یہ کس موڑ پہ آیا افسانہ۔۔۔۔۔۔

0
391

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

نگینہ ناز

ذرا بڑی ہوئی نہیں کے شاہینہ کو رشتے آنے شروع ہوئے۔۔۔۔۔ پٹھان خاندان کی پیاری سی بٹیا۔۔۔۔ امّی جان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تو بابا جانی کے دل کا سکون…. بھائی جان کی لاڈلی بہنا ۔۔۔۔۔۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ دولہا تو بس کوئی راجکمار ہو۔۔۔۔ جو شاہینہ کو رانی بنا کر رکھے۔۔۔۔۔ہنرمندی امّی سے وراثت میں ملی تھی۔۔۔۔ جو شاہینہ میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی گھر سنبھالنا، کھانا بنانا، سلائی کڑھائی، ایک لڑکی میں جو ہنر ہونے چاہیے تھے سب تھے اس میں دینی تعلیم سے آراستہ تو دنیاوی تعلیم بھی ضرورت سے کم نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔گیہواں رنگ، کتھئی آنکھیں، لمبے ریشمی بالوں میں جب وہ مسکراتی تو اچھے اچھوں کی آنکھیں اس پر ٹِک جاتی۔۔۔۔۔۔ کئی رشتے آئے پر کبھی بھائی جان کو ناپسند ہوتے تو کبھی امّی کو کچھ کمی نظر آتی تو کبھی ابو جان کو لڑکے میں خود اعتیمادی نظر نہ آتی۔۔۔۔۔۔ اس طرح رشتوں کی قطارسے ایک ایک کرکے سب خارج ہوتے گئے۔۔۔۔۔. . جب اسد کا رشتہ آیا تو اباجان کو اس میں ایک محنت کش انسان نظر آیا تو امّی کو اْسکی آنکھوں میں محبت دکھائی دی۔۔۔۔۔. اور بھائی جان کو سادگی۔۔۔۔۔۔ شاہینہ نے بھی پہلی نظر میں اسے پسند کیا۔۔۔۔۔۔۔. . . . . . بات چیت آگے بڑھی تو گھر والے ملنے آئے باتوں باتوں میں امّی جان نے اسد کی امّی سے ان کا نام پوچھ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔ نام پوچھنا تھا کہ سارا معاملہ بگڑ گیا۔۔۔۔۔” ہائے! ہائے!!!! آپا!!!!!نام پوچھنے جیسی کیا ضرورت آپڑی۔۔۔؟کہیں آپ بھی فال نکالنے کا تو نہیں سوچ رہے ہو؟نہ جانے کیسی کیسی سوچ رکھتے ہیں لوگ یہ فال یہ کنڈلی تو غیروں کا شیوا ہے ہم مسلمان ہیں ان سب چیزوں پر بھروسا نہیں کرتے کوکن کے لوگ ہیں اللّه پر توکّل رکھتے ہیں”امّی کہتی رہ گئی کے آپا ایسی کوئی بات نہیں بس جانکاری کیلئے نام پوچھا مگر ان کے دل میں بات چبھ گئی اور رشتے کی بات ہوتے ہوتے ختم ہوگی۔۔۔۔۔۔نئے سرے سے رشتے کی تلاش شروع ہوگی مگر پھر وہی تینوں کی کسوٹی پر کھرا اترے ایسا رشتہ جلدی کہاں ملے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہینہ کو بھی اسد کے بعد کوئی نہ بھا سکا۔۔۔۔۔۔جس رشتہ کرانے والی آپا نے رشتہ لایا تھا ایک دن ایسے ہی ملنے چلی آئی تو باتوں باتوں میں امّی نے اسد کا پوچھ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔آپا اسد کا کہیں رشتہ ہوگیا کیا؟نہیں آپا۔۔۔۔۔۔ اس کا بھی کہیں رشتہ نہیں ہوا شاہینہ کے بعد کتنی لڑکیاں دیکھیں مگر لڑکے کو پسند ہی نہیں وہ تو شاہینہ پر ہی اٹک گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔امّی جان کے دل میں ایک امید ابھر آئی انہیں بھی اسد اچھا لگا تھا جھٹ سے بولی “ارے آپا تو اس کہو مل لے شاہینہ سے ۔۔۔۔ “نہ جانے ان کی امّی میری ایک بات کا کیا بتنگڑ بنا بیٹھیں ہیں۔۔۔۔۔۔ اگر لڑکے کو لڑکی پسند آئے تو ماں باپ کو منایا جا سکتا ہے۔۔۔۔ ۔ رجّو آپانے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔۔۔ اور لوٹ گی۔۔۔۔۔۔۔دوسرے دن وہ پھر آئی۔۔۔۔شاہینہ بیٹا میری بات اسد سے ہوگئی ہے وہ کبھی بھی تم سے ملنے آ سکتا ہے شاہینہ نے سر کو ہلکے سےہلایا مانو سمجھ گئی ہو۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شام کو حسبِ عادت شاہینہ اپنی بہن کے ساتھ گھر کے پاس والے پام بیچ روڈ پر واک کے لئے نکلی۔۔۔۔۔ موسم اچھا تھا وہ دونوں پیڑ کے نیچے گھاس پر بیٹھ گئیں۔ ۔۔۔۔۔ سامنے سے ہی ایک جانا پہچانا سا چہرہ مُسکراتا ہوا دکھائی دیا قریب آتے آتے شاہینہ پہچان گئی تھی وہ اسد تھے وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔ اسد نے سلام کیا اور باتوں کا سلسلہ شروع ہوا پہلے تو شاہینہ کے پیروں میں کپکپاہٹ ہوئی پھر ہاتھوں سے پسینہ آنے لگے نگاہیں ملانے کی تاب نہ تھی مگر دھیرے دھیرے اسد نے اپنی باتوں سے ماحول کو خوشگوار کردیا اور وہ نارمل ہوتی گئی ۔۔۔۔اب کبھی کبھار دونوں کی ملاقات ہونے لگی اور ملاقاتیں بڑھی تو دل مل گئیے۔ ۔۔۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ اسد ایک محنت کش انسان تھے۔۔۔۔خود کاگیراج تھا اپنے دو بھائیوں تین بہنوں کے ساتھ اپنے والدین کے پاس ہی رہتے تھے جائنٹ فیملی تھی تینوں بھائی مل کر گھر کا خرچہ اٹھاتے گھر میں اک سُکون تھا۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ شاہینہ سے ملاقات اور اپنے فیصلے سے آکاہ کرتے ہوئے اسد نے اپنی امّی کو شادی کیلئے راضی کر ہی لیا کچھ پش و پیش کے بعد سبھی راضی ہوگئے اسد کی تو امید بر آئی تو شاہینہ بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔۔۔۔۔۔امی جان، ابو بھائی جان سبھی خوش تھے دونوں جانب سے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق شادی کی تیاریوں میں کوئی کسر نہیں رکھی گئی دلہن بنی شاہینہ کسی گڑیا کی طرح لگ رہی تھی ‏ دبلی پتلی نازک سی زیوروں اور پھولوں سے سجی شرمائی لجائی شاہینہ اسد کی دل میں اترتی چلی گئی تو کبھی مہندی لگے ہاتھوں کو چھوتے توکبھی ریشمی بالوں کو سلجھاتے شاہینہ ان کی محبت میں سرشار ہوئی جا رہی تھی۔۔۔۔ ۔ ولیمے کے بعد ہنی مون کے لیے مہابلیشور میں ہوٹل کا ایک کمرہ بک کردیا گیا تھا مہابلشور پہنچ کر دونوں فریش ہوئے اور سیر و تفریح کے لئےنکل گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہنسی مزاق، پیار محبت بھری چھیڑ-چھاڑ شاہینہ کو دل ہی دل میں اپنی قسمت پر رشک آنے لگا دن ڈھلتے ڈھلتے ہوٹل لوٹے کمرے میں پہنچے تو حیران تھے یہ تو ہمارا کمرہ نہیں جیسے ہم چھوڑ گئے تھے شاہینہ نے حیرانگی سے اسد کی جانب دیکھا اسد بھی حیران تھے۔۔۔۔۔۔۔ سارا کمرا پھولوں سے سجا تھا ۔۔۔۔۔۔لڑیوں اور پنکھڑیوں سے سجا پلنگ اور خوابیدہ ماحول سامان بھی جو ایدھر-ادھر چھوڑا تھا سب کرینے سے الماری میں سج گیا تھا۔۔۔۔۔ پر یہ کیا کس نے اسد نے مینیجر کو کال کیا۔۔۔۔ اسد کے دوستوں نے کمرہ بک کرتے ہوئے ہنیمون کپل ہیں کہہ کے سجاوٹ کا آرڈر دیدیا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ جان کر دونوں کی چہرے پر ایک ساتھ شرمیلی مسکان ابھر آئی۔۔۔۔۔۔۔ اسد کی نگاہوں کی تپش سے شرماکر شاہینہ نے اپنی نظریں جھکا لی اسد نے دبلی پتلی شاہینہ کو اپنی بانہوں میں اٹھاکر فلمی انداز میں سیج پر لا کر بیٹھا دیا اور دونوں ایک دوسریے کی بانہوں میں کھو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ نکاح کی بولو نے جوڈور باندھی تھی وہ ڈور مضبوط رشتے میں بدل گئی۔۔۔۔۔۔۔ مہابلیشور کا خوشنما نظارہ۔۔۔۔۔۔۔ میںٹھی سرد راتیں۔۔۔۔۔۔۔ خوشبودار ہوائیں شاہینہ اور اسد کی زندگی کی بہترین یادوں کا حصہ رہی ہے۔۔۔۔۔۔ہنیمون ختم ہوا تو اصل زندگی میں لوٹ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت اور جذبات کامدُھر سنگم اور گھر کی ذمہ داریاں شاہینہ کے لیے سب نیا تھا سب سے پہلے تو رہن سہن، کھانا پینا، رہنا سہنا، دو الگ الگ برادری کے الگ الگ طور طریقے اس نے دھیرے دھیرے ان کے طریقے اپنانا شروع کیے۔ ۔۔۔۔۔ کچھ اپنے طریقے بتائیے کبھی اپنے ہاتھ کے ذائقوں کو چکھایا تو کبھی ان کے حساب کے مسالوں سے کھانے بنائیے۔ ۔۔۔۔ اسد کی محبت میں اس نے ہر ممکن سارے رشتوں کو د ل کے قریب رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساس کی خدمت تو سسر کی جی حضوری سب کی خوشنودی کرتے کرتے بھی وہ خود کو نہیں بھولتی۔۔۔۔۔ ۔ نہا دھو کر تیار ہونا، نئے طرز کے کپڑے آنکھوں میں کاجل تو ہونٹوں پر سُرخی۔ ۔۔۔۔۔ اسے بن سنور کے رہنا اچھا لگتا ۔۔۔۔۔۔۔ تو اسد کو اسکا بننا سنورنا پسند آتا۔۔۔۔۔۔وہ بھی نئے نئے تحفے آئے دن اس کے لئے لے آتے جتنا شوق پہننے کا اتنا نہیں پہنانے کا۔۔۔۔۔ ۔ گھمانے لے جانا انہیں پسند آتا تو شاہینہ کو ان کا ساتھ بے پناہ خوشی دیتا۔۔۔۔۔۔۔مگر ان کی یہ محبت دھیرے دھیرے نظروں کو کھٹکنے لگی کبھی جیٹھانی کی آنکھوں میں چبھتی تو کبھی نند کو ناگوار گزرتی ۔۔۔۔۔۔۔ ساس کو اپنے بیٹے سے کچھ کام نکل آتا تو شاہینہ کے پاس کسی کام کی فہرست آجاتی۔۔۔۔۔۔۔۔ اسد کو اپنی ماں، بھابی یا بہن یہ سب چیزیں نظر نہیں آتی مگر شاہینہ نے دھیرے دھیرے نوٹیس کرلیا تھا کی شاید ان کی محبت سے گھر والے تو گھر والے پڑوسی بھی جلن محسوس کرنے لگے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اسد کی محنت اور شاہینہ کی قسمت سے اس کے گیراج میں دھیرے دھیرے ترقی ہونے لگی اور وہ ایک خوش باش پیسے والے لوگوں میں شمار کیے جانے لگے۔۔۔۔۔سیٹل ہونے کے بعد بچوں کی پلاننگ کرینگے کا پلان کامیاب ہوا اور شاہینہ کے پیر بھاری ہوگئیے۔۔۔۔۔۔۔ کھانے پینے سے من اُچاٹ ہوگیا کوئی چیز نہ پچتی۔۔۔۔۔۔ تو اسد طرح طرح کے کے ذائقہ داد چیزوں سے میز بھردیتے۔۔۔۔۔ کبھی آئسکریم تو کبھی کھٹائی۔ ۔۔۔۔۔ تو کبھی چاٹ۔۔۔۔۔ ماں ہونے کی خوشی ایک طرف تو اسد کے لاڈ پیار سے شاہینہ پھولی نہ سماتی۔۔۔۔۔ مگر اس سے کوئی لقمہ ہضم نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔
کمزوری بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔ بلڈپریشر ہای ہونے لگا تھا ڈاکٹر نے الٹی میٹم دے دیا۔۔۔ بچہ چاہیے یا ماں؟ ؟اگر یہی حال رہا تو جان کا خطرہ ہے سبھی لوگوں نے شاہینہ کو سمجھایا مگر وہ نہ مانی “پہلا بچہ ہے اگر اللہ نے میری گود بھری ہے تو وہی خیال رکھے گا کیسے ضائع نہ کرو گی “اسد نے اس کی بات مان لی۔۔۔ وہ اس کا بہت خیال رکھتے ۔۔۔۔۔ بڑی مشکلوں کے بعد ہی سہی مگر شاہینہ کے آنگن میں پیاری سی ماریا نے قدم رکھا ماں بننا ایک انعام ہے تو بیٹی کی ماں بننا نعمت۔ ۔۔۔۔ جس گھر اللہ تعالی خوش ہوتے ہیں وہاں بیٹیاں جنم لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔ شاہینہ کی خوشی جھلک رہی تھی پر سسرال والوں کی چہرے پر ویرانی چھاگئی بیٹےکی امید لگائے بیٹھے اسد کے چہرے سےبھی مایوسی ٹپکنے لگی مگر وہ بولے نہیں۔۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے خدا کے دیے اولاد کی نعمت کو قبول کرلیا۔۔۔۔پر سسرال والوں نے بیٹے کی نہ ہونے کے طعنے شال میں لپیٹ کی ہی سہی مگر دیئے جسے سمجھ کر بھی شاہینہ انجنان بن گئی۔۔۔۔ اس کے لیے تو ماریہ کا انا ہی کافی تھا۔۔۔۔۔۔بیٹی کے آنے سے شاہینہ کی مصروفیت بڑھ گئی گھر کی ذمہ داریاں ساس سسر بھراپورا گھر۔۔۔۔۔۔ جب بھی تھک جاتی اسد سے کہہ کر مائکے رہ آتی کبھی دو چار دن تو کبھی ہفتہ دو ہفتہ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہینہ کے جانے سے اسد کے اندرایک خالی پن اتراتا۔۔۔۔۔ وہ اکثر کہتے” مجھے چھوڑ کر مت جایا کرو شاہینہ تمہارے بنا میں ادھورا ہو جاتا ہوں تنہا رہا نہیں جاتا” اور شاہینہ ہنس کے کہتی۔۔۔”کبھی کبھی رہ بھی لیا کریں کچھ دنوں کی دوری سے محبت میں اضافہ ہو جاتا ہے”امّی کے گھر جاکر کچھ دن رہ کر جب نئی تازگی کے ساتھ گھر میں مصروف ہوتی تو سسرال اچھا لگنے لگتا۔۔۔۔۔۔ ساس کی باتیں، نندکی جھڑکی سب مسکرا کر سیہنے کی طاقت سی آ جاتی۔۔۔۔سب جانتے تھے شاہنہ کا دسترخوان ہمیشہ لذیذ ہوتا ہے مگر کوکن کی نہ ہونے سے اس کے ہاتھوں میں کوکنی کھانوں کا ذائقہ کم ہی ہوتا تو نقص نکالنا آسان ہوجاتا۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ وہ کہیں کم نہ پڑے۔۔۔۔۔عید کا موقع تھا اسد کی چھوٹی بہن شاہدہ آئی ہوئی تھی سب عید کی تیاری میں مصروف تھے مہندی لگانے پارلر والی کو بلایا گیا کسی کو فیشیل کرنا تھا تو کسی کو بلیچ………. ہر کسی کو اپنا کام پہلے کرنا تھا۔۔۔۔۔اتنے میں نازیہ گھر میں داخل ہوئی اسے اتا دیکھ شاہدہ لپک کر اس کے گلے لگ گئی “نازیہ کیسی ہو آب ائی ہو کتنے دن ہوگئے تمہیں دیکھے۔۔۔۔۔ تم سے ملنا ہی نہیں ہو رہا” شاہدہ نے محبت سے شکایت کی۔۔۔۔نازیہ نے بھی لاڈ سے اسکی شکایتوں کا جواب دیتے ہوئیے باری باری سب سے سلام دعاء کی۔۔۔۔نازیہ شاہیدہ کی عزیز سہیلی تھی۔۔۔۔۔ دودھ سی سفید ، ہری آنکھیں جیسے کوئی یوروپین حسینہ۔۔۔۔۔۔۔ اسد کے گہرے دوست کی بہن بھی تھی وہ اس لیے گھر میں سب سے دوستانہ تعلق تھا۔۔۔۔ہمیشہ کی طرح شاہیدہ نہیں چٹکی لی” نازیہ تم جب آتی ہوں گھر میں اجالا ہو جاتا ہے ہمارے گورے رنگ کی چمک اتنی کے بجلی کی ضرورت نہیں” اور سبھی ہنس پڑےکیونکہ یہ جملہ ہر بار شاہدہ نازیہ کیلئے کہتی اور وہ مغرور انداز سے مسکراتی۔۔۔۔۔۔. . . . . . فلم ڈائریکٹر ایوب خان سے اس کا بیاہ ہوا تھا۔۔۔۔۔ ڈائرکٹری کے ساتھ ساتھ گُنڈا گیری اس کا شوق تھا۔۔۔۔۔۔ علاقے کا بھائی۔۔۔۔۔ نام سے ہی لوگ ڈر جاتے۔۔۔۔۔۔ روپیہ پیسے کی ریل پیل تھی….. ایک شاپنگ کا پلان بنے تو دوبئی جاتے خوبصورتی سے مالامال نازیہ کو اپنے ناز نخرے اور خرچہ اٹھانے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی……شوہر جان چھڑکتا کروڑوں کی ہیراپھیری میں لاکھوں کی خرچہ اسے نظر نہیں آتے۔۔۔۔گھمنڈی تو تھی ۔۔۔۔۔ کم ہی کسی کو گھاس ڈالتی۔۔۔۔۔ مگر شاہدہ سے اِسکی اور شاہدہ کی اُس سے پکی دوستی تھی۔۔۔۔۔اسد سے ہنسی مذاق چلتے۔۔۔۔۔۔ شاہیدہ کے ساتھ بیٹھ کر اسد سے گپے لگاتی اورشاہیدہ اپنی سہلی کی خوبصورتی کی گنگان کرتی شاہنہ مسکرا کر دیکھتی رہتی۔۔۔۔۔۔ ایک تواسد کے دوست کی بہن دوسرے نند کی سہلی۔۔۔۔۔ کہیں تو کیا کہیں کوئی بات ناگوار گزرتی تو بھی چپ رہنا پڑتا۔۔۔۔۔۔۔. . . . دن بیتتے رہے اور چھ سال کا عرصہ گزر گیا نازیہ کی بیٹی اور ماریہ ایک ہی عمر کے تھے ساتھ ساتھ ایک ہی اسکول میں جاتے۔۔۔۔۔۔شروع میں ماریہ کولانا لے جانا شاہنہ کرتی۔۔۔۔۔۔ پر پھر یہ ذمہ داری بھی اسد نے اٹھا لی ان کے پاس گاڑیاں تھی۔۔۔۔۔۔۔ صبح ماریہ کو اسکول ڈراپ کرتے دوپہر میں لے آتے شاہنہ اپنے شوہر پر ناز کرتی کتنا خیال رکھتے ہیں اتنا کام ہوتے ہوئے بھی وقت نکال کر بچوں کا لانا لے جانا، میٹنگ، اوپن ہاوس سب وہی اٹینڈ کرتے۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی ماریا کہتی آج نازیہ آنٹی کے گھر گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ انہیں ڈراپ کیا ۔۔۔۔ مگر بات ائی گئی ہوجاتی شاہنہ نے کبھی دھیان نہیں دیا۔۔۔۔۔وقت کےبیتتے بیتتے ایوب کی فلمیں ایک کے بعد ایک فلاپ ہوتی گئی اور وہ خسارے میں آگئے شراب کی لت نے سارے دھندوں کی لٹیا ڈبو دی۔۔۔۔۔۔۔۔ دھیرے دھیرے سب چمچے بھی ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔۔۔۔ بنگلہ فروخت کرکے شاہینہ کے گھر کے سامنے روہاوس لیا اور وہیں رہنے چلے آئے۔۔۔۔۔۔ماریا کے بعد جنّت کی پیدائش سے گھر میں سبھی کےچہرے اُترگئے۔۔،۔ ۔ اس مرتبہ اسد کوبھی بیٹےکی امید تھی اور شاہینہ بھی سسرال والو کی خواہشوں کے مدنظر بیٹے کی ہی منتظر تھی پرسبھی کی مرادوں پر اوس پڑگئی ۔۔۔۔۔۔شاہینہ رو پڑی کہ ایک ہی موقع تھا جب ذات برادری سے ہٹ کر بیٹے کی ماں بنوں گی تو سسرال میں تھوڑی سی عزت بڑھ جائیگی مگر اب وہ امید بھی ٹوٹ گئی۔۔۔۔۔۔ رو دھو کر ہی سہی جّنت کو سینے سے لگایا اور چُپ ہوگی۔۔۔۔۔گھریلو حالات اور طبیعت کی ناسازی شاہینہ سوکھتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ باہر جانا آنا گھومنا گھمانا سب کم ہوگیا تھا ….. دھیرے دھیرے اسد وقت کی کمی کا بتاکر دور ہیں رہنے لگے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہینہ بھی گھر کی ذمہ داریاں اور بچوں میں کھوسی گئ۔ ۔ ۔ اب اسے اپنا ہوش بھی نہیں رہتا ہر دم بچے اور گھر۔۔۔۔،اسد کی مصروفیت بڑھتی گئی ذمہ داریوں میں شاہینہ کے لیے جتنا وقت ملتا وہ خوش رہتی۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر کے ایک وقت کے بعد سب کی زندگی میں یہ ٹھہراؤ آ ہی جاتا ہے اور پھر اتنی مصروفیت کے باوجود اسد مجھے تھوڑا بہت وقت دے دیتے ہیں بہت ہے۔۔۔۔دن گزرتے جا رہے تھے جنت اب بڑی ہو رہی تھی اسد کو جب بھی وقت ملتا وہ بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ۔۔۔۔۔۔ “شاہینہ اپنا کام جلدی ختم کیا کرو جب میں گھر آؤں تو میرے ساتھ بیٹھا کرو نظروں کے سامنے رہا کرو” اسد نے پیار سے کہامن ہی من مسکرا کر شاہینہ نے ناز سے جواب دیا” ہاں جی! اب ہم اکیلے تھوڑی ہے بچے بھی ہیں اوپر سے گھر کے کام آپ سے چپکے رہنے آپ پہلاسا وقت کہاں رہا” اور دونوں ہنس پڑے۔۔۔۔۔۔محبت سے سرشار شاہینہ کھانے کپڑوں اور پسند ناپسند میں لگی رہتی۔۔۔۔۔۔۔ آج محلے میں شام سے ہی شور ہو رہا تھا نازیہ کے شوہر ایوب شراب پیکر خوب گالی گلوچ کر رہے تھے مغرب کی نماز کے بعد شائنہ بھی اپنی گیلری میں چلی آئی دیکھا تو ایوب صاحب ہمارے ہی گھر کی جانب دیکھ دیکھ کر گالیاں دے رہے ہیں ذرا دھیان ‏دیا تو اس کا ماتھا گھوم گیا وہ بکے جا رہے تھے”یہ اسد باہر نکل آج تجھے دیکھ لوں گا۔۔۔۔ تیری تو خیر نہیں۔۔۔۔۔”شاہینہ کو حیرانگی ہوئی پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا پھر آج ہی نہیں کیا ہو گیا وہ بھی اسد کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔رات جب اسدکام سے واپس ہوئے تو شاہینہ سے رہا نہیں گیا وہ پوچھ ہی بیٹھی۔۔۔۔۔” کیا بات ہے یہ نازیہ کی شوہر آپ کو کیوں برا بھلا کہہ رہے ہیں؟”” ان کا دماغ خراب ہے۔۔۔۔۔ شراب کے نشے نے انکے ہوش خراب کر دیے ہیں” اسد نے ناگواری سے جواب دیا۔۔۔۔۔شاہینہ کو ان کی بات سے سکون نہ آیا مگر پھر بھی وہ خاموش ہو گئیاب تو آئے دن کا معمول ہوگیا تھا کبھی ایوب صاحب گالیاں دے رہے ہوتے تو کبھی نازیہ کو دھن دیتے۔۔۔ ۔ ۔ نیلی پیلی نازیہ روتے روتے بھاگ کر شاہینہ کے پاس چلی آتی۔۔۔۔۔ کبھی شاہنہ کی ساس ا سے پچکارتی تو کبھی بھابھی تو شاہیںدہ آئی ہوتی تو وہ اسے اپنے پاس رکھ لیتی شاہینہ پیٹھ سہلاتی کبھی سمجھآتی مگر شاہینہ کے سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ اتنا پیار کرنے والا شوہر اخر اچانک اتنا کیسے بدل گیا۔۔۔۔۔ اور اپنی چہیتی بیوی کی یہ حالت کردی۔۔۔۔۔دیرے دیرے ایوب کی حالت بگڑنے لگی اور وہ کبھی کسی گلی میں کبھی کچرے کے ڈھیر کے پاس تو کبھی گھر کے باہر گِرا پڑا ملتا۔۔۔۔۔۔ ائےدن کے جھگڑے بڑھنے لگے مارا پیٹی بڑھی تونازیہ بھاگ کر پھر ان کے گھر چلی آئی اسد گھر میں ہی تھے وہ ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی” میں اب برداشت نہیں کر سکتی اسد! میں آپ اپنی جان دے دوں گی” کیا کیا نازیہ نے درد سے کہاہرے پڑے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اسد بے اختیار بول پڑے” نہیں نازیہ!تم اکیلی کیوں جان دوگی تمہارے ساتھ میں بھی مر جاؤں گا”!!!! ۔ ۔ ۔ اچانک بجلی کے تار لگ گئے ہو جیسے یا پھر کچھ غلط سن لیا ہو شاہینہ نے حیرانگی سے اسد کی طرف دیکھا!!!!” یہ کیا کہہ رہے ہو اسد؟ اور اس کے ساتھ تم کیوں جان دو گے؟ کیا رشتہ ہے تمہارا اس سے؟”شاہینہ کی آواز میں دبا غصہ تھا۔۔۔۔”میں نے ایسا کہا کیا؟”اسد نے جھٹلانے کی کوشش کی ” ارے شائنہ تم میں تو میری جان بستی ہے پھر میں بھلا دوسرے کے لئے اپنی جان کیوں دوں”؟ مگر شاہینہ کے دماغ کی نس پھٹنے لگی تھی اسے اپنے کانوں پر بھروسا نہیں ہو رہا تھا اس نے یہ کیا سن لیا تھا اس نے اسد سے اس کی وجہ جانی چاہیے آریہ اور جنت نے بھی سن لیا تھا کے پاپا نے کیا کہا بات بڑی تو قرآن اٹھا لیا ہاتھوں میں “کلام پاک کی قسم میرا نازیہ سے کچھ ایسا ویسا رشتہ نہیں….. نا میں نے ایسا کہا……”شاہینہ پر جیسے گھڑوں پانی پڑگیا کانوں سنی بات پر کلام پاک کی قسم کی آگے کیا کہتی۔۔۔۔۔ صبر کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔پر نازیہ کا آنا جانا بڑھ گیا جلے دل سے ہی سہی شاہینہ مسکرا کر بات کرتی ۔۔۔اب وہ سیدھے کبھی کیچن میں چلی آتی کبھی کمرے میں شام کو بچوں کو بھیج دیتی جب اسد انے والے ہوتے …… کھیلتے کھیلتے جنت اکثر اسکی بیٹی سے لڑ پڑتی میرے کھلونے ہیں میں نہیں دوں گی دونوں ایک ہی چیز کیلئے لڑتی شاہینہ کو برا لگ جاتا کبھی ہو نازیہ کی بیٹی کو بہلاتی….. تم دوسرے کھلونے لو….. تو کبھی جنت کو مگر دونوں نہیں مانتی تو نازیہ کی بیٹی سیدھے اسدکی گودی می چڑھ جاتی جیسے بہت مانوس ہو ان سے دیکھئے نا مجھے کڑیاں نہیں دیتی طب اسد جنت کے ہاتھ سے کھلونے لے کر اسے دے دیتے اور جنت رونے لگ جاتی تو شاہینہ کو برا لگ جاتا۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ اس کی بیٹی روتے روتے گھر گئی تو شاہینہ نے صاف کہہ دیا دیکھ نازیہ دونوں ایک ہی کھلونے کے لئے روتی ہے اور میری بیٹی رویے او بھی روز روز مجھ سے برداشت نہیں ہوگا اتنا کہہ کے شاہینہ لوٹ آئی۔۔۔۔. . . آج اسکول میں میٹنگ تھی ماریہ گھر آتے ہی بولی”امّی وہ نازیہ آنٹی روز روز ہماری گاڑی میں کیوں آتی ہے مجھے اچھا نہیں لگتا ان کی بیٹی مجھ سے لڑتی رہتی ہیے۔۔۔”شاہینہ کا ماتھا ٹھنکا اس کی بھی تو گاڑی ہے ان کے ساتھ کیوں جاتی ہے اس نے پھر اسد کو پیار سے پوچھا۔ ۔۔۔۔۔۔ مگر اسد اپنی بات پر اڑ گئے چھوٹی موٹی بات پر قرآن لینے اٹھ کھڑے ہوتے تو شاہینہ بھی ہارمان لیتی ۔۔۔۔۔۔ اچانک ایوب کی طبیعت بہت خراب ہوگیئ۔۔۔۔۔۔ اسپتال لے جایا گیا ڈاکٹروں نے صاف طور سے کہہ دیا۔۔۔۔ ڈرگز کے اوور ڈوز سے ان کی طبیعت خراب ہو رہی ہے ایسا ہی چلا تو جان کا خطرہ ہے و ہ ٹھیک ہوکر گھر لوٹے مگر کچھ دینوں میں شراب اور ڈرگس کے اوورڈوس سے ان کی موت ہوگئی ہر کسی کی زبان پر ایک ہی بات تھی نازیہ نے ہی پریشان ہوکر اسے ڈوز دیا ہے۔۔۔. . مگر نہ گواہ نہ پروف بات آئی گئی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ایوب کے مرتے ہی نازیہ جیسے آزاد ہوگئی سارے محلے میں ایسی گھومتی مانو نوعمرلڑکی چست لباس سے سارے نشیب و فراز عیاں ہوتے۔۔۔۔۔۔ عدت کی مدت کا بھی خیال نہ کیا اس نے اور پھر کچھ دنوں کے بعد اچانک وہ محلے سے غائب ہوگئی شاہینہ بھی حیران تھی اور خوش بھی” خس کم جہاں پاک”وہ پھر اپنی دنیا میں مگن ہو گی۔۔۔۔۔۔ اسد کا ساتھ اسے پھر اچھا لگنے لگا کام کے بڑھنے سے اسد اکثر ادھر ادھر جانے لگے مگر رات دیر سے ہی سہی گھر لوٹ آتے بچوں کی چھٹیاں چل رہی تھی۔۔۔۔۔ شاہینہ پھر اپنے مایکے جانے لگی تو اسد بڑے خوش تھے”شاہینہ تم اسی طرح کبھی کبھی دوچار دن ہو آیا کرو اپنے ما ئکہ مجھے بھی تھوڑا چینج اچھا لگتا ہے”شاہینہ سٹپٹا گئی یہ کیا کہا تم نے ایک وقت تھا کے میرے جانے سے تم ناراض ہو جاتے تھے اداس ہوجاتے تھے اور ایک یہ وقت ہے کہ تم مجھے جانے کا کہہ رہے ہو!!!!مگر حسب عادت اسد نےاس کی بات ہوا میں اڑا دی۔۔۔۔۔بھائی جان دبئی سے لوٹے تو ملنے چلے آئے۔۔۔۔۔۔ شاہینہ کے لئے تحفے بچوں کیلے چاکلیٹس اسد کی مہنگی پرفیوم۔۔۔۔۔ باتوں باتوں میں اسد بھائی سے مخاطب ہوئے۔۔۔۔” بھائی جان اللہ اور اس کے رسول کی سنت میں نے ایک بیوہ اور اس کے بچوں کی سر پہ ہاتھ رکھا ہے اللہ نے مجھے صاحب حیثیت بنایا ہے تو میں نے ان کو سنبھالنے کی ذمہ داری لی ہے”بھائی جان مسکرا کر بولے اچھی بات ہے ۔۔۔۔۔ نیک عمل ہے غریبوں کی مدد کرنا۔۔۔۔۔۔۔ ہو جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوے شاہینہ کو گلے لگایا بچوں کو پیار کیا اور ٹیکسی کے پاس چلے آئے ۔۔۔۔۔۔ اسد انہیں چھوڑنے آئے مگر انکی باتوں کا محور وہی عورت اور بچے تھے بھائی جان کے دماغ میں نہ جانے کیا کیا اتر آیا گھر پہنچ کر انہوں نے اس بات کا ذکر امی ابو اور اپنی بیوی سے کیا۔۔۔۔۔۔۔ شک کا کیڑا پنپ چکا تھا کوئی سو نہیں پایا۔۔۔۔۔ صبح جب اسد کام پر جانے کا وقت ہوا تو اس کےبعد بھائی جان نے شاہینہ کو فون کیا۔۔۔۔” بھائی جان آپ صبح صبح کیا بات ہے ؟”شاہینہ نے لاڈ سے پوچھا۔۔۔۔ بھائی جان کو مانو کاٹو تو خون نہیں کھلکھلاتی شاہینہ کو کیسے بتاتے ۔۔۔۔۔رہا نہیں گیا تو اپنا شک ظاہر کیا ” شانو۔۔۔۔ اسد کل مجھے کچھ اس طرح بتانا چاہ رہے تھے جیسے انہوں نے دوسری شادی کر لی ہو تم اس کے بارے میں کچھ جانتی ہو کیا؟”آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا لبوں پر نمک اتر آیا سکے کانوں میں جیسے کسی نے سیسہ انڈیل دیاہو وہ روتے ہوئے بولی بھائی مجھے کچھ پتہ نہیں آپ سے بات کی ہے ‏ آپ غلط ہے یا صحیح۔۔۔۔ کیا ہے انھیں ابھی پوچھیے۔۔۔۔۔۔وہ کال نہیں تھا ۔۔۔۔۔جیسے آنسوگیس کا بم تھا جو شاہینہ کے سر پر پھوٹا اور آنسوؤں کی ندی آنکھوں سے بہہ نکلی خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھی بے سدھ سی موبائل ہاتھوں میں لئے بیٹھی رہی ……بھائی کا کال تھا۔۔۔۔ شاہینہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے جیسے تیسے اس نے فون ریسیو کیا بھائی جان کی آواز بھیگی ہوئی تھی وہ بھی رو رہے تھے” شانو ! میری بہن تیرے ایسد نے تجھے دھوکہ دے دیا۔۔۔۔۔اس نے اس نازیہ سے شادی کر لی ہے۔۔۔۔شاہینہ کو لگا آسمان پھٹ جائے یا زمین نگل لے اسے۔۔۔۔۔۔۔ ناز و نخرے اٹھانے والا شخص جسکی جان تھی وہ۔۔۔۔واری واری جانے والا اسد۔۔۔۔پلکوں پر بٹھانے والا اس کا شوہر۔۔۔۔۔ اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا اور سال بھر سے میں آنکھیں بند کیے پڑی رہی۔۔۔۔۔۔ اندھا اعتماد کیا اس کی قسموں پر اور وہ دونوں طرف کے مزے لیتا رہا۔,۔۔. . . جن کھانوں کو وہ انگلیاں چاٹ کر کھاتا اسے وہ بے ذائقہ کیسے لگنے لگے اچانک۔۔۔۔۔۔ اسے عمر میں بڑے ہونے کا خیال کیسے آگیا۔۔۔۔۔ گھر اور ذمہ داریوں کو نبھانے کی تعریف کرنے والے اسد کو اچانک اس میں کمیآں کیسے نظر آنے لگی؟؟؟؟شاہینہ کو اس کی ایک ایک بات یاد آنے لگی یا اللّه ! وہ ٹوٹ کراللّه سے شکایت کر بیٹھی۔۔۔۔یااللّه ! میں نے کہا کمی کردی اپنے مجازی خدا کی وفاداری میں؟ کے مجھے یہ سزا ملی میرے بچے یا اللہ ان کا کیا ہوگا؟شاہینہ اچانک بے وارث ہوگیلاچار بے بس پاگلوں کی طرح کبھی کتے نظر ڈالتی کبھی بچوں پر بچے پریشان ہوگئے امی کو کیا ہوگیا؟وہ کیا بتاتی کہ” جب ماں دوسری آتی ہے تو باپ تیسرا ہو جاتا ہے” اسے اسد کا بار بار بچوں کو ڈانٹنا یاد آنے لگا۔۔۔یہ کہنا کے تم نے انہیں صحیح تربیت نہیں دی وہ بچوں کے لئے نہیں تھا بلکہ اس پر نکتہ چینی تھی اس کی مسکان پر فدا ہونے والے اسد نے ایک دن کہا تھا کیسے چُڑیلوں جیسییااللّه اس وقت مذاق سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا اصل میں وہ تو ان کی دلچسپی ختم ہونے کی علامت تھی۔۔۔۔اس نے بچوں کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا اور نا چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔ اس ارادے کے ساتھ کے اب وہ اس سے اس کی بیوفائی کی وجہ پوچھے گی۔۔،۔۔۔۔اس نے کھانا تیار کیا حسب عادت اسد دوپہر کےکھانے پر آئے…….. ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں…..شاہینہ نے بھی خاموشی سے کھانا پروسہ کئی دن تک ایسا ہی چلتا رہا…..نا انہوں نے بتایا۔۔۔۔۔۔ نا اس نے پوچھا۔۔۔۔۔ رونے اور کھانا نہ کھانے سے طبیعت نے اثر کر دیا بیپی بڑھ گیا تھا اسد جانتے تھے کہ شاہینہ کو سب پتہ چل گیا ہے مگر پھر بھی وہ انجان بن گئے مگر شاہینہ نے بستر پکڑ لیا اس کی طبیعت کا جان کر اور اسد سے بات کرنے امّی ابا اور بھائی سب لوگ گھر انے والے تھے۔۔ شاہینہ نے اسد کو بتایا گھر سےسب آ رہے ہیںاچھا کیوں؟ اسد نے بیزاری سے پوچھا شاہینہ کے ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا۔ ۔۔۔۔اور وہ رو پڑی۔ ۔۔۔تم نے جو پہاڑ مجھ پر توڑا ہے اس کی وجہ جاننے۔۔۔۔مجھے دیئے گئے دھوکہ کا خلاصہ کرنے۔۔۔۔شاہینہ برس پڑی ” تم نے یہ کیسےکردیا اسد؟تمہیں تو میں دنیا میں سب سے عزیز تھی۔ ۔۔۔تم میرا مان تھے اور تم نے اتنی بے دردی سے میرے بھروسے کو تار تار کردیا۔۔۔۔بتاؤ اسد بولو۔۔۔، شاہینہ کی ہچکیاں بندھ گئیتمہیں اپنی ان پھول سی بچیوں کا خیال نہیں آیا؟ ان کے مستقبل کا نہیں سوچا؟تم اتنے بے درد کیسے ہوگئے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاہینہ کے دماغ میں وہ منظر ساتھ ساتھ گھوم رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جب اسد کی سالگیرہ تھی اور رات بارہ بجنے سے پہلے ہی شاہیدہ کا فون آیا مبارک بادی کے لیے اور پھر نازیہ نے انہیں وش کیا۔۔۔۔بارہ بجتے بجتے وہ سالگرہ کی مبارکباد دبے سکے۔۔۔۔۔تب بھی شاہینہ نے پوچھا تھا اتنا کیا کہ وہ تمہیں رات 12 بجے کال کرے؟ مگر اسد ٹال گئے تھے۔۔۔۔ شاید بات بنانے میں مہارت ہوگئی تھی انہیں۔۔۔۔۔ اور میں نادان تب بھی نہ سمجھ سکیں شاہیدہ کی میٹھی باتوں تعریف کے پل نازیہ کی خوبصورتی کے لمبے لمبے تذکروں نے اس کے بھائی کے دل سے نازیہ کی جسم تک کا راستہ بنا دیا تھا۔۔۔۔۔تم نے جانے میں ہو یاانجانے میں میرے گھر کو برباد کرنے میں مدد کی ہے شاہدہ۔۔ ۔ ۔ اس کے دل میں شاہدہ کے لیے کھٹاس پیدا ہوگی۔۔۔۔۔ گھر میں کیا سب کو پتا ہے یا وہ بھی میری طرح انجان ہے؟ شاہنہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔بچیوں کو جب پتا چلا کے ابو نے دوسری شادی کرلی ہے تو ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ماں کو روتا دیکھ روئے جارہی تھیں ماریا تو سمجھ رہی تھی کہ اب ان کے ابو ان کے نہیں رہے سمندر کے بیچوں بیچ مانجھی نے ناو چھوڑ دی تھی۔۔۔۔یا خدا میں ان بچوں کو لے کر کہاں جاؤں؟کیسے اپنی بکھری زندگی کو سنبھالوں؟ کیا اسد کیساتھ باقی زندگی سسک سسک کر گزار دو؟یا کسی کنویں میں کود جاؤ؟میں مر جاوں تو ان ننھی جانوں کا کیا ہوگا؟ہزاروں راستے نظر آ رہے تھے موت کے اس زندگی سے چھٹکارے کے مگر ہر موڑ پر اپنی بیٹیوں کی اداس بھیگی آنکھیں نظر آتی۔۔۔۔۔۔رو رو کر نظر دھندلا گئ۔۔۔۔آنچل بھیگ جاتے……. جانماز گیلی ہو جاتی…… تکیہ نم ہوجاتے…… یہ در و دیوار جس میں کبھی شاہینہ کی ہنسی گونجتی تھی اب سسکیاں سنائی دینے لگی تھینہ دکھائی دینے والی دیوار دونوں کے بیچ حائل ہو گئی تھی۔۔۔۔اسد بنتے سنورتے اور نازیہ کی گھر نکل جاتے۔۔۔۔شاہینہ کی پرواہ کیے بغیر اور وہ تھی کہ کھلی آنکھوں سے اتنا بھیانک نا پسندیدہ نظارہ بار بار دیکھتی۔۔۔۔۔شاہینہ کی طبیعت بہت زیادہ علیل ہوگئی۔۔۔۔تب اسد نے ایک بار معافی مانگی تھی مجھے معاف کرو شاہینہ مجھ سے غلطی ہوگئی مگر وہ بھی وقتی معافی تھی دوسرے دن وہ بول بھی گئے۔۔۔۔ اور پھر نازیہ کی طرف نکل گئے۔۔۔۔آؤ تو اچھا تھا کی اسے الگ گھر لے دیا تھا ورنہ یا مصیبت اسے گھر میں کیسے برداشت کرتی وہ۔۔۔ شاید 17 سال کی محبت کا پاس رکھا تھا اتنا احسان کر دیا تھا۔۔۔۔ایےدن گھر میں سرد جنگ چلتی رہتی کبھی کبھار شاہینہ جل بھن کر کچھ کہہ دیتی تو کبھی اسد اپنی بھڑاس نکالتے۔۔۔۔۔۔ہر بات پر برا بھلا کہنا اور دل دکھانا جیسے روز کا معمول بن گیا تھا۔۔۔۔۔پیار بھرے دو بول کے لیے ترس گئی ہو دوسری شادی تم نے کی دھوکہ تم نے دیا اور طعنے تشنے میرے حصے میں کیوں؟بیمار ہوتے ہو تھک جاتے ہو تیمارداری خدمتگزاری میرے حصے میں لاڈ پیار اور اچھا وقت اس کے حصے میں جیسے خطاکار میں ہوں۔۔۔۔۔رات گزاری کے بعد ایک چادر اور ٹاویل تو دھوتی ہوگی وہ۔۔۔۔۔ پر باقی رشتے ناطے اور تمہارے نخرے تو میں ہی اٹھاتی ہوں تمھاری بدتمیزی میں ہی برداشت کرتی ہوںتمہاری اصلی شکل بہت دیر میں نظر آئیں اگر اسے نظر آئے تو ایک دن ناپاک ہے تمہارے پاس” شاہینہ جلے دل سے بولیاسد نے بھی تمام لیحاظ بالائے طاق رکھ دیے تھے اب وہ جو جی میں آتا بول دیتے اور شاہینہ آنسو بہانے لگ جاتی۔۔۔۔حالات کیسی کے نہیں ہوتے گھر میں سبھی سے جیسے چڑھ ہوگئی تھی مگر مائکے والو اور دوستوں کے سمجھانے سے خود کو سنبھالتی شاہینہ بچوں سے باپ کا سایہ نہیں چھیننا چاہتی تھی اس لیے اسد کی تیکھی کڑوی باتیں سن کر بھی وہی رہ رہی تھی۔۔۔۔۔مگر نازیہ کو اب گھر میں حصہ داری چاہیے تھی اس نے اسد پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا پر شاہینہ نے صاف صاف انکار کر دیا نازیہ کے ساتھ چاہے جہاں جاؤ۔۔۔ مگر وہ ‏ اس گھر میں نہیں آئے گی مجھ سے اس کی ملاقات بھی نہ ہو ورنہ میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔۔۔پیار سے نار سے غصے سے جھگڑ کر ہر طریقے سے اسد نے شاہینہ کو منانے کی کوشش کہ وہ نازیہ کو اپنالے مگر شاہینہ کے لیے ای ناممکن تھا اس نے کہ دیا وہ جہاں ہیں وہیں رہیے میری گھر داری حصہ نہ بنے۔۔۔۔شوہر چھین لیا ہیں گھر نا بانٹنے دو گی۔۔۔اسد کیلئے شاہینہ سے پیچھا چھوڑانا ممکن نہ تھا تم نئے نئے ہتھکنڈے آزمانے لگے۔۔کبھی رات کو بارہ بجے ان میں بھوت آ جاتاعجیب عجیب حرکتیں کرتے زمین پرلیٹ جاتے تو ہاتھ پاؤں الٹے کرکے بچوں کو ڈرانے لگتےتا کہ پہنا اور بچے ڈر جائیں اور گھر چھوڑ دے پر شاہینہ سمجھ گئی تھی کہ یہ سب ان کے ناٹک ہیں اس نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھک کر وہ پھر اپنی لائن پر آگئے اور شاہینہ دل ہی دل میں انکی بےوقوفانہ حرکتوں پر ہستی اور غصہ بھی آتااب گھر کی ضروریات پر بھی پابندی لگ گئی تھی خرچے بھی کم کر دیے تھے چاہتے تھے کہ ہر چیز سے پریشان کردیا جائے۔۔۔شاہینہ نے بھی اتنی ہی میں گزر بسرشروع کر دی۔۔۔۔ گھومنے گھمانے کے دن تو رہے نہیں چار دیواری میں ہی قید ہوگیمائیکہ رشتے داری سب بند ہوگئی شاہینہ اس سونے کے پنجرے میں قید ہوگی جہاں وہ اسکا پنچی ہی اس کا سّیاد بن گیا تھاسمجھوتہ کر لیا اپنے آنسوؤں سے اپنے درد سےاپنے بچوں کی خاطر اور خود کی خاطر گھر کے علاوہ اس کا کوئی اور رین بسیرا بھی تو نہیں تھا اسکی محبت کو نظر لگی تھی۔۔۔۔پھولوں بھری سیج نے انگاروں کی شکل لے لی تھیموت سے پہلے مرنا کیا ہوتا ہے جان گئی تھیجہنم اگر اپنے گناہوں کی سزا ہے تو یہ کس کے گناہ تھے جس کی سزا شاہینہ بھگت رہی تھی اس نے تو کسی اور کی طرف دیکھا بھی نہیںرشتوں کو سنجھو کے رکھاکی محبت بھری داستان کا یہ ادھورا سفر تھااس نے اپنے بچوں کی طرف دیکھا اب و ہیں اس کی دنیا تھے۔۔۔۔۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here