ایک چاہت ایسی بھی

0
337

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

سکندر علی

یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے کمرے سے طلبہ و طالبات نکل رہے تھے اردو کا پیریڈ ختم ہوچکا تھا ایک عجیب فضا تھی اس پر سہانا موسم چارچاند لگا رہا تھا ہر ایک طلبہ و طالبات ایک دوسرے کو ہیلو ہاے آداب کہہ رہے تھے ان کے رخساروں پر مسرت کی لہر دوڑ رہی تھی مگر ایک لڑکا جانے کس غم میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا اس کے چہرے سے معصومیت کی رنگ جھلک رہی تھی وہ کچھ سیاہ رنگ ہوتے ہوئے بھی خوبصورت لگ رہا تھا ابھی وہ لڑکا بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکی اس سے مخاطت ہوئی ہیلو! لڑکے نے کوئی جواب نہ دیا وہ سوچ میں اتنا مشغول تھا کہ اسے یہ بھی علم نہیں ہوا کہ کوئی اس سے مخاطب ہے لڑکی نے دوبارہ کہا ہیلو مسٹر! میں آپ سے ہی مخاطب ہوں یہ سن کر لڑکا چوکا جی فرمایئے! لڑکے نے کہا۔
میرا نام مسرت ہے کیا میں آپکا نام جان سکتی ہوں ؟ لڑکی نے سوالیہ انداز میں پوچھا
انسان کو اس کے نام سے نہیں بلکہ اس کے منفرد کام کے باعث پہچانا جاتا ہے خیر میرا نام افروز ہے کیا کام ہے لڑکے نے کہا۔
اچھا مگر ہم نے بھی آپ کی آج کلاس میں کارکردگی دیکھ کر ۔۔۔۔۔ شکریہ ! مگر تم نے اپنا مقصد نہیں بیان کیا افروز نے مسرت کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔افروز میرا مقصد یہ ہے کہ میں آپ کا نوٹس لینا چاہتی ہوں تاکہ میں اپنا نوٹس پورا کر سکوں۔ افروز کچھ لمحے تک خاموش رہا پھر اس نے کہا ٹھیک ہے اس نے اپنا نوٹس مسرت کو دے دیا مسرت بہت خوش ہوئی اور افروز کا نوٹس لے جا کر اپنا نوٹس مکمل کیا رفتہ رفتہ دونوں میں اچھی دوستی ہو گئی مسرت افروز کو بتاتی کہ میں ایک غریب لڑکی ہوں ہمارے پاپا بہت غریب ہیں اس لئے میں کوچنگ نہیں کر پاتی ہوں اور نہ ہی میں گھر پر زیادہ وقت پڑھائی پر صرف کر پاتی ہوں۔ گھر پر بہت سارے کام رہتے ہیں مسرت کبھی کبھی اپنا روداد زندگی سناتے سناتے رو پڑتی افروز اس سے کہتا مسرت غریبی تو آتی جاتی رہتی ہے تم ہمت نہ ہارو خدا پر بھروسہ کرو وہی کارساز ہے تمہارے سارے مشکلوں کو آسان کر دے گا ، ویسے ہم تمام نوٹس لکھ کر تمہیں دیتے رہیں گے تاکہ تم آرام سے پڑھائی کر سکو۔ افروز ! مجھے تم سے یہی امید تھی مسرت نے کہا ۔
دھیرے دھیرے افروز مسرت سے سچا پیار کرنے لگا ۔ دونوں گھنٹوں بیٹھ کر گفتگو کرتے افروز اب تو پڑھائی میں کمزور ہو رہا تھا وہ کالج سے نوٹس یکساں کرتا اور مسرت کو دیتا خیر افروز اور مسرت دونوں ساتھ ساتھ علم حاصل کرتے رہے۔
وقت یوں ہی چلتا رہا امتحانات قریب آگئے تھے افروز مسرت کے لئے نوٹس تیار کرتا اور ادھر مسرت انتہائی محنت کے ساتھ پڑھائی میں مصروف رہتی جس کے نتیجے میں افروز رفتہ رفتہ پڑھائی میں کمزور ہوتا گیا ۔
اب مسرت بھی افروز سے دوری بنانے لگی تھی وہ افروز سے گفتگو نہیں کرتی اب وہ افروز سے نوٹس بھی نہیں طلب کرتی افروز مسرت کی بے رخی پر رنجیدہ رہتا اب مسرت افروز سے گویا نفرت کرنے لگی تھی وہ افروز کو تنگ نظر سے دیکھنے لگی جشن الوداعئ کے دن افروز نے مسرت سے بات کرنی چاہی تو مسرت نے اسے جھڑک دیا بولی تم جیسے چھوٹے لوگوں سے ملنے سے مسرت کی توہینی ہوتی ہے تم دوستی کی بات کرتے ہو اپنی اوقات دیکھی ہے۔
افروز اکیلا تماشائی بنا ہوا تھا مسرت سبھی طلبہ و طالبات سے گفتگو کرتی مگر افروز سے آج وہ ہم کلام نہ کر سکی آج افروز کے دل پر بہت بڑا دھکا لگا گویا آج اس کے اوپر کوہ مصیبت ٹوٹ پڑا ہو خیر افروز اپنے ہاسٹل میں چلا آیا آج اس کی نیندیں گویا اس سے الوداع کہ گیئں ہوں ۔
افروز چاہ کر بھی مسرت کو نہیں بھلا پا رہا تھا۔
خیر رفتہ رفتہ افروز مسرت کو بھولتا گیا اس نے اپنی پھلی زندگی پہ پردہ ڈال دیا ۔
ایک دن مسرت سے ملنے اس کی ایک سہیلی مسرت کے گھر گئی اوراس نے افروز کے متعلق جانکاری چاہی اور دریافت کیا کہ آخر وہ افروز سے پیار کرتی تھی پھر اتنا نفرت آخر کیوں کرنے لگی اس پر مسرت نے اسے بتایا کہ کالج کے پہلے دن سے ہی جب افروز نے کالج میں اپنا کارکردگی دکھایا تو مجھے اچھا نہ لگا میں نہیں چاہتی تھی کہ ہماری جماعت میں کوئی ہم سے زیادہ ہونہار طالب علم ہو لہذا میں نے اپنے دماغ پر جوردیا اور میں افروز کے پاس غریب لڑکی بن کر گئی اور اس سے محبت کا ڈرامہ کیا ہمارا مشن کامیاب ہوگیا میں اپنے مقصد کو پہنچ گئی اور کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے کلاس میں سب سے ٹاپ کیا مسرت کی یہ بات سن کر اس کی سہیلی نے کہا مسرت! افروز پر کتنا بڑا مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہوگا بھلا وہ کیا سوچتا ہوگا ۔ مسرت نے اپنی سہیلی سے کہا دیکھو یار یہ سیاست ہے سیاست میں سب جائز ہے ۔خیر سہیلی تو چلی گیئ مگر جانے کیسے اس بات چیت کی اطلاع افروز کو مل گیئ ۔
اس نے مسرت کو فون لگانا چاہا مگر رابطہ نہ ہو سکا آخر کار وہ خط لکھنے لگا
آداب ! مسرت تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ، مجھے پرواہ نہیں مگر تم اپنے اور میرے درمیان تعلقات کا تزکرہ لوگوں سے ہرگز نہ کرو مجھے خدشہ ہے کہ تمہارے کارنامے سن کر کہیں ایسا نہ ہو کہ غریب مظلوم بے سہارا افراد سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے تم نے کہا تھا کہ اپنی اوقات دیکھی ہے تمہیں یہ گماں ہے کہ میں تیرا کچھ بگاڑ سکتا مگر یہ تمہارا وہم ہے اگر میں چاہوں تو تمہاری زندگی تباہ کر سکتا ہوں مگر میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ میں نے تم سے سچی محبت کی ہے یہ مت سمجھو کہ میں نے زندگی کی بازی مار لی ہے ۔ یہ حیات امتحان کا دوسرا نام ہے ۔
الغرض یہ خط جب مسرت کے پاس پہنچا اور اس نے خط پڑھنا شروع کیا تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو گیئں اس نے افروز کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور جب مسرت افروز کے ہاسٹل پر گئی تو اسے وہاں افروز کی لاش ملی دوستوں نے بتایا کہ افروز نے خود کشی کر لی مسرت کے اندر ایک طوفان برپا ہو گیا وہ افروز کی لاش پر جا گری اس نے کہا افروز میں نہیں جانتی تھی کہ میرا مذاق تم سے تمہاری زندگی چھین لےگئی افروز میں بھی تمہارے پاس آ رہی ہوں اتنا کہکر مسرت نے زہر کی شیشی نکالی اور اسے پی کر لقمئہ اجل ہو گئی۔
رابطہ نمبر 9519902612


Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here