پیش نظرصرف دور حاضر کی جمہوری استعماریت (Democratic Imperialism)کے اس مکروہ چہرے کے چند جلوئے ہی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جن کے سیاہ سایے ہم سب دیکھ رہے ہیں‘ویسے بھی علا ّمہ اقبالؔ نے فرنگی سیاست کو’’دیو ِ بے زنجیر‘‘کہا ہے اور ان مرعوب اذہان کی ناسمجھی پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو آنکھیں بند کرکے مغربی تہذیب کے ہر جلوئے کو روشنی کی چمک سمجھ رہے ہیں:
جاں بھی گرو ِ غیر ‘ بدن بھی گرو ِ غیر!
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے ‘ نہ مکیں ہے!
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو گلہ تجھ سے ہے ‘ یورپ سے نہیں ہے
[email protected]..
.7006544358

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here