ڈاکٹر ہارون رشید
نیر مسعود نے بیانیہ کے اصول تبدیل کئے:پروفیسر قاضی افضال
نیر مسعود کے ذہن میں افسانے کے تعلق سے کوئی پیچیدگی نہیں:ڈاکٹر نور فاطمہ
رائے اماناتھ بلی ہال میں پروفیسر نیر مسعود کی شخصیت اور ادبی آثار پر تاریخ ساز سمینار
لکھنؤ۔۵؍اگست۔علمی اور ادبی دنیا کی انتہائی قد آور شخصیت ،عالمی شہرت یافتہ محقق ،مدون،مترجم ،ناقد اور صاحب طرز افسانہ نگارپروفیسر نیر مسعود کی شخصیت اور ادبی آثار کے عنوان پر رائے اماناتھ بلی آڈیٹوریم قیصر باغ میں ایک روزہ قومی سمینار کا اہتمام کیا گیا۔ادبی انجمن اسلوب (کانپور)کے زیر اہتمام اتر پردیش اردو اکادمی اور فخرالدین علی احمد کمیٹی اتر پردیش کے مالی اشتراک سے منعقدہ یہ سمینار دو اجلاس پر مشتمل تھا ۔پہلے اجلاس کی صدارت معروف افسانہ نگار سید محمد اشرف نے کی،دوسرے اجلاس کی صدارت نظریہ ساز نقاد اور عالمی شہرت یافتہ ناول نگار شمس الرحمن فاروقی نے کی ۔نظامت کے فرائض علی گڑھ یونیورسٹی کے ڈاکٹر سراج اجملی نے نجام دئے۔رسم گلپوشی کے بعدکنوینر شعیب نظام نے تعارف پیش کرتے ہوئے نیر مسعود کی ادبی خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کی دیگر اوصاف پر بھی روشنی ڈالی ۔پروفیسر انیس اشفاق نے نیر مسعود کی شخصیت کے مختلف گوشوںکو روشن کیا اور ایک یہ انکشاف بھی کیا وہ نیر مسعود کے تعلق سے خود بھی ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو جلد ہی منصۂ شہود پر آئے گی۔سمینار اس لحاظ سے نہایت کامیاب رہا کہ اس میں ایک طرف ہندوستان کے نمایاں افسانہ نگار اور نامور ناقدین کی ایک بڑی تعدا د نے پروفیسر نیر مسعودکی شخصیت اور ان کے فن کے جہات پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے نیر مسعود کے فن کی تفہیم کے امکانات کے نئے ابواب روشن کئے وہیں نئی نسل کے ڈاکٹر معید الرحمن (علی گڑھ)نے نیر مسعود کی تعبیر غالب کے حوالے سے اور ڈاکٹر نور فاطمہ(مانو لکھنؤ کیمپس)نے نیر مسعود اور افسانے کی تلاش کے مسائل پر جس منطقی اور معروضی انداز میں گفتگو کی ا س نے یہ صاف کر دیا کہ نئی نسل نے اردو تنقید کی ذمہ داریاں پوری طرح سے سنبھالنے کے لئے خود کو تیار کر لیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے نیر مسعود سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے فن افسانہ کے بارے میں کہا کہ نیر مسعودکے جیسا افسانہ ان سے پہلے لکھا گیا اور نہ شاید ان کے بعد لکھا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ نیر مسعود کے یہاں کتنی علامت نگاری ہے اور کتنا استعارہ ہے میں ان میں نہیں پڑتا ان کے افسانے کی خوبی یہ ہے کہ وہ خود آپ سے کہتے ہیں کہ جو آپ چاہیں سمجھ لیں۔انھوں نے کہا وہ جزئیات نگاری سے کام لیتے ہیں۔جزئیات ان کے افسانے کا یک بڑا وصف ہے۔انسان کی زندگی میں بہت سے چھوٹے چھوتے واقعات رونما ہوتے ہیں اور وہ جمع ہوکر انسان کی زندگی پرکس طرح انداز ہوتے ہیں یہ نیر مسعود نے افسانوں میں پیش کیا۔اس طرح سے نہ صرف اردو بلکہ پوری دنیا کے فکشن میں جزئیات کو پیش نہیں کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ بے شک ہمارا سروکار متن سے ہونا چاہئے اس سے نہیں کہ افسانہ خواب میں دیکھا گیا یانہیں دیکھا گیا ۔انھوں نے کہا کہ نیر مسعود نے خود مجھ سے کہا کئی بار یہ کہا کہ فلاں افسانہ میں نے خواب میں دیکھا ۔یہ سچ ہے کہ جھوٹ اس سے قطع نظر میرا کہنا ہے ہے ایسا ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی ہوتا ہے۔اصل خوبی یہ ہے کہ ہم ان کے افسانوں کے بارے میں ایسی بات کہہ سکتے ہیں۔ایسی بات آپ اردو کے اور کتنے افسانوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔
پروفیسر شاراب ردولوی نے کہا نیر مسعود اردو کے اہم، محققوں،افسانہ نگاروں اور ناقدوں میں ہیں۔انھوں نے اپنی افسانہ نگاری سء تاریخ افسانہ میں اپنے نقش قدم چھوڑے ہیں تودوسری طرف تحقیق میںمرثیہ سے رجب علی بیگ سرور تک ایسیکام کئے ہیں جو جدیداردو تحقیق میں مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ سید محمد اشرف نے کہا کہ نیر مسعود نے اپنے کمزور ہتھیار قلم سے کہانیاں لکھ کرایک خاموش لیکن بہت با معنی مہم شروع کی۔ بظاہر آسان اور سادگی سے بھر پور نثر نیر مسعود کی صناعی کا کمال ہے۔انھوں نے کہا کہ نیر مسعود کی کہانی زر سفید کا ماہتاب ہے۔فکشن کے مشہپور نقادقاضی افضال حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ نیر مسعود نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ مجھے افسانے خواب میں دکھائی دیتے ہیں ۔حالانکہ انھوں نے مجھ سے کئی بار ہوئی ذاتی گفتگو میںاس کے برعکس بات کہی۔اس سے ایک تضاد پیدا ہوتا ہے لیکن اس سے کوئی فرق اس لئے نہیں پڑتا کہ افسانہ کو اس کے متن کی روشنی میں پڑھنا چائیے نہ کہ افسانہ نگار کے قول کی روشنی میں۔قاضی جمال حسین نے’’ گنجفہ‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے یہاں ہر کہانی میں ایک نئی محفل آراستہ ہوتی ہے۔اور قاری کو بھی اس میں شریک کر لیتی ہے۔انھوں نے نیر مسعود کی زبان کے بارے میں کہا کہ وہ حد درجہ غیر جذباتی ہے اور وہ المناک مناظر کو بھی سرد مہری سے بیان کرتے ہیں۔سید ابوالحسنات حقی نے کہا کہ یہ محفل پروفیسر نیر مسعود کے فن کی تفہیم میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔صغیر افراہیم (علی گڑھ)نے کہا کہ نیر مسعود کے افسانوں میں گنجینۂ معنی کی تمام سچائیاں مختلف جہتوں کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔معتدد قصوں کو ایک بیانیہ میں متشکل کر دینا ان کا وصف خاص ہے۔رمزیت اور تجریدیت کی باہمی آمیزش سے انھوں نے روایت کو تجربے میں سمیٹ لیا ہے جس میں تمثیلی اظہار کو نمایاں حییثیت حاصل ہے۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے نیر مسعود کی کتاب ’’افسانے کی تلاش میں ‘‘(جو ایک سوالنامے کے جوابات پر مشتمل ہے )پر تجزیاتی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام مقالے محض سرسری طورپر تحریرنہیں کئے گئے بلکہ افسانے کے مسائل و مباحث پربہت غوروخوض کے بعدہی اپنے تنقیدی نظریات کونپے تلے اور مدلل انداز میںوہ قارئین کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تمام مضامین سنجیدہ قارئین کو صحیح رائے تک پہونچنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ دراصل نیر مسعود کے یہاں افسانے کے متعلق کسی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں پائی جاتی۔ ڈاکٹر نور فاطمہ نے منطقی اور معروضی طرز استدلال سے اپنے مقالہ میں نیر مسعود کے فن افسانے کے بارے میں ان کی بعض آراسے اختلاف بھی کیا۔کسی نئے نسل کے ناقد کی یہ جسارت اردو تنقید کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ڈاکٹر حناآفریں (دہلی) نے کہا کہ نیر مسعود کے افسانوں میں فنا ہی در اصل بقا ہے ۔انھوں نے کہا متضاد بیانات سے ان کے ہاں ایک قسم کا ابہام پیدا ہوتا ہے ۔نیز وہ قاری کو کہانی سے بہت قریب نہیں ہونے دیتے۔نیر مسعود کے بھائی اظہر مسعود نے شمس الرحمان فاروقی اور نیر مسعود کے تعلقات کے حوالے سے گفتگو کی۔نیر مسعود کی چھوٹی بیٹی سامرہ مسعود نے نہایت شفاف زبان میں پورے اعتماد کے ساتھ اپنے بابا کی بعض صفات و عادات کاذکر کرتے ہوئے ان کے انداز تربیت کو یاد کیا۔
ان کے علاوہ پروفیسر شافع قدوائی،ڈاکٹرانیس انصاری،ڈاکٹر عارف ایوبی،فرحت احساس،ڈاکٹر سیما صغیر،خورشید اکرم،ڈاکٹر خالد جاویداورشاہد اختر نے بھی اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کیا۔
آخر میں پروفیسر انیس اشفاق نے سمینار کے کامیابی سے ہمکنار ہونے پرمنتظمین،مقررین اور بالخصوص نئے قلم کاروںڈاکٹر حنا آفریں،ڈاکٹر نور فاطمہ اورڈاکٹر معید الرحمن کو ان کے بہترین مقالوں کی مبارکباد دیتے ہوئے جملہ سامعین کے تئیںکلمات تشکر بھی ادا کئے۔ صبح سے شام تک چلنے والے سمینار میںپروفیسر سید شفیق اشرفی،ڈاکٹر احسن رضوی،شاہنواز قریشی،ڈاکٹر جہاں آراسلیم ،ڈاکٹر ریشماں پروین،ڈاکٹر حنا افشاں،ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق،ڈاکٹر مسیح الدین خاں مسیح،ڈاکٹر ثروت تقی،ڈاکٹر منصور حسن خاں،منیش شکلا،قمر سیتا پوری،بابر نقوی،فاروق جائسی،پرتل جوشی،پرویز ملک زادہ،سہیل کاکوروی،اجے کمار،شاہانہ سلمان عباسی،اہلیہ پروفیسر نیر مسعود،راجیو پرکاش ساحر،حسن یوسف،عمر فاروقی،رحمت لکھنوی اورمحمد راشد کے علاوہ نہ صرف لکھنؤ بلکہ بیرون شہر کے بھی ادب نواز سامعین کی بڑی تعداد ہال میں آخر تک موجود تھی۔
Also read