وفاداری کی قیمت

0
292

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

مسرورتمنا

آ ہو میری زندگی میں تم بہار بنکر۔۔ مجھے دل میں یوں ہی رکھنا۔۔۔۔ بھولا بڑے ترنگ میں گا رہا تھا۔۔۔ کمو نے جھاڑو ایک طرف رکھ کر کہا۔۔۔اے ہے تیری اسی ادا پر تو مرجانے کو دل کرتا۔۔۔۔ وہ اپنے لمبے بالوں کو بے پروای سے لہراتی ہوی بولی۔۔۔ بھولا نے۔۔۔۔مسکرا کر کمو کی طرف دیکھا کمو تم بھول کیوں جاتی۔۔ہو۔۔۔۔کہ میں ایک شادی شدہ مرد ہوں۔۔ گاوں میں میری بیوی پھلوا ہے اور۔۔۔۔۔ بس کر ستیاناس کر دیا نا میرے موڈ کا۔۔۔ ارے تم انسان ہو کے نہی۔۔۔ ممبی میں کتنے برسوں سے ہو۔۔ ارے کمو یہی کوی پندرہ سال۔۔۔۔۔ بھولا نے لاپروای سے کہا۔۔۔ اے ہے۔۔۔ پندرہ سال میں تیرے کو ادھر کی مستی۔۔نہ ای دیوا۔۔۔۔رے۔۔۔دیوا۔۔۔۔۔خالی پیلی کا آدمی دکھتا رے تو بھولا مسکرایا تو وہ بولی بس ایسے ہی مسکی مار۔۔مار کے۔۔میری جان نکالتا رے تو۔۔۔ چل کچن میں۔۔ تیرے واسطے گرما گرم پکوڑے۔۔۔ بھی بنا ڈالتی۔۔ چائے کے ساتھ ۔۔۔بھولا خاموشی سے اکے پیچھے چل دیا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پاٹل صاحب کے گھر وہ پورے پندرہ سال سے نوکری کر رہا تھا۔۔۔ انکی اکلوتی بیٹی کو کالج ون لے کر جاتی تھی مگر کبھی کبھی۔۔۔بھولا بھی اسے لے اتار تھا باقی گھر کاسودا سبزی ضرورت کی ہر چیز کے لئے وہ کار لے کر جاتا۔۔ ١ور سب کے بدلے جو روپئے ملتے۔۔۔۔ وہ گھر بھیج دیتا۔۔ اسکی نگاہوں میں بیوی پھلوا کا چہرہگھومتا رہتا بڑی بڑی آنکھیں شکوہ کرتی محسوس ہوتیں۔۔۔۔ ممبی میں دہشت۔۔پھیلی۔تھی اور ارتی ان سب سے بے پرواہ سہیلوں کے ساتھ بھولا کو چکمہ دے کر نکل جاتی۔۔۔۔بے چارہ بھولا پریشان ہوتا کمو اسکی حال پر لوٹ پوٹ ہو جاتی۔۔۔ھنس مت کمو ارتی بیٹا نادان ہیں۔۔مگر بہت نیک رحمدل۔۔۔ ۔۔۔ دیکھ بھولا ہم نوکری ہیں وہ مالک ہمیں کیا۔۔۔بس اپنی ڈیوٹی کر ۔۔۔۔ اور تبھی۔۔ پاٹل صاحب کسی سے بات کرتے کرتے اپنی خاص گاڑی میں بیٹھ گئے ۔۔۔ ہو جانے دو شہر تباہ ۔۔۔مجھے بس میرا مقصد پورا کرنا ہے۔۔ تمام قلی ٹییکسی ڈرایور کی مرمت کر ڈالو سارے کے سارے روکوٹ بنے ہیں ۔۔ پھر چونکے پلٹے اور بھولا سے کہا آج تم گاڑی لیکر کہیں مت جانا اور کمو ارتی سے کہوں وہ آج کالج۔۔ نا جاے۔۔۔ اور انکی گاڑی ندیم سے نکل گئے۔۔۔ ارے کمو حیران ہوی آج ارتی بیٹا تو کالج وین سے چلی گیں۔۔۔۔ اچانک کالھ بند ہوگیا۔۔۔۔بھولا۔۔نے دیکھا دوران ارتی اپنی سہیلی نیلم کے ساتھ چھپ کر کھڑی تھی۔۔۔۔۔ ارتی کو گھر چھوڑ کر بھولا نیلم کو اسکے گھر پہنچادیا۔۔۔مگر ۔۔بھولا واپش نہی ایا۔۔ ۔۔۔ ہاں ہاں پاٹل صاحب۔۔۔ ابھی ایک گاڑی کو اڑایا جو میرے بنگلے کے پاس سے گذری تھی۔۔۔ سامنے نیلم کو دیکھا تو چونکہ گے پاپا آپ نے جس کو اڑادیا وہی مجھے سلامتی کے ساتھ گھر چھوڑ گیا پاٹل انکل کا ڈرایور بھولا۔۔۔ کمو بھولا کی موت سے ھسنا بھول گی۔۔۔۔ اور گاوں میں آج بھی۔۔۔پھلوا کے پاس روپے پہونچ رہے تھے جو پاٹل صاحب بھیج رہے تھے۔۔۔بھولا کی وفاداری کی قیمت تو نہی ادا کی جاسکتی تھی اور ۔۔ گاوں میں پھلوا اب بھی انتظار کے دیپ جلاے بیٹھی تیھی۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here