داڑھی میں اسلام نہیں ہے، ہاں اسلام میں داڑھی ہے!

0
1155

سید درالحسن رضوی اخترؔ اعظمی

عزیز محترم وقار صاحب کا ایک مضمون ’اسلام میں داڑھی ہے؟ یا داڑھی میں اسلام؟‘ روزنامہ اودھ نامہ مورخہ 13اپریل میں پڑھا۔ موصوف ایک بزلہ سنج نقاد اور اتحاد بین المسلمین کے اچھے مبلغ ہیں۔ قوم و ملت میں رائج اکثر خرابیوں پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ زیر نظر مضمون سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مضمون نگار موصوف کی کسی داڑھی والے مولوی سے داڑھی کے موضوع پر بحث ہوگئی، نتیجہ کے طور پر قلم جوش میں آگیا۔ اس وقت میرا قلم بھی با ہوش خدمت دین پر آمادہ ہے۔
بھائی وقار صاحب کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ صرف داڑھی میں اسلام نہیں ماناجا سکتا اور یہ فرمانا بھی کافی حد تک بجا ہے کہ بغیر داڑھی والے حضرات اگر صاحب علم اور با کردار ہیں تو ان کی گفتگو بھی مستند ہونے کا درجہ رکھتی ہے لیکن اگر کسی مسئلے میں ان کی بات کسی با علم و عمل متشرع عالم دین سے ٹکرا جائے تو شریعت اسلام کی نظر میں اس متشرع (داڑھی والے) عالم با عمل کی بات وقیع اور قابل قبول ہوگی، چاہے غیر متشرع (کلینڈشیو) صاحب کتنا ہی با وقار، صاحب کردار اور علم والے کیوں نہ ہوں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان کا ایک عمل تقوے پر بٹّہ لگا رہا ہے۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ شارع اسلام (حضرت محمد مصطفیٰؐ ) ارشاد فرماتے ہیں کہ حفوالشوارب واعفو اللحی ولا تشبھو!بالمجوس (صحیح بخاری بحوالہ زینۃ الرجال ص 39) یعنی مونچھیں تراشو اور داڑھی رکھو اور مجوس کے مشابہ نہ ہو۔ اس حدیث میں داڑھی رکھنے کا صریحی حکم موجود ہے۔ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے بھی ’من لا یحضر ہ الفقیہ‘ میں یہی حدیث تحریر فرمائی ہے کہ مونچھو کو کترو اور داڑھی کو رکھو اور یہودی کے مشابہ نہ بنو۔
مندرجہ بالا دو مستند حوالے ہیں ایک اہلسنت کی معتبر ترین کتاب صحیح بخاری سے اور ایک اہل تشیع کی اہم ترین کتاب سے۔ بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ داڑھی رکھنے کا وجوب قرآن میں کہاں ہے؟ ان سے یہ پوچھا جائے کہ کتے کا گوشت حرام ہے یا نہیں؟ اگر حرام ہے اور یقیناََ حرام ہے تو قرآن میں کہاں ہے؟ یقیناََ قرآن میں سب کچھ ہے مگر ہمارا علم محدود ہے، سب کا سمجھنا ہمارے بس سے باہر ہے، اس لئے کہ واضح احکام کے ساتھ متشابہات بھی موجود ہیں اور بہت سے رموز الٰہی ہیں جو ہماری فہم سے بالاتر ہیں مثلاََ حروف مقطعات (الم، کھیعص وغیرہ) اس لئے اگر کوئی حکم ہماری سمجھ میں نہ آئے یا قرآن میں نظر نہ آئے تو ہمیں اس کا انکار نہیں کر دینا چاہئے بلکہ علماء سے رجوع کرنا چاہئے اور شرعی حکم حاصل کرنا چاہئے۔ چند عظیم ترین مراجع کرام کے فتوے ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔(ملاحظہ ہو بحوالہ ’زینۃ الرجال‘ مصنفہ آیۃ اللہ سید شمیم الحسن رضوی مد ظلہ العالی
داڑھی مراجع کرام کے فتوں کی روشنی میں
۱۔ آیت اللہ سید محسن الحکیم طاب ثراہ فرماتے ہیں ’’حلق اللحیۃ من المعاصی وھو حرام‘
یعنی داڑھی کا مونڈنا معاصی میں سے ہے اور حرام ہے۔
۲۔’یحرم علی الحلاق حلق لحیۃ الغیر‘ یعنی موتراش (نائی)کے لئے کسی دوسرے کی داڑھی مونڈنا حرام ہے۔
۳۔ آیت اللہ سید ابوالقاسم الخوئی طاب ثراہ تحریر فرماتے ہیں محرم حلق اللحیۃ واحزالا جرۃ علیہ۔۔۔ یعنی داڑھی کا مونڈنا حرام ہے اور اس پر اجرت لینا بھی حرام ہے احتیاط واجب و لازم کی بنا پر۔ مگر یہ کہ اس کو داڑھی مونڈنے پر مجبور کر دیا جائے یا کہ علاج و غیرہ کی وجہ سے مجبور ہو جائے یاکہ ترک میں کسی ضرر کا خوف ہو یا اس کے ترک کر نے سے اس کے لئے حرج واقع ہو جیسے کہ اس کا اس طرح مذاق اڑایاجائے یا شدید اہانت کی جائے کہ جس کو برداشت نہیں کیا جا سکتاتو ان صورتوں میں داڑھی کے مونڈنے کے جائز ہونے میں اشکال نہیںہے۔ (منہاج الصالحین جلد 2)
۴۔ آیت اللہ سید علی حسین سیستانی (مرجع وقت) مد ظلہ تحریر فرماتے ہیں ’لایجوز للرجل حلق لحیۃ۔۔۔ مرد کے لئے احوط وجوبی کی بنا پر داڑھی کا مونڈنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح تنہا ٹھڈی کا بال باقی رکھنا اور باقی حصو ںکا مونڈنا جائز نہیںہے۔۔
۵۔ اگر کسی مسلم کو داڑھی مونڈنے پر مجبور کر دیا جائے یا کسی علاج کی غرض سے مونڈنا ضروری ہو یا اس کے قتل یا اپنی جان کے لئے خطرہ ہو یا داڑھی مونڈنے کے ترک میں (یعنی داڑھی رکھنے میں ) مسلمان مضحکہ اور اہانتِ شدید کا شکار ہو کہ وہ ناقابل برداشت ہو جائے تو داڑھی مونڈنی جائز ہے ‘
داڑھی مونڈنے کی ممانعت، قرآنی اشارے
یہ حقیقت پہلے ہی واضح کی جا چکی ہے کہ قرآن میں سب کچھ ہے مگر سب کا سمجھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ احادیث اور سیرت کی روشنی میں قرآنی احکامات کو سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ مثلا سورئہ نسا کی آیت 118تا 121 میں تفصیل سے شیطانی حرکتوں اور اس کے نتیجہ کو اللہ تعالیٰ نے پیش کیا ہے ’(شیطان نے طے کر لیا ہے اور ) کہتا ہے کہ تیرے بندوں میں سے (اکثریت کو) اپنے قبضہ میں لے لونگااور انھیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور انھی بڑی بڑی امیدیں دلاتا رہوںگا۔۔۔ اور ان سے کہونگا کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑ دیں ۔ سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا سرپرست بنائیگا تو وہ صریحاََ سخت گھاٹے میں رہے گاشیطان ان سے اچھے اچھے وعدے بھی کرتا ہے اور بڑی بڑی امیدوں کے سبز باغ بھی دکھاتا ہے، (مگر یاد رکھو) شیطان کے جو ان سے وعدے ہیں وہ سراسر دھوکا ہے،‘‘ (شیطان کے پیروکار) وہ لوگ ہیں جن کی جگہ جہنم ہے جہاں سے انھیں چھٹکارہ نہ ملے گا‘‘ آیہ مبارکہ میں شیطان نے وعدہ کیا ہے کہ میں لوگوںگمراہ کروں گا اور ایسے گناہ میں مبتلا کروں گا کہ خدا کی بنائی ہوئی صورتوں یعنی (خلقت خدا) میں تغیر کر دیں گے اور اس میں شک نہیں کہ داڑھی بھی خدا کی ہی پیدا کردہ ہے۔ یہاں ایک سوال ذہنوں میں پیدا ہو سکتا ہے کہ خلقت خدا میں ہر طرح کے تغیرکی مخالفت ہے تو پھر ختنہ کرنا، سرکا بال کٹوانا، زیر ناف بال کاٹنا، ناخن کاٹنا بھی حرام ہوا، اس لئے کہ ان سب افعال میں ’خلقت خدا میں تبدیلی‘ لازمی ہے۔ بے شک! ذہنوں میں اس طرح کا سوال اٹھنا فطری ہے۔ یقیناََ یہ چیزیں بھی حرام ہوتیں مگر اس وقت جب کہ ان چیزوں کے متعلق الگ سے شریعت نے مخصوص احکام نہ رکھے ہوتے۔ اسی لئے قرآنی آیات کی تشریح کے لئے تفاسیر اور سیرت سے باخبر ہونا ضروری ہے اور اسی کا نام شریعت ہے۔ ’اے صاحبان ایمان تقویٰ اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جائو (سورہ توبہ 119)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here