اسلام میں داڑھی کی بڑی فضیلت ہے اس سے کسے انکار ہے لیکن بغیر داڑھی کے کوئی مستند بات کہیں ہی نہیں جاسکتی، اس سے شاید کوئی متفق نہ ہو، اور ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اگر داڑھی میں اسلام ہوتا تو بیچاری تمام خواتین اسلام سے محروم ہی رہ جاتیں اور آسارام جیسے صرف داڑھی کی بنیاد پر اسلام میں داخل ہوجاتے۔
اگر صرف داڑھی میں اسلام مان لیا جائے تو میر انیسؔ تو سرے سے اسلام سے باہر اور غیرمستند ہوجائیں گے کیونکہ ابھی تک کوئی داڑھی والا بھی ان کی داڑھی کسی فوٹو میں نہ دکھا سکا۔ ایسے میں اگر بغیر داڑھی والے سبھی غیرمستند قرار پائیں گے تو میر انیسؔ کے مرثیوں میں بیان کربلا کا کیا ہوگا کیونکہ کربلا کے ایک ایک لمحے کا ذکر ایک بغیر داڑھی والے نے جس طرح سے کیا شاید کسی داڑھی والے نے بھی نہیں کیا، جس کا ذکر ہمارے تمام علماء اور ذاکرین اپنی تقریروں کو پراثر بنانے کیلئے وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں یہی نہیں ایک بغیر داڑھی والے نے حضرت علی اکبر ؑ کی عمر 18 سال اگر لکھ دی تو بس لکھ دی، پھر ہر داڑھی والا اب اسی عمر کا ذکر قیامت تک کرے گا۔
’’ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی نے اپنی کتاب نباتاتِ قرآن ایک سائنسی جائزہ میں نباتاتی محققین کے حق کو بھی اچھی طرح سے ادا کیا ہے اور قرآن مجید کے اُن واقعات کی جن کے ضمن میں اُن پودوں کا ذکر آیا ہے، زیادہ بہتر تشریح و توضیح کی ہے۔ آج پودوں کے تخصص میں انہوں نے کچھ نئی باتیں بتائی ہیں جن کے بعد نہ صرف گرہیں کھلتی ہیں بلکہ کئی اُلجھنیں بھی دور ہوتی ہیں۔‘‘ یہ کلمات مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی نے کلین شیو ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی کی کتاب کے پیش لفظ میں لکھے جبکہ لکھنا تو یہ چاہئے تھا کہ چونکہ داڑھی میں ہی اسلام ہے اس لئے بغیر داڑھی والے کی لکھی بات کتنے ہی علم کے نئے باب کھولتی ہو، مستند ہو اور حقیقت پر مبنی ہو لیکن قابل قبول نہیں، کیونکہ لکھنے والے کے داڑھی نہیں ہے۔
جو لوگ اس کے حامی ہیں کہ مستند لکھنے کیلئے داڑھی ہونا لازمی ہے ان سے سوال ہے کہ میر انیسؔ بغیر داڑھی کے، اودھ کی تاریخ لکھنے والے بیشتر بغیر داڑھی کے، دَورِ حاضر میں ادب کے بڑے بڑے ستون ماہر تعلیم و میڈیکل کالج بنانے والوں کے بھی داڑھی نہیں اور ڈاکٹر منصور حسن، ڈاکٹر مظہر حسین سے لے کر ڈاکٹر اسد عباس تک کسی کے داڑھی نہیں؟ پھر آپ ان پر کیسے اعتبار کریں گے ؟ کیسے ان کے کہے اور لکھے کو مستند قرار دیں گے ؟
اس لئے داڑھی کی ضد چھوڑیئے علم کی طرف دوڑیئے۔ علم جہاں سے ملے وہاں سے لے لیجئے اگر داڑھی والے کے پاس ہے تو اس سے لے لیجئے اگر بغیر داڑھی والا علمی بات کہے تو اس کے علم کو سمجھئے نہ کہ اس میں داڑھی تلاش کرنے لگئے ورنہ داڑھی میں تو دہشت گرد بھی ملیں گے اور آسارام جیسے لوگ بھی۔ داڑھی آپ کی سمجھ میں تب ہی آسکتی ہے جب آپ یہ سمجھ لیں کہ اسلام میں داڑھی ہے یا داڑھی میں اسلام؟