9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر عائشہ فرحین
میری نظر روز کی طرح بالکونی میں کھڑی ٹھیک سامنے گھر میں ہونے والی سرگرمی پر تھی۔
یہ میرا روز کا معمول تھا۔یہ بالکونی میرے لیے گھریلو کاموں سے فراغت کے بعد ایک ایسی” جائے پناہ ” تھی جہاں میں اپنے بڑے اسکرین والے رنگین ساتھی کے ساتھ گھٹنوں گزارتی۔۔۔۔اطراف و اکناف سے بے خبر دنیا کی سیر میں مگن،میلوں دور بیٹھے جانے انجانے لوگوں کی خبرگیری میں ہمیں ہمہ تن مصروف۔۔۔کبھی کبھی اپنی ہی انگلیوں اور آنکھوں کی شکایت پر اپنے اس ہر دل عزیز ساتھی کو تھوڑی دیر کے لیے خود سے نا چاہتے ہوئے بھی الگ کرتی ۔۔۔تو میری نظریں ٹھیک سامنے والے گھر کی کھڑکی پر جا ٹھرتیں۔۔ جہاں سے گھر میں ہونے والی سرگرمی صاف نظر آجاتی ۔
میں جب بھی کسی کام سے بالکونی میی آتی سامنے والی کھڑکی پر ایک اچٹتی سے نگاہ ضرور ڈالتی ۔۔
جہاں ہمیشہ مجھے صرف ایک بوڑھی جان کے سوا کوئ نظر نہیں آتا جو کبھی خاموش بیٹھی ماضی کی یادوں میں محو نظر آتی تو کبھی کچھ کھانے پینے میں مصروف ۔۔۔
کبھی کبھار ایک ملازمہ نظر آجاتی جو اس اماں کو اٹھانے بیٹھانے، کھانا دینےکے لیے آجاتی۔۔۔لیکن وہ بھی چند لمحوں میں غائب ۔۔
اگر کبھی شام کے وقت بالکونی میں جانے کا اتفاق ہوتا تو ۔
یہی بوڑھی اماں بالکونی میں کرسی پر براجمان چہرے کو اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں سجائے ہر راہ چلتے شخص پر نظریں جمائے حسرت ویاس کی تصویر بنی نظر آتیں ۔۔۔
کبھی جو مجھ سے ان کی نظریں مل جاتیں ۔۔۔۔دور سے میرا سلام دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے،ہاتھ کے اشارے سے جواب بھی دیتں۔
لیکن پل بھر میں پھرسے آنکھوں کی وہی اداسی اور چہرے کی وہی مایوسی لوٹ آتی ۔۔۔
مجھے ایسا لگتا جیسے وہ اپنے ہی گھر میں محصور ہیں ۔۔۔
اور محصور ہونے والے بھل کب خوش رہتے ہیں ۔۔ان کی اداسی کی وجہ بھی شاید یہی محصوری تھی ۔۔
میں اکثر یہی سوچتی کہ آخر اس گھر کے سارے مکیں کہاں ہیں اور اس گھر کے مکیں کا اس بوڑھی جاں سے آخر کیا رشتہ ہے۔
کیا وہ اس پورے گھر میں اکیلی رہتی ہے۔۔
ایسا تو ممکن نہیں تھا۔۔۔۔۔
کیوں کہ اکثر صبح کے وقت تھوڑی بہت گہما گہمی ضرور نظر آتی ،جیسے سب مکیں گھر سے فرار حاصل کرنے کی تیاری میں ہوں۔۔۔۔لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں وہی مہیب سناٹا جو شام تک قائم رہتا۔۔۔۔۔
کئی بار اس کی کھوج کرنے کی ناکام کوشش بھی کی ، اس گھر جانے کا ارادہ بھی کیا،لیکن مجھےبھی اتنی فرصت کہاں کہ میں اپنے پڑوسی وہ بھی ایک بوڑھی جاں کا حال احوال دریافت کرنے اس کے گھر چکر لگاؤں ۔۔۔۔۔
اتنے وقت میں تو میں بیٹھے بیٹھے ہی دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلے کئ شناسوں کی خبر گیری کر آوں۔۔۔۔
ہاں کئی بار ارادہ ضرور کیا لیکن عمل آج تک نہیں ۔۔۔۔
لوک ڈوان نے جہاں ۔۔ سارے مصروف ترین لوگوں کو فرصت ہی فرصت بخش دی وہیں مجھے بھی فرصت کے چند لمحات میسر آہی گئے۔۔۔۔ حالانکہ یہ لمحے پہلے کی بہ نسبت کم تھے۔۔پہلے بچوں کو اسکول بھیجنے کی تیاری ، پکوان گھر کے کام ۔۔۔۔۔اس سب کے بعد شام بچوں کی واپسی تک فرصت ہی فرصت تھی۔لیکن اب اس لوک ڈاون نے جہاں شوہر اور بچوں کو گھر کی چار دیواری میں مقید کردیا تھا،وہیں ان کی وقت بے وقت کی فرمائشیوں نے میرے کام خصوصا کیچن کے کاموں اضافہ کردیا تھا ۔
اب بس گھر تھا ، گھر کے افراد اور کام۔۔۔ گھر کی محصوری نے پہلے بالکونی میں جانے سے بھی گریزاں کردیا۔۔۔لیکن کب تک۔۔۔۔
سو دو چار دن کے بعد ہی میں اپنی بالکونی میں کھڑی اپنے اور شہر کے لوگوں کے زندہ ہونے کی تسلی کرنے میں مصروف تھی کہ ۔۔۔ اچانک سامنے کے گھر کی گہما گہمی۔۔۔چہل پہل قہقہوں نے میری توجہ اس جانب کردی جہاں ہمیشہ ایک بوڑھی جاں حسرت و اداسی کی تصویر بنی نظر آتی تھی۔
جہاں ۔۔۔صبح و شام کی تھوڑی سی ہل چل کے سوا دن بھر کوی پرندہ بھی پر مارتا نظر نا آتا وہاں اب ۔۔۔۔
چھوٹے بڑے ۔۔بچے جواں تقریبا سبھی مرد و خواتین موجود تھے۔۔۔۔۔
بچے کھیل میں تو بڑے باتوں میں مصروف نظر آئے یقینا ۔۔۔ ملک کے سیاسی حالات اور کرونا بڑھتا ہوا قہر پر ہی گفتگو ہو رہی ہوگی۔۔۔
ایک طرف بڑے اسکرین والے ٹی وی پر خبریں نشر ہو رہیں تھیں ۔خواتین اپنی ہی باتوں میں مصروف ۔۔۔۔۔
میری نظر اپنی شناسا کے تعاقب میں وہاں جاکر ٹھرگئ ۔
سب کے درمیان وہی بوڑھی اماں ۔۔۔آنکھوں میں خوشی کے روشن دیے لیے ہستی مسکراتی نظر آئیں ۔
پھر شام میں چھت پرایک طرف بچے اپنے کھیل میں مصروف ۔۔۔دوسری طرف ۔۔۔بوڑھی اماں ان کے کھیل اور معصوم باتوں سے محظوظ ہوتی۔۔ ہشاش بشاش سی نظر آئیں ۔۔۔۔بچے وقتا فوقتا آماں کے پاس آتے ایک دوسرے کی شکایت کرتے ۔۔امان انھیں پیار کرتیں ۔۔۔اور بچے پھر سے کھیل میں مصروف ہوجاتے۔۔۔۔
نا جانے کیوں یہ منظر مجھے نیک وقت خوش اور افسردہ کر رہا تھا۔میں اس قدر اس منظر میں محو تھی کہ اپنے رنگین ساتھی کو بھی بھول بیٹھی تھی۔
اماں کی نظر مجھ سے ملی، میرے سلام کے اشارے پر بڑی خوشی سے اشارے میں ہاتھ سے جواب بھی دیا اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر خدا کا شکربھی ادا کیا۔۔۔۔۔
آخر وہ کس بات کا شکر ادا کر رہی تھیں ۔۔
کیا اس بات کا۔۔
کہ اب وہ اکیلی نہیں ہیں ۔۔۔
اور لوک ڈاون زندہ باد
میں ابھی اس کیفیت کو سمجھنے کی کوشش میں تھی ۔۔۔میرے اپنے گھر سے قہقہوں کے شور نے میری سوچوں کو بریک لگادیا۔اور میں اس نامعلوم شور کے تعاقب میں گھر میں داخل ہوئی۔۔۔۔۔
میرے بڑے ہال میں ہر چیز بکھری ہوئ تھی۔۔۔اور اس سب سے بے خبر بچے اپنے دادی کو گھیرے بیٹھے تھے۔
دادی اماں بھی نجانے کون کونسے قصے کہانیاں سنانے میں مصروف تھیں ۔
اماں کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں خوشی کے دییے روشن تھے۔بچوں کی اور اور کی رٹ۔۔۔۔
اماں کے چہرے سے ٹپکتا نور اور خوشی۔۔۔۔۔ان کا یہ روپ میرے لیے۔۔نیا تھا۔۔۔
ذہن کے پردے پر اماں کے بگڑا مزاج اور ازلی اداسی ابھری۔۔۔
لیکن اب یہ ہشاش بشاش چہرہ جو مجھے بھی اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔یہ نامعلوم سا شور ۔۔۔میرے دل نے کہا
لوک ڈاون زندہ باد۔۔۔
گلبرگہ کرناٹک