خالد جمال کی شاعری پر ایک نظر

0
523

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

ڈاکٹر سعدیہ بشیر
لاہور پاکستان

شاعری دلی جذبات کا محض اظہار نہیں بلکہ ان جذبات کا توازن ، تہذیب ،شائستگی اور معانی و مفہوم کی ترسیل اولین شرط ہے ۔بقول شیفتہ….
معانی کی فکر چاہیے صورت سے کیا اصول
کیا فائدہ کہ موج اگر ہو سراب میں
حالی کی مقدمہ شعر و شاعری میں بھی اولیت تخیل و مفہوم کو ہی دی گئی ہے ۔اور اگر ہم خود بھی دیکھنا چاہیں تواچھا شعر وہی محسوس ہوتا ہے ۔جس میں کوئی بات تو ہو ۔محض کہے جانا تو کوئی بات ہی نہیں . اسلیے توجہ وہیں مرتکز ہوتی ہے جہاں جہاں اشعار صورت لفظی نہ ہوں بلکہ تفہیم کے در بھی وا ہوں ۔ خالد جمال کا تعارف ان کی کتاب ” شریک حرف ” کے ذریعے ہوا ۔کتاب کا نام دیکھتے ہی میرے ذہن میں ایک دم یہی خیال ابھرا کہ حرف کا شریک تو معانی اور احساس ہی ہو سکتا ہے ۔جوں جوں کتاب پڑھتی گئی ۔اپنے خیال کی پختگی پر یقین آتا گیا ۔خالد جمال کے ہی الفاظ میں…….
کبھی کبھی جو امیدیں سنورنے لگتی ہیں
رخ یقین پہ لکیریں ابھرنے لگتی ہیں
خالد جمال کے ہاں روایتی مضامین کی تکرار نہیں ۔خیال وفکر کی جزئیات نگاری ہے ۔خیال کی وہ تاریں جو الجھتی بھی اس قرینے سے ہیں گویا سنور رہی ہوں۔ شاعر کی حساسیت مفہوم کے انگار سے خوف زدہ ہے ۔ معانی کا بوجھ ڈھونا آسان نہیں ہوتا ۔لیکن خالد اس مفہوم کو سمجھ کر خیال کی شمع روشن کرتے ہیں…
سماعتوں پہ عجب وار ہے کہ اب کی بار
در خیال پہ دستک سے ڈرنے لگتی ہیں
خالد جمال وہ فنکار ہے جو ڈرافٹ بنانے پر زور نہیں دیتا ۔بلکہ موضوعات کے وہ اوزار تلاش کرتا ہے جو خیال کو الفاظ میں ڈھالنے میں مدد کریں ۔
کتابیں سرخ تھیں مضروب سر تھا
نہ جانے کس کا شہکار ہنر تھا
بڑا مشاق ہے اپنے ہنر میں
مرا ہمزاد مجھ سے پیشتر تھا
انسانی زندگی کی بے ثباتی ۔لا حاصلی کا دکھ ۔زمانے اور قسمت کے تغیرات ایک عرصہ تک اردو شاعری کے بنیادی موضوعات بنے رہے ۔لیکن اس بےثباتی کا ظہور ۔ اس کی مختلف اشکال اور اس سے پیدا ہونے والے معاشرتی و جذباتی عوامل بھی اتنے ہی اہم ہیں ۔جن کے نتیجے میں زندگی کی مختلف اشکال سامنے آتی ہیں ۔۔خالد جمال کے ہاں محرومی کا رونا نہیں ہے ۔لاحاصلی کا ماتم بھی نہیں بلکہ ایک سبھاؤ اور نپے تلے انداز میں ایسے معاملات کا بیان ہے جو بنیاد تو ہیں لیکن ارتقائی بھی ۔یہی زندگی ہے ۔
کب تلک آخر چبھیں گی خواب کی یہ کرچیاں
نیند بھی آ جائے گی جب تھک گئے ہیں جسم و جاں
نامرادی کی تھکن سے جسم و جاں ہیں چور چور
دور تک پھیلا ہوا ہے ایک دشت بیکراں
خالدجمال کے ہاں الفاظ ہی تراکیب ہیں ۔جن کی مدد سے وہ مناظر تخلیق کرتے ہیں ۔اس عمل میں وہ اینٹ پر اینٹ رکھنے کے مصداق اپنا حصہ نہیں ڈالتے بلکہ آرائش کے نئے زاویے بھی دریافت کرتے ہیں ۔وہ ایک نئے انداز اور نظر سے معاملات کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں اور اس خوشگواری سے قاری کے سامنے رکھتے ہیں جہاں دل ٹوٹتا یا بکھرتا نہیں احساس کی قندیلیں ڈھارس بندھاتی ہیں ۔۔یہی بین المفہوم بلند حوصلگی خالد جمال کی شناخت ہے ۔
دھوپ کی شدت بڑھی موج ہوا کی کاٹ بھی
دیکھ تو شاخ نمو سے گر رہی ہیں پتیاں
رات دن کے کھیل میں جاں سے گیا تو کیا ہوا
لے کے آیا ہے یہاں پر کون عمر جاوداں
خالد جمال کی سب سے بڑی خصوصیت جو ندرت کلام بھی ہے یہ کہ انھوں نے بیانیہ سے زیادہ تجزیاتی انداز اپنایا ہے ۔یہ اس امر کی دلیل ہے کہ فنکار کئی تجربات سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے ۔اس لیے اس کے مزاج میں وہ شوریدگی نہیں جس میں شور ہوتا ہے ۔اس کے برعکس خالد کے ہاں وہ گونج ہے وہ آواز کے تعاقب میں آتی ہے ۔
نظر نظر ہے شکار لیکن
کھنچی ہوئی اک کمان چپ ہے
شفق شفق شورشیں لہو کی
زبان آشفتگان چپ ہے
یہی چپ معراج ہے ۔۔اس منزل کی جہاں کائنات کے اسرار روشن نظر آتے ہیں ۔اور یہی چپ فنکار کے فن کو جلا بخشتی ہے ۔
اے جنوں خیز ہوا تجھ سے بھی ڈھائی نہ گئی
ایک دیوار اٹھی تھی جو من و تو کی طرح
شاعر کے ہاں پڑاؤ نہیں بہاؤ ہے ۔یہی زندگی جینے کی علامت ہے ۔۔یہاں پکار سے زیادہ طلب کی خواہش ہے
اے مری چشم طلب کو جلوہء صد رنگ دے
پردہء سیمیں ہٹا جب ختم ہے کار جہاں
اور
رات دن کے کھیل میں جاں سے گیا تو کیا ہوا
لے کے آیا ہے یہاں پر کون عمر جاوداں
خالد جمال شعری اسراو رموز سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔اور شعری جہان کے پس پردہ معاملات حسن طلب اور حسن بیان سے بھی ۔۔وہ روایت سے جڑے جڑے جدت کے سفر پر گامزن ہیں ۔ان کی نگاہ بخت میں نہیں الجھتی ۔بلکہ لکیروں کی ترسیل انھیں راستہ دکھاتی ہے ۔اس میں تجاہل عارفانہ بھی ہے اور درویشی کے بیش بہا زاویے بھی ۔
وہ تو اک خالی مکاں ہے کوئی بھی رہتا نہیں
اس کے دروازے پہ کتنے نام کی ہیں تختیاں
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here