وفاداری

0
195

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

ڈاکٹر ثمامہ فیصل 

یہ ایک سرکاری دفتر کا واقعہ ہے۔اس کے ایک کمرے میں بہت ہی معمولی سا فرنیچر تھا۔ اس کی دیواروں پر صرف ایک روشن دان تھا جو اس طرح بنا ہواتھا کہ سورج کی روشنی اس سے ہو کر کبھی اندر نہیں آپاتی تھی۔ اس کی چھت سے لٹکتے ہوئے ایک واحد بلب سے وہاں تھوڑی بہت روشنی ہو جاتی تھی، اگر وہ بھی وہاں نہیں ہوتا تو شاید اس کال کوٹھری میں تاریکی کے سواکچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اس میں ایک طرف چھوٹا سا ایک دروازہ تھا جو ایک دوسرے کمرے میں کھلتا تھا۔ یہ کمرہ بہت وسیع و عریض تھا۔ اس میں شاندار میز کرسی پڑی ہوئی تھی اور قالین بچھی ہوئی تھی۔ جبکہ اس چھوٹے کمرے میں سیاہ رنگ کی ایک معمولی سی میز تھی جس پر فائلوں اور کاغذات کاایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ایک نوجوان ملازم پوری سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ وہاں بیٹھا اپنے کام میں منہمک تھا۔ کچھ وقفے سے جب بھی وہ اپنا سر اٹھاتا تو اس کے سانولے چہرے پر اطمینان اور خود اعتمادی صاف نظر آتی۔
کمرے کا وہ چھوٹا دروازہ اچانک کھلا اور ایک لحیم شحیم قدآور شخص وہاں داخل ہوا۔شخصیت ایسی بارعب کہ دیکھنے والوں کے دل میں خود بخود احترام پیدا ہوجائے۔ وہ افسر جیسے ہی اپنے کام میں منہمک اس نوجوان کے پاس پہنچا اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور اس نے نرم لہجے میں اس سے کہا:
’’ گڈ مارننگ مصطفی! لگتا ہے اب بھی تمہارے پاس بہت کام باقی ہے‘‘۔
’’آج یہ سارا کام نبٹ جائے گا‘‘ مصطفی نے جواب دیا۔
’’ہم ابھی ایک کام نپٹا نہیں پاتے ہیں کہ دوسرا کام ہمارے پاس آجاتاہے‘‘۔
’’کوئی بات نہیں‘‘۔
’’محکمہ کی صورت حال کا جائزہ لینے اور اس کو ترقی دینے کے لئے کچھ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، اور مجھے بھی ایک ذیلی کمیٹی کاممبر بنایا گیا ہے، میں چاہتا ہوں اس بارے میں آپ سے کچھ گفتگو کروں‘‘۔
’’یہ معاملہ آپ میرے اوپر چھوڑ دیں۔ میں اس موضوع پر غور کرکے ایک جامع رپورٹ تیار کردوں گا اور اسے آپ کی خدمت میں پیش کر دوں گا‘‘۔
افسر نے اس پر ایک ترچھی نظر ڈالی اور کہا:
’’لیکن کمیٹی کی پہلی میٹنگ کل ہی نائب وزیر کی صدارت میں ہوگی، میں چاہتا ہوں کہ پہلی میٹنگ میں تجویز پیش کرنے کا شرف صرف مجھے حاصل ہو‘‘۔
’’تو میں کل صبح ہی یہ رپورٹ آپ کے حوالے کر دوں گا‘‘۔
’’واقعی؟‘‘ ۔
مصطفی نے اپنے سر کو اثبات میں ہلایا۔ حسین اپنے دفتر میں واپس چلا گیا۔ مصطفی پھر سے خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ اس کے کام میں صرف اسی وقت خلل واقع ہوتا تھا جب حسین اپنے کسی ماتحت کو پھٹکار لگاتا، آخر وہ اس شعبے کا صدر جو تھا۔
مصطفی اپنے گھر میں کرسی پر بیٹھا رپورٹ لکھنے میں مشغول تھا۔ وقت تیزی سے گزررہا تھااور رات کافی بیت چکی تھی۔ مگر وہ اپنے کام میں یونہی لگارہا۔ تھکن یا اکتاہٹ کا اسے کوئی احساس نہیں ہوا۔ وہ لکھنے میں بالکل مست تھا۔ صفحات پر صفحات سیاہ کرتا گیا۔ آخر کارپورٹ تیار ہو گئی۔ اب جا کر اس کا قلم رکا۔ لکھتے لکھتے اس کی انگلیاں جامد ہوگئی تھیں۔ وہ انہیں زور زور سے جنبش دینے لگا۔ اس نے ایک جمائی لی۔پھر انگڑائی لی۔تبھی گھڑی نے یہ اعلان کیا کہ رات آدھی سے زیادہ گذر چکی ہے۔ بالآخر اس نے سونے کا ارادہ کیا اور اپنے بستر کا رخ کیا۔ وہ اپنے آپ سے بالکل مطمئن اور خوش تھا۔
صبح ہوتے ہی مصطفی اپنے دفتر کی طرف دوڑ ا۔ اس کے دل میں ایک عجیب سا جوش وولولہ تھا۔جیسے ہی وہ اپنے دفتر کی اس کال کوٹھری میں داخل ہوا اس کی نظر حسین پر پڑی جو کمرے کے اس چھوٹے سے دروازے کے پاس کھڑا ہواتھا۔ مصطفی نے کمرے کا بلب جلایا اور سلام کرتے ہوئے حسین کی طرف بڑھااور ایک ضخیم رپورٹ اس کے سامنے پیش کی۔ حسین کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس نے رپورٹ لی اور اپنے کمرے میں داخل ہوگیا۔ مصطفی بھی اپنی میز کی طرف گیا اور خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں لگ گیا۔
دن پورا ہوا اور مصطفی اپنے گھر چلا گیا۔رات کا کچھ حصہ گزر چکا تھا۔ تبھی دروازے پر کسی نے دستک دی۔ مصطفی نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حسین کھڑا ہے۔اس کا چہرہ خوشی سے لہلہا رہا تھا۔ اس نے والہانہ انداز میں مصطفی سے کہا:
’’مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام پہلی ہی میٹنگ میں ہو پائے گا، آج نائب وزیر کی صدارت میں کمیٹیوں کی ایک میٹنگ ہوئی۔ نائب وزیرنے ہر کمیٹی کے کام پر روشنی ڈالی، اورآخر میں پوچھا:
’’کیا کسی کے پاس کوئی تجویز ہے؟‘‘ ۔
تب میں نے اپنی رپورٹ ان کے سامنے پیش کی۔انہوں نے کچھ دیر تک اس کا جائزہ لیا، پھر دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور غور سے رپورٹ پڑھی۔ پوری رپورٹ پڑھنے کے بعد فرمایا:
’’بہت خوب! بہت مناسب تجاویز ہیں۔ یہ ایک کامیاب کوشش ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ کمیٹی اس رپورٹ پر بحث کرے اور حسین بیگ کو بھی اس کمیٹی میں شامل کیاجائے‘‘۔
حسین کچھ دیر خاموش رہا۔یہ خبر سن کر مصطفی کے اندر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔کچھ دیر تک دونوں پر خوشی کے یہ جذبات طاری رہے۔ پھر حسین نے مصطفی سے کہا:
’’مگر ہماراکام اب اور بڑھ جائے گا۔ہمیں اب دوگنی محنت کرنی ہوگی‘‘۔
’’کوئی بات نہیں، بس ہماری اس محنت کی قدر ہونا چاہئے‘‘۔
’’نائب وزیر نے بعض معاملات کی تفصیلی رپورٹ مانگی ہے‘‘۔
حسین مصطفی کو ان مطلوبہ تفصیلات کے بارے میں بتانے لگا۔مصطفی نے بڑے غور سے اس کی باتوں کوسنا۔ اپنی بات پوری کرکے حسین نے کہا:
’’اب میں چلتا ہوں ورنہ تمہارا کام میری وجہ سے متأثر ہوگا۔ مصطفی بس یہ یاد رکھناکہ میں ہمیشہ آگے رہنے والوں میں سے ہوں‘‘۔
حسین رخصت ہو گیا اور مصطفی رات کے سناٹے میں نائب وزیر کی طلب کردہ رپورٹ تیار کرنے میں مشغول ہو گیا۔
یونہی دن پہ دن گزرتے گئے اور کئی مہینے بیت گئے۔کمیٹی کی میٹنگ ہوتی اور حسین ہر میٹنگ میں مصطفی کی تیار کی ہوئی تجاویز پیش کرتا۔ حسین کے وارے نیارے ہوگئے۔ آخر وہ سب سے آگے رہنے والوں میں سے جو تھا۔ اب نائب وزیر کو بھی اس کے اوپر کافی بھروسہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے حسین کی قابلیت اور مستعدی کی تعریف بھی کی۔ اسے کئی نئے شعبوں کا ذمہ دار بنا دیا گیا۔ اس کا دفتر اب اور بھی زیادہ شاندار بن گیا تھا۔ اس کی دیواروں پر سنہری فریم والے قرآن وحدیث کے خوبصورت طغرے لگا دئے گئے۔ حاکم وقت کی ایک بڑی سی خوبصورت روغنی تصویر بھی وہاں ٹانگ دی گئی۔ دوسری طرف مصطفی دفتر کی اپنی اسی پرانی کال کوٹھری میں بیٹھا سنجیدگی کے ساتھ ایک ’’شخصیت ساز‘‘ انسان کی طرح اپنے کام میں لگا رہا۔
ایک دن حسین نے حسب معمول مصطفی کے گھر کا رخ کیا۔ وہ اکثر مصطفی پر اپنی یہ کرم فرمائی کرتا رہتا تھا۔ اس نے مصطفی سے کہا:
’’آج تو عجیب بات ہو گئی‘‘۔
’’کیا ہوا‘‘؟۔
’’نائب وزیر نے مجھے روغنیات کی اعلیٰ کمیٹی میں اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے‘‘۔
’’لیکن اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟‘‘ ۔
’’مجھے روغنیات کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ‘‘۔
’’اطمینان رکھئے، تلاش وجستجو سے ہم اپنا کام کر لیں گے‘‘۔
حسین وہاں سے رخصت ہوا۔ مصطفی معلومات جمع کرنے میں لگ گیا اور رپورٹ تیار کرنے لگا۔ جب موضوع کے مختلف پہلوؤں پر معلومات جمع ہو گئی تب اس نے ایک جامع رپورٹ لکھناشروع کی۔
حسین کو ترقی ملتی رہی۔ محکمہ کے دو اہم ترین لوگوں میں اس کا نام لیا جانے لگا۔ مصطفی اس بات سے بہت خوش تھا۔اسے اپنے آپ پر رشک تھا۔ اسے یہ احساس تھاکہ حسین کی ترقی دراصل اسی کی محنت کا ثمرہ ہے اور اس کی تیار کی ہوئی رپورٹوں کی اتنی قدر ہوتی ہے۔
اس طرح کئی مہینے بلکہ کئی سال گزر گئے۔ مصطفی ہمیشہ کی طرح دن میں دفتر کی اس کال کوٹھری میں اور رات میں اپنے گھر پر حسین کے لئے رپورٹیں تیار کرتا رہا۔ پھر ایک دن نائب وزیر کی ترقی ہو گئی اور وہ وزیر بن گئے۔حسین کی بھی قسمت چمکی اور اسے پورے محکمہ کا ڈائرکٹر بنا دیا گیا۔
ڈائرکٹر صاحب کے دفتر میں مبارکبادپیش کرنے والوں کا تانتا لگ گیا۔ ملازمین اپنی خوشی اور وفاداری کا اظہار کرنے کے لئے اس کے پاس آنے لگے۔ مصطفی بھی حسین کو مبارکباد دینے کے لئے اس کے پاس گیا۔ وہ خود کو ایک ایسے فنکار کی طرح محسوس کر رہا تھاجس نے اپنے فن کا ایک ایسابے مثال نمونہ پیش کیا ہوجسے ہر دیکھنے والا داد و تحسین سے نواز نے پر مجبور ہو۔
وہ حسین کے دفتر کے پاس پہنچا تو اسے اپنے اندر ایک لرزہ محسوس ہوا۔ وہ کچھ دیر پس و پیش میں یونہی کھڑا رہا۔ پھر اندر جانے والوں کے ساتھ داخل ہو گیا۔ اس نے گرم جوشی کے ساتھ حسین کو مبارکباد دی۔ جب باہر آیا تو خوشی کا ایک عجیب سا نشہ اس کے اوپر طاری تھا، اس کے دل میں اطمینان تھا اور اس کے جسم کا رواں رواں خوشی سے جھوم رہا تھا۔
کئی ہفتے گزر گئے۔ مصطفی پہلے کی طرح اپنے دفتر میں بیٹھتا رہا۔لیکن حسین اب نہ تو پہلے کی طرح اسے اپنے پاس بلاتا اور نہ ہی دفتر کا کوئی کام اس کے ذمہ کرتا۔ ایک دن دفتر کا ملازم اس کے پاس آیا اور بولا:
’’پرسنیل مینجر (Personnel Manager) نے آپ کو بلایا ہے‘‘۔
مصطفی یہ سوچتے ہوئے کھڑا ہوا کہ پتہ نہیں پرسنیل مینجر نے اسے آج کیوں بلایا ہے۔ ہو سکتا ہے حسین اسے اپنے دفتر میں منتقل کرنا چاہتا ہو۔ یا ہو سکتا ہے وہ اسے پورے دفتر کا ذمہ داربنانے والاہو۔ وہ سوچنے لگا کہ وہ ڈائرکٹر صاحب کے آفس کا انچارج بن جائے گا۔ اسے یہ سوچ کر خوشی تو ہوئی مگر حیرت نہیں کیوں کہ وہ خود کو اس عہدے کا مستحق سمجھتا تھا بلکہ اس سے بھی اونچے عہدے کا۔
وہ بڑے اطمینان کے ساتھ چلتے ہوئے منیجر کے دفتر میں داخل ہوا اور اسے سلام کیا۔مینجر نے اپنا سر ہلکے سے ہلا کر اس کے سلام کا جواب دیا۔ اس کے تیکھے تیورسے یہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ مصطفی کو کوئی خوشخبری سنانے والا ہے۔لیکن وہ اس کی پروا کئے بغیر اس کے قریب گیا اور پوچھا:
’’جی فرمائیے‘‘۔
’’ڈائرکٹر صاحب کے حکم سے آپ کا تبادلہ دوسرے محکمہ میں کر دیا گیا ہے‘‘ مینجر نے اپنے سامنے رکھے کاغذات سے نظر ہٹائے بغیر مصطفی سے کہا۔
مینجر کی بات ابھی جاری تھی۔ لیکن مصطفی کو اب کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اسے اپنے کانوں میں ایک عجیب سا شور سنائی دینے لگا۔ اس کا گلا بالکل سوکھ گیا۔ شکستہ خاطر وہ اس کمرے سے باہر آیا۔ غصے میں وہ آگ بگولا ہو چکا تھا۔ اس کا ضمیر اس سے چیخ چیخ کریہ کہہ رہا تھا:
’’تو بھی کتنا بیوقوف انسان ہے! تو نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اس دفتر میں تیرا کام اب ختم ہو چکا ہے۔ ڈائرکٹر صاحب کو اب تیری کیا ضرورت ہے؟ ان کا خیال رکھنے کے لئے اب بہت سے لوگ یہاں موجود ہیں۔ ویسے بھی ان کے ذمہ اب صرف دستخط کرنے کا کام ہے۔ تیری صورت دیکھ کر وہ کیوں اس نئے عہدے کی شان کو خراب کریں۔ ایک نہ ایک دن تو تجھے ان کے راستے سے ہٹنا ہی تھا‘‘۔
اسے دیوار کے سہارے رکھا ہوا ایک لمبا سا جھاڑ و نظر آیا، اس کے دل میں آیا کہ اسے لیکر حسین کے کمرے میں جائے اور اس سے حسین کے ایسے ہی ٹکڑے کرڈالے جیسے پگمیلین (Pygmalian) نے اپنے بنائے ہوئے بے مثال مجسمہ کو توڑ ڈالا تھا۔ لیکن وہ وہاں سے مڑا اور غصے میں تھوکتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
٭٭

اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی ، مانو کیمپس لکھنؤ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here