[email protected]
موسی رضا۔ 9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
وصی احمد
اردو شاعری میں شمع کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔کبھی تو یہ شمع جو شمعِ محفل ہوتی تھی کبھی شمعِ حرم تو کبھی شمع جل اٹھتی ہے کبھی بجھی ہوئی ہوتی ہے اور کبھی شمع کی لو تھرتھرانے لگتی ہںے۔ پس ایک خاص تصور موجود ہںے۔جوشمع کے ساتھ چسپاں ہیے اور محلّ استعمال کے ساتھ مختلف سانچوں میں ڈھل جاتا ہںے جس کے ذریعے ہجر ،جدائی ،غم واندوه خوشی و انبساط کے مختلف جذبات عیاں ہوتےہیں مثلاً علامہ اقبال نےبچوں کی دعا کے طور پر اسے پیش کرتےہوۓ کہا کہ ۔۔..۔لب پہ آتی ہے دعابن کےتمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری لیکن ہم یہاں جراغ کا ذکر خیرکرنا چاہتے ہیں ۔اردو شاعری میں چراغ کے
ذریعے بھی جذبات کے اظہار کا کام بخوبی لیا گیا ہںے ۔جیسے ہمارا کیا ہم تو چراغ سحری ہیں۔یعنی اب بجھنے والے
ہیں۔ کیونکہ صبح (سحر) کے وقت چراغ بجھا دیا جاتا ہے اس میں دکھ درد غم اور تکلیف کے علاوہ موت کا پیغام بھی چھپا ہے۔۔ حیرت کی بات تو یہ ہںے کہ صبح کا وقت انقلابی تبدیلی کا وقت ہوتا ہے امید اور جوش جذبات سے پُر ہوتا ہے۔ لیکن چراغ کے لیے یہ ناامیدی اور ہلاکت کا وقت ہوتا ہے
پہلے شام کے وقت چراغ جلائے جاتے تھے اور صبح کے وقت بجھاۓ جاتے تھے۔ لیکن اب بلب اور ٹیوب لائٹ کا استعمال کیا جاتا ہے جن کی روشنی بھی چراغ سے زیادہ ہوتی ہے. اس کے باوجود کبھی بلب اور ٹیوب لائٹ چراغ کی جگہ نہیں لے سکتے۔ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی ان کی روشنی جو جدید ترقی کا ا اظہار ہںے جبکہ چراغ قدیم تہذیب اور روایات کا امین ہںے خصوصاً اردو شاعری میں تو ابھی انھیں کوئی مقام حاصل نہیں ہوا جو جذبات واحساسات چراغ کے ذریعے بیان دے سکتے ہیں وہ جذبات و احساسات بلب کے ذریعے بیان نہیں کیۓ جاسکتے۔ ظاہر ہے باد مخالف کے بالمقابل چراغ جلانا اپنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے لیکن باد مخالف کے بالمقابل بلب جلانا کوئی پیغام نہیں رکھتا ۔ ایک اور لفظ ہںےجو چراغ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے اور وہ ہںے دیاجب سورج اس دنیا کو اندھیرے میں چھوڑ کر جا تے جاتے سوچتا ہںے کہ میرے بعد کیا ہوگا ؟تب ایک دیا چپکے سے جل اٹھتا ہںے اور سورج کے غرور کو خاک میں ملا دیتا ہے۔۔ اسی طرح علامہ اقبال نے بھی ایک بڑھیا کا ذکر کیا ہے جو شام کے وقت ایک دیا جلا کر سرراہ لاکر رکھ دیا کرتی تھی تاکہ راہگیروں کو تکلیف نہ ہو۔ موجودہ حالات میں اسطرح کی حرکت کو کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھے گا بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہےاس عجیب و غریب چیزکو دیکھ کر بچے پتھر ماریں یا اٹھا کر اپنے ساتھ لے جائیں۔
۔۔ شاعر کہتا ہے۔۔۔۔۔۔ مریض محبت انہیں کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے مگر ذکر شام الم جب کہ آیا چراغ سحر بجھ گیا جلتے جلتے۔
یہ تو مریض محبت کی بات ہںےمگر ایک دوسرے شاعر صاحب کہتے ہیں چراغ سب کے بجھیں گے ہواکسی کی نہیں ۔ایک عاشق زار کوچہء جانان کے طول و عرض ناپتا رہتا ہںے اس انتظار میں کہ شام کے وقت اس کا محبوب چراغ جلانے کے بہانے دہلیز پر آئے گا تو دل کی مراد پوری ہوگی وہ شام کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ یہ اس وقت کہاجاتا تھا۔جب دنیا میں موبائل نہیں تھا۔ لیکن شام کا سہانا وقت اب بھی وہی ہے۔جو پہلے ہواتھا کرتا تھا۔سحر انگیز ْ جزبات میں پر سکون سی بے چینی پیدا کرنے والا۔ایسے وقت سیر کے شوقین گھر سے تفریح کی غرض سےباہر نکلتے ہیں۔اور عاشق مزاج نوجوان اپنے دل کی بیماری کا علاج کروانے نکلتے ہیں۔اس امید پر کہ شاید کوئی حسینہء عالم نظر آجاۓ جو ان کی بیماری کا علاج کردے۔شہروں میں اکثر شام کے وقت باغوں میں چہل پہل بڑھ جاتی ہےموجودہ دور اطلاعاتی تیکنالوجی کا دورہ کہلاتا ہے اس دور میں چراغ جلانے والا شاید ہی کوئی مل سکے اگرچہ جذبات و احساسات دلوں میں پہلے جیسے ہی ہیں ایفاۓ عہد کے وعدے ہجر و وصال کے باتیں ملنا اور بچھڑنا موجود ہیں لیکن چراغ کا عنقا ہو چکا ہںے۔ہمارے
گھر میں ایک چراغ ہںے جسے بچے حیرت سے دیکھتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی روشنی میں قدیم زمانے میں لوگ پڑھائی کرتے تھے تو انہیں سخت تعجب ہوتا ہںے ہمارا خیال ہںے کچھ بچے ایسے بھی ہونگے جن کا کبھی چراغ سے سابقہ پیش نہ آیا ہو لہذا وہ بچے یہ بات جانتے ہی نہیں ہوں گے کہ چراغ جلتا کیسےہے؟۔ ایسے بچوں کے لیے چراغ کا انتظام کرنا والدین کا فرض منصبی ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ چراغ کا انتظام کریں تاکہ ان بچوں کو یہ بھی معلوم ہو سکے کہ یہ وہی چراغ ہے جس کی روشنی میں پڑھ کر کوئی وزیر بنا کوئی سلطان بنا کوئی علامہ دہر کہلایا اور کوئی اپنے وقت میں امام بنا۔۔
اب تو سرکار کی جانب سے ملنے والا تیل بند ہوچکا ہے جسے کیروسین یاراکیل بھی کہا جاتا ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے وقت میں چراغ واقعی میوزیم میں رکھنے کے لائق ہوگا اور نئے دور کے بچے حیرت زدہ ہو کراس کا مشاہدہ کریں گے۔ لیکن اردو کے شاعر چراغ سے اپنا تعلق کبھی توڑنے والے نہیں وہ اپنا تعلق قائم رکھیں گے تاکہ امیرِشہر کو چیلینج کرسکیں اور کہہ سکیں کہ” اےا میرِ شہر ہم باد مخالف سے ڈرنے والے نہیں۔” اگر تو نے ایک چراغ بجھایا تو ہم اور بھی چراغ جلائیں گے اور اس وقت تک جلاتے رہیں گے جب تک کہ کل ہند مشا عرے ہوتے رہیں گے۔”
بعضی شاعروں کو شکوہ ہوتا ہے کہ ان کا چراغ کسی دشمن نے نہیں بلکہ ان کے اپنے دوست نے بجھایا ہے لہذا انہیں چراغ نہیں جانا چاہیے بلکہ انہیں الہ دین کا چراغ جلانا چاہیے جس سے ساری دنیا واقف ہے خاص طور سے چھوٹے بچے جو کہانیاں پسند کرتے ہیں
اورکارٹون ٹی وی دیکھتے ہیں۔ انہیں الہ دین کی کہانی معلوم ہے۔۔ شاعروں کو اگر کوئی الہ دین کا چراغ مل جائے تو ایک عظیم الشان عالمی مشاعرہ منعقد کیا جا سکتا ہے جب کہ شاہِ جنات چراغ سے نکل کر تمام انتظامات مکمل کرنے کے بعد سکون سے اپنے چراغ میں بیٹھا رہے بشرطیکہ وہ مشاعرہ سماعت فرما رہا ہو۔۔۔
۔۔۔ ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ کسی سے کیے ہوئے عہد یا وعدے کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے اور اسے بھولنا نہیں چاہیے بلکہ اسے مکمل کرنا چاہیے کیونکہ ہردن کی ایک صبح ہوتی ہے تو ایک شام بھی ہوتی ہے اور شام ہمیں بھولی بسری باتیں یاد دلاتی ہے اس وقت ہمیں کسی کی ملاقات یادآتی ہے تو کسی کا وعدہ یاد آتا ہے جو ہمیں دکھ درد سے ہمکنار کر دیتا ہے اسی لیے شاعر نے کہا ہے کہ
مجھے بولنا بھی چاہوتو نہ تم بھلا سکو گے۔۔ میری یاد اپنے دل سے نہ کبھی مٹا سکو گے ۔۔۔۔یہ چراغ جل اٹھیں گے سر شام یاد رکھنا میرا نام ہے محبت میرا نام یاد رکھنا۔۔۔
کھام گاوں ۔۔وصی براری۔۔۔۔