حیاتِ جاویداں

0
143

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ڈاکٹر عنبر عابد

ہندوستان میں بیسویں صدی کے قرن سے جب خورشیدِ تازہ نمودار ہوا تو یہ مسلمانوں کے زوال اور انگریزوں کے اقبال کا وقت تھا۔ حکومت ختم ہو چکی تھی۔ تہذیب و تمدّن کی گِرتی ہوئی دیواریں… اور مذہب جاریہت کا نشانہ تھا۔ ملّتِ اسلامیہ خستگی اور درماندگی میں پچھلے پہر کے بُجھتے چراغ کا منظر پیش کر رہی تھی۔
اِس نیم جاں ملّت کی مسیحائی کے لئے دو طبقے سرگرداں تھے۔ ایک طبقہ تو وہ جس نے علومِ دینیا کو درد کا درماں سمجھ کر قدیم طرز کے مدارس قائم کر لئے تھے۔ دوسرے طبقے نے انگریزی زبان اور دنیاوی علوم کو زخم کا مرہم سمجھ کر جدید تعلیمی درسگاہیں بنا لی تھیں۔ دونوں ہی طبقے مفید کام انجام دے رہے تھے لیکن دونوں اپنے مقصد میں ایک دوسرے کے ساتھ نہ تھے۔ ایک طبقے کے پاس دین تھا لیکن تفہیم و ترسیل کی زباں نہ تھی… اور دوسرا طبقہ اساسِ دین سے ناآشنا تھا۔
’’اِسے کشتی نہیں ملتی اُسے ساحل نہیں ملتا‘‘
اِس طرح مسلمانوں کے قدیم اور جدید طبقے کے رمیان اِس خلج کو پُر کرنے کے لئے… توازن پیدا کرنے کے لئے، ساتھ ہی معاشرے کو ذہنی جدال سے بچانے کے لئے ایک ایسے میرِ کارواں کی اشد ضرورت تھی جو دین و دنیا کی جامعت کی فضا کو برقرار رکھ سکے… ۵ ؍ دسمبر ۱۹۱۳ء؁ کو عالمِ دین کے اُفق پر طلوع ہوا علم و ذہانت کا ایک روشن سورج جس کی شعاعوں نے اہلِ دین کے دل و دماغ کو علم ، آگہی و شعور کی روشنی سے منوّر کر دیا۔ اِس علم و ادب کے روشن او رتابناک سورج کا نام تھامولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب۔ آپ کی پیدائش ایک علمی خاندان میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ رائے بریلی میں حاصل کی۔ مولانا علی میاں کے والد عبدالحئی حسنی صاحب نے آٹھ جلدوں پر مشتمل عربی سوانح ’’دائرۃ المعروف‘‘ لکھا تھا جس میں برِّصغیر کے تقریباً پانچ ہزار سے زائد علماء اور مصنفین کے حالاتِ زندگی موجود ہیں۔ علی میاں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے لکھنؤ کے دارالعلوم ندوۃ العلماء کا رُخ کیا اور وہاں سے علومِ اسلامی میں سند حاصل کی۔
عالمِ دین میں مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ایک بہترین مفکّر، رہنما ئے قوم، پیامبرِ علم و ادب، محبت و امن کے سفیر، درد مندوں کے مسیحا اور ایک روشن خیال رہنما کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انہوںنے دینی فرقہ پرستی اور شدّت پسندی کی کُھل کر مخالفت کی ۔ وہ دینی معاملات میں اعتدال کے قائل تھے اور اہلِ اسلام کو جدید تعلیم و ٹیکنالوجی کے ذریعے دورِ حاضر سے جوڑنے کا کارنامہ انجام دیا۔
مولانا صاحب کی طرزِ زندگی پیغامِ یکجہتی کا درس ہے۔ سبھی مذاہب کی عزّت و احترام او رقومی یکجہتی و اتحاد ہی ان کی زندگی کا مقصد عین تھا۔ انہوں نے ’’پیامِ انسانیت‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی جس کا مقصد اہلِ دین کو جدید تعلیم سے واقفیت کے ساتھ ساتھ امن و اتحاد کا پیغام دینا بھی تھا۔
مولانا کی تصنیف ایسی ہیں جنہیں پڑھ کر ان کی علمی، ادبی اور دینی سمجھ کا ہی اندازہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی ہر تصنیف میں ایک مقصدیت نظر آتی ہے۔ کیونکہ ان کی ساری زندگی یا کم از کم زندگی کا وہ اہم حصّہ جس میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا ملی مسلسل اہلِ دین کی اصلاح میں بسر ہوئی۔
مولانا کی تحریروں میں مدرسہ بھی ہے اورخانقاہ بھی… علم و ادب کا سکون بھی اور تحریک کی اجتماعیت کی گرمیٔ محفل بھی… فکر کی تابانی اور انشاء کی درخشانی بھی۔ ان کا خطاب ان سے بھی تھا جو رنگِ نشینِ سلطنت ہیں اور ان سے بھی جو برادرانِ وطن ہیں۔ وہ سبھی کو پیغامِ انسانیت اور محبت سے نوازتے۔ یہی وہ جامیتِ کمال ہے جو ان کی شخصیت کا امتزاجِ خاص تھا۔
حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب کی شخصیت ان کے اسلوب کی طرح مختلف پھولوں کا مجموعۂ عطر ہے۔ اہلِ دل کے تپتے دنوں کی تپش اور شبوں کا گداز… شعر و ادب کے قلم کا ساز… اہلِ فکر و علم کا ذوق… جستجوئے مجاہدین کی روحِ عمل یہ سارے رنگ ان کی ذات میں یوں جمع ہوئے کہ ان کی شخصیت سب سے منفرد اور ممتاز ہوتی چلی گئی۔ ان کی شخصیت میںجامعت بھی ہے اور اعتدال بھی… جمال بھی ہے کمال بھی۔ اگر ہم مولانا کی تصانیف پر ایک نگاہ ڈالیں تو ان کی نگارشات کے گلدستے میں قرآنی موضوعات تو ملتے ہی ہیں ، ساتھ ہی سیرتِ نبوی کے موضوع پر بھی کئی کتابیں نظر آتی ہیں۔ جدیدیت ، تاریخ، علم و کلام، سوانح، خاکہ نگاری اور اصلاحیت کے علاوہ خالص فکری موضوعات پر بھی مستقبل تقریباً ۷۰ سے زیادہ تصانیف کا ذخیرہ ملتاہے۔
زبان و بیان پر قدرت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مولانا صاحب کو اردو، فارسی، انگریزی کے ساتھ ساتھ بطورِ خاص عربی زبان پر قدرت کا جوہر حاصل تھا۔ عربی زبان پر دسترس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوںنے بڑے بڑے عرب اساتذہ کی رہنمائی فرمائی اور عرب ممالک کی بڑی بڑی درس گاہوں (یونیورسٹیز) میں نصاب کی اصلاح کی۔ عرب ممالک میں آپ کی عزّت و احترام کا یہ عالم تھا کہ ۱۹۵۱ء؁ میں دوسرے حج کے دوران کالید بردار کعبہ نے دو دن کعبہ کا دروازہ کھولا اور آپ کو اپنے رفقا کے ساتھ اندر جانے کی اجازت دی۔سبحان اللہ !
مولانا صاحب کے قلم کی روانی کو دیکھ کر کسی خوش خرام پہاڑی ندی کا تصوّر سامنے آتا ہے جو گاتی و گنگناتی ہوئی عراقِ دل کے ساز کو چھیڑتی ہوئی سنگِ رہِ گاہ سے، گاہ بچتی، گاہ ٹکراتی ہوئی نخلستانوں کو شاداب اور ریگستانوں کو سیراب کرتی چلتی ہے۔
مولانا صاحب کی بے پناہ علمی، ادبی اور دینی خدمات کا اعتراف مختصر طور پر کرنا گویہ دریا کو کوزے میں بند کرنا ہے جو قطعی ناممکن ہے۔ شاہ فیصل ایوارڈ کے علاوہ آپ کو کئی ملکی اور غیر ملکی اعزازات سے نوازا گیا۔ جس کی فہرست کافی طویل ہے۔ مولانا صاحب نے اپنی پوری زندگی خدمتِ خلق میں بسر کی۔ نام و نمود اور دِکھاووں سے دور سادگی اور امن کے اِس فرشتے نے وطن سے محبت کا پیغام ہر خاص و عام (ہندوستانیوں) کو دیا۔ وہ جتنے مسلمانوں میں مقبول تھے اتنے ہی غیر مسلموں میں بھی ان کے چاہنے والے تھے۔
۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۹ء؁ کو علم و ادب کا یہ روشن سورج غروب ہوگیا اور اپنے پیچھے کبھی نہ بھرنے والا ایک خلا چھوڑ گیا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
(بھوپال)
٭٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here