شاید اس کے۔۔۔

0
237

محمد قمر سلیممیں اپنے کمرے سے یہ سوچ کر باہر نکلا کہ نکڑ کے ہوٹل پر جاکر ناشتہ کر لوں گا۔میں ہوٹل پہنچا تو دیکھا ہوٹل کا مالک ایک چھ سات سال کے بچے کو چھڑی سے بڑی بے دردی سے مار رہا تھا۔
’’مٹھی کھول، کھول مٹھی ، حرام زادے‘‘ وہ چلاّیا
میں نے کہا، ’’ بھائی بچے کو کیوں مار رہے ہو۔‘‘
’’ارے تاؤ! چوری کی ہے سالے نے۔‘‘ وہ بولا
’’ٹھیک ہی تو کر رہا ہے۔مار بھائی جب تک مٹھی نہ کھولے۔‘‘ وہاں کھڑے ہوئے ایک صاحب بولے۔
’’ارے بھائی بچہ ہے سمجھا دیتے ‘‘
’’ارے صاحب کیسی باتیں کر رہے ہیں ، آج چھوڑ دیں گے تو کل اور بڑی چوری کرے گا۔ پھر ڈاکے ڈالے گا اور آتنک وادی بھی بن سکتا ہے۔‘‘ وہ صاحب بولے۔
’’کھول مٹھی، ارے کمبخت مٹھی کھول! میںتیری چمڑی ادھیڑ دوں گا اگر مٹھی نہیں کھولی۔‘‘
’’ارے بھائی چھوڑ دوبچے کو میں پیسے دے دوں گا۔‘‘
’’نہیں تاؤ پیسے کی بات نہیں ہے۔ اس کا ڈھیٹ پن تو دیکھو۔ اتنا پٹنے کے بعد بھی مٹھی نہیں کھول رہا ہے۔ ان لوگوں پر ترس کھانا ہی نہیں چاہیے ۔ یتیم ہے یہ سمجھ کر میں نے اسے کام پر لگا دیا اور اس نے میرے یہاں ہی چوری کرلی۔ ان کے ساتھ ہمدردی کرنا ہی غلط ہے۔‘‘ وہ بچہ ہوٹل میں کئی مہینوں سے کام کر رہا تھا ۔بہت ہی ہنس مکھ بچہ تھا۔ خوب دوڑ دوڑ کر کام کرتا تھا۔ اپنے گاہکوں کی خوب آؤ بھگت کرتا تھا۔ کوئی ہندو گاہک ہوتا تو نمستے کرتا ، مسلمان گاہگ ہو تا تو سلام کرتا، سکھ کو ست سری اکال ،کرسچین کو گڈ مارننگ اور جب کچھ سمجھ میں نہ آتا تو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جاتا۔سارے ہی گاہک اسے بہت چاہتے تھے۔ اتفاق یہ تھا کہ اس وقت میرے علاوہ کوئی بھی گاہک ہوٹل میں نہیں تھا۔
مالک کا ہاتھ رک ہی نہیں رہا تھا۔وہ مٹھی کھلوانے پر بضد تھااور بچہ رو رہا تھا، بلکھ رہا تھا، چِلّارہا تھا، تڑپ رہا تھا لیکن کسی بھی قیمت پر مٹھی کھولنے پر راضی نہیں تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا ۔ بچے کا رونا، بلکھنا، چِلّانا، تڑپنا دیکھا نہ گیا میں نے ایک جھٹکے میں اسے اپنی طرف کھینچ لیا ۔ وہ میری بانہوں میں جھول گیا ۔
’’ارے ! یہ تو بے ہوش ہوگیا ہے۔ پانی لاؤ۔‘‘ میں نے بچے کو زمین پر لٹا یااس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ لہو لہان ہو گیا تھا۔
’’عجیب انسان ہو تم، بچہ بے ہوش ہے اور تم اب بھی اس کی مٹھی کھول رہے ہو۔‘‘ میں نے ہوٹل کے مالک سے کہا۔
’’انسانیت مر گئی ہے۔‘‘ میں بڑبڑایا
ہوٹل میںکام کرنے والا دوسرا بچہ دوڑ کر پانی لایا ۔ میں نے بچے کا خون صاف کیا ۔ اس کے منھ پر پانی ڈالا۔ تھوڑی سی مشقت کے بعد وہ ہوش میں آگیا۔میں نے اس کے سر پے شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور پیار بھرے لہجے میں کہا، ’’ بیٹا ، مٹھی کھول ۔‘‘ اس کی مٹھی ڈھیلی پڑ گئی۔ مٹھی میں پرانے اخبار کا ایک پھٹا ہو اٹکڑا تھا۔اس پر ایک مرد اور ایک عورت کی تصویر تھی۔ شاید اس کے۔۔۔ ماں باپ ے ملتی جلتی۔
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here