درندے ،جنگل اور قانون !

0
273

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

عالم نقوی

ہم نے اس ہفتے ،ہم عصر ’سماجی درندوں‘ کی بر بریت کو موضوع بنا کر لکھی گئی دو کہانیاں پڑھیں۔ایک اکرم شروانی کی نئی کہانی’درندہ‘جو انہوں نے حال ہی میں لکھی ہے اور ابھی غیر مطبوعہ ہے اور دوسری ابن کنول کی ’نیا درندہ‘ جو ۲۰۱۴ میں شایع اُن کے مجموعے ’پچاس افسانے ‘ کی پہلی کہانی ہے !
دلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ پروفیسر ابن کنول توقارئین ادب کی اکثریت کے لیے محتاج تعارف نہیں لیکن بیاسی سالہ اکرم شروانی (سن پیدائش۱۹۳۶)کانام ادبی دنیا کے لیے نسبتاً نیا ہے کہ ان کے سولہ افسانوں کا صرف ایک مجموعہ ’پرواز ‘اسی سال (۲۰۱۸ کے آغازمیں)شایع ہوا ہےجس کا تعارفی مقدمہ شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سابق چئیر مین اور مشہور ادیب و نقاد پروفیسر صغیر افراہیم نے لکھا ہے ۔اس مجموعے کی اشاعت کے بعد اکرم شروانی نے پچھلے مہینے اپنی آبائی حویلی واقع حسن پور (ضلع علی گڑھ )میں قیام کے دوران دو کہانیاں لکھی ہیں جن میں سے ایک یہ ’درندہ ‘ ہے اور دوسری ’چاندنی ‘ جو حالیہ دنوں میں اچانک سر اٹھانے والی ’می ٹو(Me Too) تحریک کے تعلق سے لکھا گیا غالباً پہلا افسانہ ہے اور ’درندہ‘ کے بر عکس کسی قدر طنزیہ اور مزاحیہ پیرایے میں لکھا گیا ہے ۔صغیر افراہیم نے پرواز کے مقدمے میں لکھا ہے طنزو مزاح کا پیرایہ اظہار ہی ان کی خصوصیت ہے ۔اردو فکشن کے تاجدار ابن صفی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’طنزو مزاح میرا فن نہیں بلکہ کمزوری ہے ۔کمزوری اس لیے کہ میں صاحب اقتدار نہیں ہوں ۔صاحب اقتدار و اختیار ہوتا تو میرے ہاتھ میں قلم کے بجائے ڈنڈا نظر آتا اور مذاق اڑانے کے بجائے میں ہڈیاں توڑتا دکھائی دیتا‘‘۔اکرم شروانی کا افسانہ ’درندہ‘ اگرچہ مزاحیہ نہیں لیکن صاف نظر آتا ہے کہ وہ بھی اگر صاحب اختیار و اقتدار ہوتے تو ملک کے سبھی سماجی و سیاسی درندے ضرور اُن کے ڈنڈے کی زد پر ہوتے!
اکرم شروانی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے دوران کبھی اردو کو بہ حیثیت مضمون اختیار نہیں کیا لیکن اپنے خیالات و افکار کی ترسیل کے لیے ہمیشہ اپنی مادری زبان ہی کو وسیلہ بنایا ۔ انہوں نے افسانوں کے علاوہ کچھ ڈرامے اور مضامین بھی لکھے ہیں اور اپنے والد کی طرح ،جو ایک خوش فکر اور صاحب دیوان شاعر تھے ،وہ شعر بھی کہتے ہیں ۔
اکرم شروانی نے لکھا ہے کہ کہانی درندہ کا مرکزی پلاٹ ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۸ کو ٹائمز آف انڈیا میں شایع باغپت (یو پی) کے ٹکری گاؤں کی وہ عجیب و غریب خبر ہے کہ بندروں کے ایک غول نے ۷۲ سال کےایک بوڑھے کو اُس وقت پتھر مار مار کے ہلاک کر دیا جب وہ ہَوَن کے لیے سوکھی لکڑیاں چُن رہا تھا !
پچھلے پانچ برسوں کے دوران مسلمانوں، دلتوں اور کچھ غیر مسلم پولیس والوںوغیرہ کے ساتھ ،جو دلت بھی نہیں تھے ، ملک میں ہونے والی ’بھیڑ کی دہشت گردی Mob Lynchingکی متعدد وارداتوں کے پس منظر میں ٹکری (باغپت)کے مذکورہ بالا واقعے کو بنیاد بناکر اکرم شروانی نے یہ کہانی تخلیق کی ہے کہ ’’۔۔بوڑھے دھرم ویر کے بیٹے راج ویر نے جب بندروں کو اینٹیں مارتے اور باپ کو گرتے دیکھا تو ہَل بیل چھوڑ کر وہ دوڑتا ہوا باپ کو بچانے کے لیے آیا اور بندروں کو بھگانے کی غرض سے اینٹ کا ایک بڑا ٹکڑا اُٹھا کر اُن کی طرف پھینکا جو ایک قوی ہیکل بندر کی کنپٹی پر لگا اور وہ دھپ کی آواز کے ساتھ نیچے آگرا ۔۔راج ویر نے اینٹ کا ایک اور اَدًھًا اُٹھا کر اس کے سر پر دے مارا ۔ضرب اتنی شدید تھی کہ بندر جانبر نہ ہو سکا ۔آس پاس کےکھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان ،جو اپنے ساتھی دھرم ویر کو بچانے تو نہ آئے تھے ،بندر کی موت پر چراغ پا ہو گئے اور لاٹھی ڈنڈوں کے ساتھ ’جے ہنومان ‘ اور ’جے بجرنگ بلی ‘ کے نعرے لگاتے ہوئے (پاگلوں کی طرح )دوڑ پڑے اور اس سے پہلے کہ راج ویر کچھ سمجھ پاتا اس پر ڈنڈوں کی بارش ہو گئی اس نے زمین پر لوٹتے ہوئے چیخ چیخ کر اصل ماجرا بتانے کی کوشش کی لیکن اندھے بھکتوں نے راج ویر کو مار کر ہی دم لیا ۔۔سر پر پھیلا ہوا نیلا آسمان سوچ رہا تھا کہ اصل درندہ کون ہے ؟ وہ بندر جو حیوان مطلق ہے اور جس کے شعور کا دائرہ محدود ہے یا وہ انسان جو حیوان ناطق ہے اور جس کی صلاحیت اور شعور کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن جس کی منفی سوچ اور سفاکانہ طرز عمل سے انسانیت تو کیا حیوانیت بھی شرمسار ہے !‘‘
ابن کنول کے شاہکار افسانے ’نیا درندہ ‘کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ۔۔’’اپنے ساتھی بچوں کو ڈراتے ڈراتے اس کی عادت سی بن گئی تھی ،وہ ہر روز جنگل سے گاؤں کی طرف یہ کہتا ہوا دوڑتا چلا آتا تھا :’’شیر آیا ۔۔شیر آیا ‘‘وہ گڈریے کا لڑکا تھا اور اس نے گڈریے کے لڑکے کی وہ (مشہور) کہانی سن رکھی تھی جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی تھی ۔وہ اپنی بکریوں کے ساتھ دن بھر جنگل میں رہتا تھا ۔۔اسے معلوم تھا کہ شیر، اب کبھی نہیں آئے گا لیکن پھر بھی وہ سب کو ڈرانا چاہتا تھا۔۔(لیکن)لوگ (ڈرنے کے بجائے ) اُس کا مذاق بناتے تھے ۔(اب تو ) شیر۔۔ آدمی سے ڈرتے ہیں ۔۔پہلے لوگ جنگل میں جاتے ہوئے ڈرتے تھے ۔آج کل شہر میں جاتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں ۔۔گڈریے کا لڑکا کبھی ۔۔چیختا ۔’’بھیڑیا آگیا ۔۔بھیڑیا آگیا ۔۔بچاؤ، بچاؤ۔۔ لیکن کوئی گھر کے اندر نہیں بھاگتا ،دروازے کھلے رہتے ،کھڑکیاں بند نہیں ہوتیں ۔۔عبد اللہ کی دادی کہتی یہ لڑکا پگلا گیا ہے ۔۔۔دادی ماں اب بھیڑیا کیوں نہیں آتا ؟دادی ماں ہنس کر کہتیں :اب وہ تم سے ڈرتا ہے ۔۔اور اب تو ہر طرف بھیڑیے موجود ہیں ۔۔کیا مطلب ؟آہستہ آہستہ تم سب سمجھ جاؤگے ۔خدا تمہیں اُن بھیڑیوں سے سلامت رکھے ۔دادی بڑی پُر درد آواز میں کہتیں اور عبداللہ بات سمجھنے کی کوشش کرتے کرتے سو جا تا ۔۔ایک روز گڈریے کا لڑکا چلایا :بھاگو بھاگو ۔لکڑ بگھا آیا ۔بھاگو ۔۔لیکن(تب بھی ) کوئی نہیں بھاگا ۔۔۔کچھ دن پہلے ایک لکڑ بگھا غلطی سے گاؤں میں آگیا تھا (لیکن وہاں ) آکر اپنی سب حیوانیت بھول گیا اور ۔دُم دباکر بھاگ گیا ۔۔پھر ایک دن یہ ہوا کہ (گڈریے کا لڑکا ) بکریاں چراتے چراتے بہت تیزی سے چلاتا ہوا گاؤں(میں آیا کہ) :بھاگوبھاگو ۔۔بلوائی آگئے ۔۔دنگائی آگئے ۔۔بھاگو ۔۔!(یہ سننا تھا کہ آج )گاؤں میں ہلچل مچ گئی ۔لوگ (کام چھوڑ چھوڑ کر ) بے تحاشہ اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگے ۔پلک جھپکتے ہی گھروں کی کھڑکیاں دروازے بند ہوگئے ۔لوگ اپنی بہو ،بیٹیوں اور بچوں کو محفوظ جگہوں پر چھپانے لگے ۔بازار بند ہوگئے ۔ذرا سی دیر میں چاروں طرف سناٹا چھا گیا ۔دہشت اور وحشت سڑکوں پر منڈلانے لگی ۔۔گڈریے کا لڑکا (آج گاؤں کے ) ایک گوشے میں (با لآخر اپنی کامیابی پر )خاموش کھڑا مسکرا رہا تھا ۔‘‘
اکرم شروانی کی نئی کہانی ’درندہ‘ اورابن کنول کاکئی برس قبل لکھا ہوا افسانہ’نیا درندہ ‘ پڑھ کر ہمیں زہرہ نگاہ کی یہ نظم یاد آگئی کہ :
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے ۔۔سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا ۔۔درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے ۔۔ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں ۔تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر ۔کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے ۔۔سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے ۔۔سنا ہے جب کسی ندی کےپانی میں ۔۔بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے ۔۔تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں ۔کبھی طوفان آجائے ۔کوئی پل ٹوٹ جائے تو ۔کسی لکڑی کے تختے پر گلہری ،سانپ ،بکری ،اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں ۔۔سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے ۔۔خدا وند جلیل و معتبر ،دانا و بینا منصف و اکبر ! مرے اس ملک میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر !

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here