اپنے زندہ ہونے کا اعلانیہ بھی ضروری ہے !

0
106

[email protected] 

9807694588 موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ڈاکٹر مشتاق احمد

اب جب کہ اس عالمی وبا کورونا کی نشاندہی کے سو دن پورے ہو چکے ہیں اس کے باوجود دنیا اس قدرتی آفات سے نجات حاصل کرنے کی کوئی بھی دوا نہیں بنا سکی ہے بس اب تک سماجی دوری یعنی تنہائی کی زندگی اختیار کر نا ہی عافیت کا واحد حل ہے اس لئے عالمی سطح پر خود ساختہ بندی لاک ڈاؤن کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آ رہا ہے ۔ہمارا ملک ہندوستان تو ایک ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے اور آبادی کے لحاظ سے ہم دوسرے نمبر پر ہیں ۔لیکن جو ملک ترقی یافتہ ہے اور خاص طور پر سائنسی تحقیق اور ایجادات کے معاملے میں سپر پاور کا درجہ رکھتا ہے وہ بھی اس وقت لاچار ہے بلکہ اس وقت وہ سب سے زیادہ پریشاں ہے ۔امریکہ جو کل تک پوری دنیا میں اپنی طاقت پر اتراتا تھا آج وہ اپنے شہری کی جان تک بچانے میں ناکام ہے اور اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے کہ ہر گھنٹے موت کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اب تک پندرہ ہزار امریکی افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور چار لاکھ شہری اس وبا سے متاثر ہوئے ہیں ۔یورپ کے دیگر ممالک میں اٹلی ،اسپین ،جرمنی اور فرانس کی حالت بھی خوفناک ہے کہ ان ممالک میں بھی روز بہ روز اموات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔چین جہاں سے یہ وبا پھیلی تھی وہاں اب کمی ہوئی ہے مگر جاپان ،ایران کے ساتھ بر صغیر کے ممالک میں اس کا زور کم نہیں ہوا ہے ۔جنوبی کوریا ایک ایسا واحد ملک ہے جس نے اپنے تمام پانچ کروڑ شہری کی طبی معائنہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے ایک ٹھوس اقدامات کئے ہیں ۔جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے تو اس وبا کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے ہم قدرے تاخیر سے حرکت میں آ ے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ہمارے پاس اس قدرتی آفت سے مقابلہ کرنے کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے ۔نتیجہ ہے کہ جس تیزی سے طبی معائنہ کا کام ہونا چاہئے وہ نہیں ہو پا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کو طرح طرح کے حربے استعمال کر کے گمراہ کیا جا رہا ہے ۔ورنہ دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کی فضا قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن اس ملک میں کورونا کے سہارے فرقہ واریت کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔قومی میڈیا نے جس طرح اس وبا کو مسلمانوں سے جوڑ کر ملک میں نفرت پیدا کی ہے اس سے عالمی سطح پر ملک کی شناخت مجروح ہوئی ہے لیکن اس سے اس وقت کی حکومت اور سیاست کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کے لئے اس طرح کی فضا زرخیز زمین تیار کرتی ہے ورنہ سرکاری ذرائع کی رپورٹ میں تبلغی جماعت کے متاثرہ افراد کی تعداد الگ سے نہیں بتائی جاتی ۔اوریہ بات بھی نہیں کی جاتی کہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے یہ بیماری پھیلی ہے ۔اس حقیقت کو بھی قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ جماعت کے سربراہوں سے بھی غلطی ہوئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس وقت جب کورونا سے لڑنے کیلئے طبی ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت ہے تو اس کو مذہبی رنگ دے کر فرقہ واریت کو فروغ دیا جائے ۔در حقیقت کورونا مذہبی رنگ دینے کا کام دہلی کے وزیر آعلیٰ کیجریول نے کیا کہ وہ اس وقت ہندوتو شدت پسندی کا نیا بونسائی چہرہ بے ۔تفصیل کبھی اور ویسے اننا ہزارے تحریک کے وقت میں لکھ چکا تھا کہ یہ تحریک کیوں اور کس کے ریموٹ کنٹرول میں ہے اور جس کا خلاصہ خود اننا ہزارے نے بھی کیا ہے کہ اس کو اندھیرے میں رکھا گیا لیکن اس ملک میں مسلمانوں کی جذباتی سیاست نے اس کو تو خصارہ میں رکھا ہے ۔
بہرکیف ۔اس وقت ایک اچھی اور جمہوری عمل سامنے آئی ہے کہ ملک کی زعفرانی میڈیا کے خلاف مولانا محمد ارشد مدنی صاحب نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور مسلمانوں کے خلاف جس طرح کی نفرت پیدا کی جا رہی ہے اس پر پابندی عائد کرنے کی رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے ۔اب عدالت اس پر کیا کاروائی کرتی ہے اس کا انتظار کرنا ہوگا۔ادھر اس رٹ کے بعد زی نیوز چینل نے اپنی غلطی معافی مانگی ہے لیکن اس وقت تک اسے معاف نہیں کیا جائے جب تک کہ عدالت کا کوئی فیصلہ نہیں آتا ۔ ۔اب مختلف اقلیتی نمائندوں نے مشترکہ طور پر ملک کے پرائم منسٹر کو مکتوب لکھا ہے کہ اس وقت ملک کی میڈیا جس طرح مسلمانوں کے خلاف افواہ پھیلا رہی ہے اس پر فوری طور پر روک لگائی جائے ۔عرضداشت دینے والوں میں ایک اہم نام مولانا محمد والی رحمانی صاحب جینرل سیکریٹری مسّلم پرسنل لا بورڈ اور امیر شریعت امارات شرعیہ بہار ،بنگال ،جھارکھنڈ و اوڑیسہ کا شامل ہے اس کے ساتھ ساتھ ملک کی نامور ملی شخصیا ت کے نام شامل ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام مسلک کے لوگ شامل ہیں ۔ایک جمہوری حکومت میں اپنے جمہوری عمل کو بھی پیش کرنا ضروری ہے ۔یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی انصاف کی امید کم ہے لیکن اگر کوئی آواز بلند نہیں ہوگی تو پھر ہمارے زندہ ہونے پر بھی شک ہونے لگے گا ۔مجھے معاف کیجئے حالیہ دنوں میں ہمارے زندہ ہونے اور جمہوری عمل کو استمال کرنے پر بھی شک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں ۔یہ تو شہریت ترمیمی ایکٹ اور این ۔آر ۔سی کی تحریک انصاف میں عام لوگوں کی شرکت اور جوش و خروش نے ہماری زندگی کا ثبوت فراہم کیا ہے اور اس کی وجہ سے ہی دشمن عناصر کے ہوش اڑ گئے ہیں اور وہ طرح طرح کی سازشوں میں لگ گئے ہیں ۔اس قدرتی آفات کے وقت میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ملک کے ان انصاف پسند لوگوں کو بھی مسلمانوں سے متنفر کیا جائے جو ملک کی اقلیت کے ساتھ مسلسل ہو رہی نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں پیش پیش ہیں ۔مگر اس ملک کی مٹی ہمیشہ انسانی ہمدردی کے پودے کو شجر بناتی رہی ہے اور اس وقت بھی ملک کے انصاف پسند افراد اس سازش کو نا کام کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ چھتیس گڑھ اور مھاراشٹرا کے وزیر آعلیٰ نے میڈیا کے حالیہ کردار کی مذمت کی ہے اور مرکزی حکومت سے کاروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔کئی ریاستوں کی پولیس نے بھی میڈیا کو خبر دار کیا ہے اور کورونا کو مذہبی جماعتوں سے جوڑ کر غلط افواہ پھیلانے سے پرہیز کرنے کی ھدایت دی ہے ۔آفسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملک کے مسلمانوں نے سماجی دوری کی مہم کو پوری سختی سے اپنایا ہے کہ اپنی مسجدوں کو ویران کر دیا ہے اور تبلیغی جماعت کی حرکت پر ناراضگی ظاہر کی ہے ۔حکومت کے ہر قسم کے حکم کو مان رہی ہے اور کورونا سے جنگ لڑ رہی ہے ۔باوجود اس کے کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو برا نقصان پہنچا ہے کہ اس معاشرے میں یومیہ اجرت پر زندگی بسر کرنے والے افراد زیادہ ہیں مگر وہ بھی اس نازک صورتحال میں اپنے گھروں میں خود ساختہ پابندی یعنی لاک ڈاؤن کا پالن کر رہے ہیں ۔مختصر یہ کہ اس وقت قومی میڈیا کے پروپگنڈہ کے جس طرح کی قانونی کارروائی کے ساتھ جمہوری عمل شروع ہوئی ہے وہ ضروری تھا کہ کسی بھی ملک میں اقلیت کو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت خود دینا پڑتا ہے کہ عالمی تاریخ کے اوراق یہی شواہد پیش کرتے ہیں ۔٭٭
دربھنگا ۔بہار ۔۔موبائل ۔۔9431414586

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here