ادب و ثقافت کا خوبصورت امتزاج :نیادور

0
554

ایم . محمدر ضا ایلیاؔ

’نیا دور ‘اردو ادب کی دنیا میں مقبول و معروف ادبی جریدہ ہے جس کی ادبی ،علمی بے لوث ، والہانہ خدمات تقریباً سوبر سوں سے چلی آرہی ہیں لیکن یہ بات قابل ذکر و غور ہے کہ اگر چہ زمانی طور پر اس رسالہ کی ادبی توسیع نو دہوں پر مشتمل ہے لیکن علمی مواد اور تحقیقی مطالب کے پیش نظریہ بات بدرجۂ ایقان کہی جا سکتی ہے کہ اس کے فکر انگیز ، تحقیقی دستاویزی شمارے کئی صدیوں پر محیط اور اثرا نداز ہوں گے ۔ نیا دور کے لیے یہ فخر کا مقام ہے کہ جہاں ایک طرف اس کے شیدائی ہمیشہ علم کے متلا شی ، لا ئق و فائق اورمحقق و مدبراور مفکر و محرررہے ، وہیں دوسری طرف یہ جریدہ عوام کی آنکھوں کا بھی سر مہ بنا ہوا ہے ۔
ڈاکٹر سہیل وحید نے ماہنا مہ کی ادارت کے عہد ے پر فائز ہونے کے بعد متعددقابل تقلید خوشگوار تبدیلیاں کی ہیں جس سے اس رسالے کا ادبی و تہذیبی دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا ۔ڈاکٹرسہیل کے فکری استحکام کو صرف ذی فہم ہی درک کر سکتا ہے ۔مدیر فروری ۲۰۱۸کے شمارہ کے اداریہ میں با مقصد معنی کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
’’ نیا دور کا ہر شما رہ ایک تھیم کی منا سبت سے کسی نہ کسی مو ضوع پر مر کو ز ہو تا ہے۔اس لیے ہم ان تمام ریسرچ اسکالر س اور یونیو رسٹیوں کے اردو شعبوں سے تعلق رکھنے والے اسا تذہ کے ایسے مضامین شائع کر نے سے قاصر ہیں جو وہ وقتاًفوقتاًاپنی مرضی اور اپنی تحقیقی ضروریات کے تحت لکھتے رہتے ہیں …..ہمارا ادبی ایقان ہے کہ کسی بھی جریدہ یا رسالہ کے ہر شما رہ کی ایک مخصو ص جہت ہو تا کہ قاری کی علمی اور ادبی تشنگی کو کسی حد تک دور کیاجا سکے ۔ یہ کام آسان نہیں ہے ، اس کے لیے بڑی مشقت اور وژن کی ضرورت ہے ۔ ‘‘
ڈاکٹر سہیل کی ذو معنی اور دو اندیش فکری جہات نے اردو دوست و اردو بستیوں کے اولوالعزم نباض ادب ،مشاہیرعلم و دانش ، فراخ حوصلہ شخصیت اوربا ذوق نوجوانوں کو اپنی طرف ملتفت کرلیاہے ۔ اداریہ کے پہلے خط عمود میں مدیر کامقصدمحرر؍ نو جوان قلمکا ر وں کو تحریرکی سمت ترغیب دلا نے کا انداز انو کھا اور دلچسپ بھی ہے ۔ گویا اب قلمکاروں کو اپنی علمی ، فنی اور تحریری آما دگی درج کر نی ہو گی ۔ ذاتی رائے سے کسی عنوان پر مضمون تحریر کر نا آسان ہو تا ہے مگر مطالبات کے اوپر آرٹیکل رقم کرنے سے قلمکا ر کی اصل صلا حیت کابخوبی اندازہ ہو جا تاہے ۔مو جو دہ وقت میں نیادور کے مدیرکا قلمکاروں کو دعوت تحریر دینے کا مقصد ہیرے تراشنے کے مترادف ہے ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ گزشتہ شما روں کی بہ نسبت موجودہ شما رے میں علمی مواد کا فی جا نفشانی کا مظہر ہے ۔مارچ کے شما رہ میں گزشتہ اورمعاصر شعراء کے بارے میں کا فی اہم اطلا عات و معلومات کے مخازن ہیں۔نیادو ر میں اردو ادب کے ایسے افسانے ، ہندی کہا نیاں ،گزشتہ لکھنؤ ، ہندوستانی السنہ ، گل افشانیاں ، غزلیں اور نظمیں ،تبصرے ، تاثرات وغیرہ موجود ہیں جو توجہ کا مر کز ہیں یا یوں کہا جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ ادبی مگس کے لیے نیادور ایسا گلستان ہے جہاں مختلف اقسام کے گل مشمو م و خالص عسل النحل کی وافر مقدار میں دستیابی ہے ۔
اداریہ کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہو جا تی ہے کہ ڈاکٹر سہیل نے کس قدر محنت اور کدوکا وش سے کام کیا ہے ۔ بہر کیف ان کی مشقت شاقہ ’رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد‘ کی مثال بن گئی ۔ایڈیٹر نے نوجوان قلمکاروں کورپورتاژ کی جانب رغبت دلانے کے ساتھ آگاہی بھی فرمائی ہے ۔ صالحہ صدیقی ، سید محمد عقیل ، سفینہ بیگم اور نو ر فاطمہ کے رپورتاژ کے مطالعہ کی وساطت سے مختلف یونیو رسٹیوں کی کارکردگی اور ماحول سے واقفیت حا صل ہوئی ۔ اسلم جمشید پوری نے تحریر ’’ اب یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ………مولانا مظہر الحق کو صحیح خراج پیش کیا جاسکے ۔‘‘یہ جملہ طلبہ و طالبات ،قوم کے ذمہ داران کے لیے دعوت فکر ہے ۔
غزلوں کا انتخاب ڈاکٹر سہیل کی مدیرانہ صلاحیت کو بخوبی اجاگر کرتا ہے ۔جس میں ایک نظم اورایک غزل ادبی صلاح کار،مشہور شاعر ’رفعت عزمی ‘ کی بھی شامل ہے شاعرنے غزل میں کلا سیکی انداز اپنا کر حقیقت کی طرف متوجہ کیا ۔خاص طور پر یہ شعر قابل توجہ ہے ۔
بدلا نظام ، ضابطے تبدیل ہوگئے
ہوتے ہیں سنگ و خار بھی گلشن صفات لکھ
اسی طرح قمر عباس قمرؔ کی غزل رومانی خیالات کی ترجما نی کررہی ہے ۔ اس میں انہوں نے حقیقت بیانی سے کام لیاہے ۔غزل کے مقطع میں غزل کی جان بسی ہوئی نظر آتی ہے ۔
زندگی حرف فنا کے لیے تحریک قمرؔ
روح با قی رہی اور کوئی زیاں تک نہ ہو ا
بازدید کے حوالے سے مشہور زما نہ شاعر، اردو غزل کے اہم ستون اصغر گونڈوی کی غزلوں کا انتخاب اور مختصرمگر اہم معلومات قابل مطالعہ ہے ۔

رپو رتاژ کے حوالے سے ترتیب وار مضامین کا انتخاب ، اس کی اعتبا ریت وانفرادیت کو ظاہر کر رہا ہے ۔مضامین کے انتخاب میں کا فی بالغ النظری سے کام لیا گیا ہے۔ اس شمارے میں کا فی تبدیلیاں نظر آئیں ۔ان تغیرات و تبدیلیوں کا آغاز پہلے صفحے سے ہو تا ہے سر ورق پر اردو کے مایہ ناز شعر ا کی تاریخ پیدا ئش؍ وفات مع تصاویر ہیں وہ عاشقین ادب، محققین و دانشوران او ریسرچ اسکالروں کے لیے کا فی سود مندہیں ۔
مر زا جعفر حسین کی کتاب ’ قدیم لکھنؤ کی آخر ی بہا ر ‘ کے چودھویں باب سے ’’ مغربی تہذیب ایشیائی معاشرت پر غالب آگئی ‘‘ کے عنوان سے جواقتباس نیادور میں دسویں کڑی کے طور پر قارئین کی نذر کیا گیا ہے یہ ادب لطیف کی نایاب مثال ہے مگر تسامح کے پیش نظر اسے مولانا عبدالحکیم شرر کی تصنیف ’’گزشتہ لکھنؤ ‘‘ سے تعبیر کیا گیا، جبکہ وہ مر زا جعفر حسین کی کتاب ’’قدیم لکھنؤ کی آخری بہا ر ‘ کا حصہ ہے ۔
ہندی کے معروف ادیب دودھ نا تھ سنگھ کی کہا نی ’امائیں ‘کاانتخاب کر کے نیادو ر کے مدیر ڈاکٹر سہیل وحیدر نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ آخر میں بیگ احسا س کی کتاب ’دخمہ‘ پر وصی اللہ حسینی کا تبصرہ فنی اعتبار سے بھر پورہے ۔ تبصرہ میں دوران مطالعہ ابتدا سے انتہاتک دلچسپی بر قرار رہتی ہے جو ایک کامیاب و کامران مبصر کی علا مت ہے اورمصنف ڈاکٹر معظم علی خان کتاب رقص صدا ‘‘پر ڈاکٹر ذکی طارق کا تبصرہ قابل مطالعہ ہے ۔ آخر میں نیادور کے ایجنسیوں کی فہرست قارئین کے لیے ’نیادور ‘ حا صل کرنے میں کا فی مددگار ثابت ہو رہی ہے ۔
معیار کو بر قرار رکھتے ہوئے موجودہ ایڈیٹر سہیل وحید نے اپنی ذاتی دلچسپی اور صلاحیت کو بروئے کام لا کے ’نیادور ‘ کو جدید ٹکنالوجی کے مطابق شائع کر اتے ہوئے وقت کی پا بندی کے ساتھ قارئین تک پہنچانے کا بے مثال کارنا مہ انجام دیا ہے ۔ جس کے لیے وہ حقیقتاً مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
نزدیک اقرا پبلک اسکول ،مبارک پور ، اعظم ، گڑھ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here