زندگی کی حقیقت کیا ہے؟

0
191

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

محمد اویس سنبھلی

’’ہیلو! بھائیوں بہنوں: آداب۔ میں عرفان۔میں آج آپ کے ساتھ ہوں بھی اور نہیں بھی۔خیر یہ فلم انگریزی میڈیم میرے لیے بہت اہم اور خاص ہے۔یقین مانئے میری دلی خواہش تھی کہ میں اس فلم کو اتنا ہی پرموٹ کروں جتنے پیار سے ہم نے اسے بنایا ہے لیکن میرے جسم کے اندر کچھ Unwanted مہمان بیٹھے ہوئے ہیں، ان سے بات چیت جاری ہے، دیکھتے ہیں کس کروٹ اونٹ بیٹھتا ہے ، جیسا بھی ہوگا آپ کو اطلاع کردی جائے گی۔‘‘ یہ بالی ووڈ کے اسٹار اداکار عرفان خان کا اپنے چاہنے والوں کے لیے وائس میسج تھا جو ان کا آخری میسج ثابت ہوا۔
بالی ووڈ کے چہیتے ستاروں میں سے ایک عرفان خاں(جنوری 1966تا 28اپریل 2020) کا محض53 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔29؍اپریل کو انھیں بڑی آنت کے انفیکشن کے ساتھ ممبئی کے کوکیلابین اسپتال کےICUمیں داخل کیا گیا تھا اور بدھ کی صبح انھوں نے آخری سانس لی۔عرفان ایک مضبوط انسان تھے،انھوں نے Neuroendocrine Tumor جیسے مرض سے سے آخر تک لڑائی کی۔بالی ووڈ کے سب سے مشہور اداکاروں میں سے ایک ہونے کے باوجودعرفان خان نے شائستگی اور دیانتداری سے شہرت حاصل کی ۔ یہی سبب ہے آج ان کی موت کی خبرسن کر دنیا بھر کے اداکار، شائقین اور سیاست دان دکھ کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ عرفان خان کا انتقال سینما اور تھیٹر کی دنیا کے لئے بڑا نقصان ہے۔ انھیں مختلف میڈیموں میں اپنی ورسٹائل پرفارمنس کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔۔۔۔۔بالی ووڈ کے ساتھی اداکار امیتابھ بچن نے کہا کہ خان کی موت نے ایک ”بہت بڑا خلا” پیدا کردیا ہے۔امیتابھ بچن نے اپنے ٹویٹ میں یہ بھی کہا، ”ایک حیرت انگیز ٹیلنٹ، ایک باضمیر ساتھی، سنیما کی دنیا میں ایک بہت بڑا شراکت دار… بہت جلد ہمیں چھوڑ گیا‘‘۔ سلمان خاں نے کہا ’’عرفان خان کی موت فلم انڈسٹری، ان کے مدوحوں اور خاص طور پر ان کے اہل خانہ کے لیے بڑا نقصان ہے۔دکھ کی اس گھڑی میں ، میں ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہوں۔ خدا ان کو صبر دے اور عرفان کی روح کو سکون۔آپ ہمیشہ یاد رہیںگے اور ہم سب کے دلوں میں زندہ ۔راہل گاندھی نے خان کو ایک ”ورسٹائل اور باصلاحیت اداکار” کے طور پر یاد کیا تو دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ ہندوستان نے ”ہمارے وقت کا سب سے غیر معمولی اداکار” کھو دیا ہے۔
عرفان خاں کا تعلق راجستھان کے پشتو بولنے والے مسلمان گھرانے سے تھا۔اس کی والدہ بیگم خاں ، ٹونک کے حکیم کنبے سے تعلق رکھتی تھیں اور والد جہانگیردار ضلع ٹونک کے قریب کھجوریہ گائوں میں ٹائر کا کاروبار کرتے تھے۔عرفان خاں ایک ہنرمند کرکٹ کھلاڑی تھے اور 20سال سے بھی کم عمر میں سی کے نائیڈو ٹورنامنٹ کے لیے منتخب بھی ہوگئے تھے لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے انھوں نے کرکٹ کوچھوڑ کر 1984میں نئی دہلی کے نیشنل اسکول آف ایکٹنگ میں ایڈمیشن لے لیا اور اسکالر شپ حاصل کی۔ یہیں سے انھوں نے اداکاری سیکھی اور 1988سے بالی ووڈ میں اپنے کیریر کا آغاز کیا۔فنون کے میدان میں ان کی خدمات کے لیے انھیںہندوستان کا چوتھا سب سے بڑا سویلین اعزاز پدم شری سے بھی نوازا گیا تھا۔
مارچ 2018 میں، عرفان خان نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں ’’نیورواینڈوکرائن‘‘ ٹیومر کی تشخیص ہوئی ہے، لیکن کافی دن کے علاج و معالجہ کے بعد وہ کافی حد تک ٹھیک ہو گئے تھے اور اپنی نئی فلم’’ انگریززی میڈیم ‘‘ کی شوٹنگ کے لئے کافی حد تک صحت یاب بھی، یہ فلم ان کی آخری فلم ثابت ہوگی۔ اس فلم کو مارچ 2020میں ریلیز ہونا تھا لیکن کورونا وائرس کے سبب اس کے ریلیز کے پروگرام کو ملتوی کرنا پڑا۔اس مرض کی تشخیص کے بعد 2018 میں عرفان خان نے دنیا کی بے ثباتی پر ایک نوٹ لکھا تھا۔ جسے دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں لوگوں نے پڑھا تھا۔ اس تحریر میں انھوں نے منفرد، معنی خیز وعبرت انگیز انداز میں زندگی کی حقیقت، بے ثباتی و ناپائیداری پراظہارِخیال کیا تھا۔اس تحریر کا اردو ترجمہ معروف صحافی نایاب حسن نے کیا تھا۔پیش ہے عرفان خاں کا اثر انگیز نوٹ’’زندگی کی حقیقت کیاہے؟‘‘۔
’’کچھ دنوں پہلے مجھے پتاچلاکہ میں Neuroendocrineنامی خطرناک کینسرمیں مبتلاہوں، میرے علم میں آنے والایہ نیالفظ اوریہ بیماری بالکل نایاب تھی اور چوں کہ اس پر زیادہ ریسرچ بھی نہیں ہوئی تھی،اس لیے اس کے بارے میں معلومات بھی کم تھیں اور نتیجہ خیز علاج کے امکانات بھی کم سے کم نظرآرہے تھے،میں تجربات اور غلطیوں کے ایک نئے کھیل کا حصہ بن چکا تھا،جبکہ ایک طویل عرصے سے میں کسی اور گیم میں مصروف تھا،میں ایک تیزرفتار ٹرین میں بیٹھا بھاگا جارہاتھا،میرے ساتھ میرے خواب تھے،منصوبے تھے، آرزوئیں تھیں،نصب العین تھا،میں انھیں پورا کرنے میں منہمک تھاکہ اچانک میرے کندھے پر کسی کا ہاتھ پڑا،جب میں نے گھوم کر دیکھا،توسامنے ٹی سی تھا’’آپ کی منزل آنے والی ہے،آپ کو اترناہوگا‘‘اس نے کہا،میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا،میں نے کہا’’نہیں،ابھی میری منزل نہیں آئی‘‘۔جواب ملا’’نہیں،،جوبھی ہے یہی آپ کا سٹیشن ہے،آپ کو یہیں اترنا ہوگا‘‘۔
اچانک مجھے احساس ہواکہ تمھاری حقیقت توبس بے کراں سمندرکی پرہول لہروں پربہنے والے ایک ڈاٹ ڈھکن(Cork)جیسی ہے اور تم ان لہروں پرقابوپانے کی کوشش کررہے ہو،سخت شور، گھبراہٹ اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوگیا،اسی دوران اپنے ایک ڈراؤنے ہاسپٹل وزِٹ کے وقت میں نے اپنے بیٹے سے کہا’’اس وقت میں اپنے آپ سے بس اتنا چاہتاہوں کہ میں اس سنگین و تکلیف دہ صورتِ حال سے چھٹکاراحاصل کروں،مجھے ہر حال میں اپناپاؤں چاہیے،میں کھڑا ہونا چاہتاہوں،خوف اور بدحواسی کی یہ حالت مجھے مغلوب ومایوس نہیں کرسکتی‘‘۔
یہ میری منشا تھی؛چنانچہ کچھ دنوں بعدمیں ہسپتال میں داخل ہوگیا، دردشدید ہوتا گیا،پہلے سے یہ پتاتھاکہ دردہوگا،مگر اب اس کی گہرائی اور شدت کا احساس ہورہاتھا،دردپر قابوپانے کے لیے کوئی وسیلہ بھی کام نہیں کررہا تھا،نہ کوئی تسلی،نہ حوصلہ بخشی،ایسالگتاکہ اس وقت ساری کائنات بس’’درد‘‘کااستعارہ ہے اور یہ دردبے انتہاعظیم ہے!
جس وقت میں نہایت بے چارگی،کمزوری اور بدحواسی کے عالم میں ہسپتال میں داخل ہورہاتھا،اسی دوران مجھے پتاچلاکہ میراہسپتال لارڈس اسٹیڈیم کی دوسری جانب واقع ہے،یہ میرے بچپن کے خوابوں کامکہ تھا،اسی اتھاہ دردکے دوران میں نے Vivian Richards کا مسکراتاہوا پوسٹر دیکھا، مگر اسے دیکھ کر مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہوا،گویامیرااِس دنیا سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔
اس ہسپتال میں ٹھیک میرے اوپر کوماوارڈ ہے،اس میں بالکنی بھی ہے،جس سے باہر کے مناظر دِکھتے ہیں،ایک دن میں بالکنی میں کھڑاتھاکہ ایک حقیقت نے مجھے جھنجھوڑدیا،مجھے محسوس ہواکہ زندگی اور موت کے کھیل کے درمیان بس ایک سیدھی سڑک ہے،جس کی ایک جانب ہسپتال ہے اور دوسری جانب اسٹیڈیم،مگردونوں میں سے کسی کاوجود بھی قطعی اور حتمی(دائمی)نہیں ہے،اس حقیقت کے ادراک سے میرے ذہن میں ایک تیز جھماکاساہوا،میں اس کائنات کی عظمت و قو ت میں مدغم ہوچکا تھا،میرے ہسپتال کے محلِ وقوع کی اس خصوصیت نے میرے ذہن پر عجیب اثر ڈالا،تبھی مجھے احساس ہواکہ دنیاکی اگر کوئی حقیقت ہے،تووہ اس کی بے حقیقتی اور عدمِ قطعیت ہے،میرے کرنے کاکام یہ ہے کہ میں اپنی طاقت کوپہچانوں اوراپناکھیل اچھی طرح پیش کر سکوں۔
کائنات کی اس سچائی کے ادراک نے مجھے تسلیم ورضاکی راہ پرڈال دیا،چاہے نتائج جوبھی ہوں اور جیسے بھی ہوں،اب سے آٹھ ماہ یاچار ماہ یا دوسال کی مہلت ملے،اس کی فکر میرے دماغ سے نکلی اور دورہوتی چلی گئی۔پہلی بار مجھے ’’آزادی‘‘کی حقیقی معنویت کا احساس ہوا،صحیح معنوں میں ایک حصول یابی کا احساس،پہلی بار میں زندگی کا حقیقی ذائقہ چکھ رہاتھا،اس کے جادوئی پہلوسے واقف ہورہاتھا،کائنات کی حقیقت کامجھے مکمل ادراک ہوا،ایسامحسوس ہواکہ وہ میری رگوں میں جم گئی ہے،یہ تووقت بتائے گاکہ اسے ثبات ہے یانہیں،مگر فی الحال میں ایسا ہی محسوس کررہا ہوں۔
دنیابھرکے مختلف خطوں سے لوگ میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار اورمیری شفایابی کے لیے دعائیں کررہے ہیں،ان میں وہ بھی ہیں،جنھیں میں جانتاہوں،وہ بھی ہیں،جنھیں میں نہیں جانتا،وہ مختلف مقامات پر،مختلف اوقات میں میرے لیے دعائیں کررہے ہیں،مجھے لگتاہے کہ ان سب کی دعائیں ایک ’’وحدت‘‘میں تبدیل ہوگئی ہیں،ایک بڑی طاقت میں بدل گئی ہیں،لہروں جیسی طاقت میں،یہ دعائیں ریڑھ کے راستے میں میرے وجودمیں داخل ہورہیںہیں اور میرے سرکے اوپری حصے سے کونپلوں کی مانند پھوٹ رہی ہیں،کبھی کلی کی شکل میں،کبھی پتے کی شکل میں اور کبھی شاخ کی شکل میں،میں انھیں محسوس کرسکتا اور دیکھ سکتاہوں،دنیابھر کے خیرخواہوں کی دعاؤں سے پھوٹنے والی ہرکونپل،ہر پھول،ہرشاخ اور ہر پتہ مجھے تازگی،خوشی اور شفاسے ہم کنار کررہا ہے اور مجھے یہ احساس ہورہاہے کہ کائنات کے سمندرمیں بہتے ہوئے ڈھکن کو تیزطرار لہروں پر قابوپانے کی کوئی ضرورت نہیں،بس آپ یہ محسوس کریں کہ قدرت کی نرم آغوش میں جھول رہے ہیں!‘‘
قدرت کی نرم آغوش میں جھولا جھولتے ہوئے عرفان خاں ہمیشہ ہمیش کے لیے موت کی نیندسو گئے۔29 ؍اپریل کی شام انھیںبدھ کوور سووا قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔واضح رہے کہ عرفان خان کی والدی بیگم خان کا چند روز قبل انتقال ہوگیا تھا لیکن اپنی طبیعت کی خرابی اور لاک ڈائون کی وجہ سے وہ ان کی آخری رسومات میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ خدا مرحومین کے ساتھ ان آسانی کا معاملہ کرے۔
٭٭٭
رابطہ:9794593055

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here