9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
نور الصباح
تاریخ شاہد ہے کہ عورتیں مختلف ادوار،مذاہب اور تہذیبوں میں عدم مساوات،صنفی مساوات و جنسی مساوات جیسے ان گنت مظالم اور ظلم وتشدد کا سامنا کرتی آرہی ہیں۔ان جبرواستحصال سے آزادی حاصل کرنے کے لیے وہ مختلف تجربات،رجحانات اور میلانات وتحاریک سے اپنے احتجاجات بلند کرنے میں کوشاں بھی ہیں۔کیوں کہ جب چنگاری شعلہ کی شکل اختیار کرتی ہے تو کوئی نہ کوئی منظم آواز تحریک کی صورت بن کر ابھرتی ہے جو کبھی نثرونظم کے لبادے میں ملبوس تانیثیت کی صدا بنتی ہے توکبھی سوشل میڈیا کے جھلملاتے جھروکوں پر می ٹو کی شکل میں صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔
دراصل می ٹو کا آغاز ترانا’برک نامی‘ ایک افریقن امریکن سماجی کارکن کے ذریعہ ۲۰۰۶ میں ہوا ۔وہ ایک حساس سماجی کارکن ہیں جو عورتوں کو ہراساں کرنے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنانے جیسے ظلم کے خلاف احتجاج کرتی ہیں اسی احتجاج کی ایک کڑی می ٹو ہے جو انھوں نے ایک ۱۳سالہ جنسی تشدد سے متاثرہ لڑکی کے لیے وضع کی تھی مگر اس وقت اس کا کوئی خاطرخواہ جواب نہیں دیا گیا تاہم اس کو دام عروج ’ایلسا میلانو‘کے تئیں ہولی ووڈ پروڈیوسر کے جنسی ہراسانی کے ذریعہ حاصل ہوا۔جو باقاعدہ ایک ’ٹرینڈ‘بن کر ابھری۔
مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ جیسے معزز،باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرے میںنصف آبادی ظلم و تشدد کا شکار ہے تو صد فیصد خواتین کی آبادی غیر منصفانہ سلوک کے خوف میں مبتلاہے۔جب ایسے ترقی یافتہ ممالک میں عورتوں کے ساتھ یہ ناانصافیاں ظہور پذیر ہورہی ہیں تو ہندوستان جیسے ملک کی حالت کیا ہوسکتی ہے؟
حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ عورت ہی ہر جگہ ہر دور میں ظلم کی زد میں آتی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ کہ اسے ابھی تک قدرومنزلت کے ایوان نہیں عطا کیے گئے ،جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے ان اہم ستونوں کی پرورش وپرداخت کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں جس کا کوئی متبادل نہیں ۔ادوار کے ساتھ ساتھ حالات میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیںاور ان تبدیلیوں کے ساتھ ظلم کے نئے طریقے بھی ایجاد ہوگئے ہیں ،اس پر طرہ یہ کہ بعض قسم کے جبروتشدد کو ظلم میں ہی شمار نہیں کیا جاتا ۔میری دانست میں ایسی چیزیں بھی مظالم کے زمرے میں ہی آتی ہیں کہ ملازمتی مواضعات میں ان لڑکیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے جو اعلیٰ صلاحیت و قابلیت کی مالک تو ہیں مگر بے باکی سے مبرا ہیں،جو معصوم وسادہ مزاج تو ہیں مگر زیب وزینت سے بے نیاز ہیں،جو شائستہ مزاج تو ہیں مگر ادائے دلبری سے انجان ہیں ،جو معمولی شکل وصورت کی توہیں مگر حسن و جمال سے محروم ہیں۔ان سادہ مزاج لڑکیوں کے بالمقابل بے باک لڑکیوں کو اولیت و فوقیت دی جارہی ہے جب کہ ان دوصورتوں میں جہاں سادگی نشانہ بن رہی ہے وہیں بے باکی بھی ظلم و زیادتی کی زد میں آرہی ہے ۔کیوں کہ بے باک عورتوں کو گھٹیا زیب و زینت میں اپنے مفاد کے لئے اس طرح الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ ارتقائی معراج کمال سے منحرف ہوکر اپنے اہداف سے غافل ہوجاتی ہیں اور باصلاحیت و سادگی پسند لڑکیوں کونظر انداز کرکے انھیں خاک چھاننے پر اس طرح مجبور کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرلیتی ہیں یا تو جنسی مساوات و جبر کا نشانہ بنتی ہیں فلم انڈسٹری کی ایک مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ وہاں عزت مآب جیسی معزز ہستیاں اور شرفاء کے درمیان بھی اداکارائیں محفوظ نہیں جبکہ جنسی ہراسانی کے انسداد کے لیے ۹دسمبر۲۰۱۳ میں ایک قانون نافذ کیا گیا تھا جس پر بہت کم لوگ عمل پیرا تھے۔مگر تنو شری دتہ نے ۲۰۱۷ میں امریکی مہم می ٹوسے تقویت حاصل کرتے ہوئے اپنے تئیں ہوئے استحصال کے خلاف آواز بلند کی جس میں بالی ووڈ کی معزز شخصیات ویکاس بہل،چیتن بھگت،رجت کپور اورزلفی سعید وغیرہ کے ناموںکے ساتھ ساتھ وزیر مملکت برائے خارجہ مبشر جواد اکبر کی اکبری ہستی بھی شامل ہے ۔ملازمت پیشہ خاص طور پر صحافی خواتین نے ان ناروا سلوک اور جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کئے ہیں ،اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایم جے اکبر ایک سیاست داں سے قبل صحافی بھی رہ چکے ہیں۔بعض لوگوںکا کہنا ہے کہ ان خواتین نے اس وقت اپنے استحصال کی تشہیر کیوں نہیں کی ؟جس وقت انھیں شکار بنایا جارہاتھا ،جب کہ وہ لوگ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز تھیں،ذہین اور فہم وفراست کی مالک بھی تھیں۔وہ کیوں بار بار استحصال کی زد میں آتی رہیں؟بلکہ طنزآمیز طور پر یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ ان لوگوں نے محض شہرت اور اعلیٰ عہدے کے لئے اس طرح کی غیر اخلاقی حرکتیں کی ہیں،تو ایسے دانشوران اورمفکرین و مدبرین کے علم میں یہ بات بھی ہونی چاہئے کہ ہراسانی اور تشدد کے سانحات بیس سال قبل کے ہیں۔وہ اس وقت اپنے عہدے کے لحاظ سے کمزور تھیں انھیں خوف تھا کہ جنسی ہراسانی کے خلاف آواز بلند کرنے میں ان کے ساتھ کوئی منصفانہ سلوک نہیں کیا جائے گا،اس کے برعکس انھیں عدالتوں اور تحصیلوں کے بے جا چکر لگانے پڑیں گے وہ اس وقت اپنے اوپر لگے بدکرداری کے الزامات کو برداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتی تھیںاب جبکہ بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور عائد کردہ الزامات کے برداشت کا مادہ بھی ان کے اندر پیدا ہوگیاہے پھرامریکی مہم جیسے پلیٹ فارم نے قوت مجتمع کاحوصلہ بھی فراہم کردیا توان عورتوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے یہ اقدامات اٹھائے کہ آئیندہ ان خواتین کو ہمت ملے گی جو ملازمت کررہی ہیں یا اس میدان میں تگ و دو کر رہی ہیں یا پھر جو آنے والی نسلیں ہیں کم از کم ان کے لئے تحفظ کے مقامات میسر ہوں گے ،جب کہ ایسا کرنے میں ان عورتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو ظلم برداشت کرچکی ہیں اور جو سینہ سپر ہوکر آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ رسوائی اور بدکرداری ہی ان عورتوں کا مقدرٹھرے گی مگر اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ کوئی ایم جے اکبر دوسری معصوم لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔
می ٹو مہم اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے اعدادوشمارسے یہ بات سامنے آئے گی کہ کتنی عورتیں ظلوم وجبر،صنفی مساوات اور جنسی مساوات کا شکار ہوئی ہیں ؟معاشرے میں خواتین کے ساتھ کس حد تک امتیازی سلوک برتا جارہا ہے؟ان کے ساتھ کس قسم کے تشدد کیے جارہے ہیں؟یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کیوں کہ جہاں ملک کے حالات بدتر نظر آرہے ہیں اسی طرح خواتین کے حالات بھی بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔اس کی ضرورت اہمیت اس لیے بھی ہے کہ خواتین اپنے مسائل صرف خود تک محدود رکھ کر گھٹن کا شکار نہ ہوں بلکہ دوسری خواتین کو بھی اپنا شریک بناکر ایک اجتماعیت پیدا کریں، تبھی مسائل کا حل ممکنہ حد تک تلاش کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے مرد اساس معاشرہ کا تعاون بھی ضروری ہے بصورت دیگرخواتین کو فائدے کے ساتھ ساتھ نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔می ٹو کے چند فوائد اورنقصانات درج ذیل ہیں۔
می ٹو کے فوئد:-
۱-جنسی تشدد جیسے حادثات سے تحفظ کے مواقع فراہم ہوں گے۔
۲-صنفی امتیازات کے کون کون سے مسائل ہیں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے گی۔
۳-مسائل سے حفاظت کے لیے کس قسم کے اقدامات کیے جائیں اس پر غوروفکر ۔
۴-خواتین کے ساتھ کس قسم کے نارواسلوک اپنائے جارہے ہیں اس مناسبت سے کوئی لائحۂ علم تیار کرنا۔
۵-دوسری عام خواتین کے اندر اپنے مسائل پیش کرنے کی ہمت پیدا ہونا۔
۶-ملازمت پیشہ خواتین کے جنسی ہراسانی سے تحفظ بہم پہنچانا۔
۷۔شکایات کا یکسوئی کے ساتھ فراہم ہونا۔
۸-اجتماعیت پیدا ہونا۔
۹-حفاظت کے احساس سے کام میں ذہنی طور پر شریک ہونا۔
۱۰-ذہنی طور پر کام کے ارتکاز میںمعاشی ترقی کی امید ہونا۔
۱۱-ملازمت پیشہ مواضعات پر جنسی برابری،آزادی اور مساوات کا ہونا۔
۱۲-اپنی پسند کے مطابق کسی بھی جگہ پیشہ اختیار کرنا۔
۱۳-اکبروں کی اکبریت میں کمی آنا۔
می ٹو کے نقصانات:-
۱-خواتین کی ملازمت میں کمی ہونا۔
۲-مردوںکااپنی معزولی سے خوف کے تئیںخواتین سے بے رخی برتنا۔
۳-خواتین کا اپنے کسی ذاتی مفاد کی وجہ سے بے جا الزامات کے لیے می ٹو کا سہارا لینا۔
۴-صنف نازک ہونے کی وجہ سے کچھ ملازمتی موضع پر جو مردوں کی رقیق القلبی اور ہمدردی میسر ہوتی رہتی ہیں ان میں کمی واقع ہونا۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وقت اور حالات کی مناسبت سے می ٹو کی اہمیت و ضرورت ہے تاکہ عورتیں اپنے مسائل بے خوف ہوکر بیان کرسکیں،بہادری کے ساتھ ا پنی ملازمت کے کام انجام دے سکیں ،عوام میں اجتماعیت پیدا ہوسکے اور عورتیں آزادی کے ساتھ فضا میں سانس لے سکیں،مگر اس بات کا خوف بھی ہے کہ یہ مہم جس طغیانی کے ساتھ آئی کیا اس کا اثر دیر پا ہوگا؟کیا اس کے تحت عورتوں کو انصاف ملے گا؟کیا اس طرح عورتوں کے تئیں جنسی ہراسانی کا سد باب ہوسکتا ہے؟کیا صنفی امتیازات مٹائے جاسکتے ہیں ؎؟کیا عدم مساوات کو ختم کیا جاسکتا ہے؟کیا اس کا غلط استعمال نہیں ہوسکتا؟کیا عورتوں کو تحفظ مل سکتا ہے؟کیا ہماری کمسن بچیاں جنسی تشدد سے محفوظ رھ سکتی ہیں؟خواتین کو کن کن مراحل سے گزرنا ہوگا؟ابھی انھیں کتنی جدوجہد کرنی ہوگی؟اس قسم کے بہت سے سوالات کسی زہریلے ناگ کی طرح پھن پھیلائے ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔