ہیپی مدرس ڈے

0
362
رخشندہ روحی مہدی

[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

ٹرین کی کھڑکی سے باہر ۔۔۔ پرتاپور اسٹیشن لکھا ہے۔۔پرتا۔۔پور۔۔!!
گلے میں لپٹے اسکارف کا کونہ سر پہ ڈھانپ لیا میں نے ۔
اب یہاں سے آگے دہرہ دون نہیں جا سکوں گی ۔۔ایک عدد سفری بیگ کے ساتھ میں اپنے پرتاپور اسٹیشن پر اتر گئی ۔عقب سے آواز آئی ۔’’ بے بی بیٹا ۔۔سلام ۔۔‘‘ لایئے سامان ۔۔‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔ وہاں رکشہ والے چاچا رفیق نہیں تھے ۔
سامنے بیٹری رکشہ والے لائین سے کھڑے تھے ۔
’’بھیا۔محلہ قاضیان ۔۔‘‘ بالوں میں دھاری دارکٹنگ اور گلے میں نارنجی تکونہ رومال باندھے چمکدار سیاہ رنگ والا نوعمر رکشہ ڈرائیور میرے بتائے پتے پر منھ بگاڑ نے لگا۔
’’سرکار حسین کا بڑا گھر۔‘‘ اسکا منھ ایسے ہی بگڑا رہا۔نئے زمانے کے فیشن ایبل بیٹری رکشہ والے ہم پرانے خاندانوں سے بالکل واقف نہیں ۔
’’اونچے بازار۔۔پرانی چنگی کے سامنے ۔۔ ‘‘ اسکی نگاہیں اب سیل فون میں چپک گئیں ۔
وہ ایر فون کانوں میں لگائے گانے کے بول بگڑے منھ میں دہرانے لگا ۔میری طرف نظر اٹھائے بغیر گردن ہلاتے ہوئے اسنے مجھے رکشہ میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
بڑے گھر سے ذرا سا دور اونچے بازار کے کونے پہ میں رکشہ سے اتر گئی ۔ ہمارے گھر کا مین دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا تھا ۔لیکن آج لکڑی کا بھاری پھاٹک بھڑا ہوا تھا۔کال بیل بجانے کی ضرورت نہیں تھی ۔میں بھی اسی گھر کی فرد ہوں ۔پھاٹک کے اندر پاپا کی پرانی کارکی قبر بمع کفن موجود تھی۔ نئی ہونڈا موٹر بائک شان و شوکت کے ساتھ پرانے ویسپا اسکوٹر کو شرمندہ کر رہی تھی ۔اندرونی دروازے کے ایک پٹ میں اسٹاپر لگ گیا تھا اور دواسرا پٹ پورا کھلا ہوا تھا۔
سامنے ڈولی۔۔میرے چھوٹے بھائی کی بیوی۔۔
محراب دار اونچے در کے دالان میں امی کی نماز کی چوکی پہ بیٹھی نظر آئی۔۔
اسکا ایک پیر پیڈی کیور کے لئے پانی میںڈوبا ہے۔۔۔
اسٹاپر والا دروازہ میرے اندر قدم رکھتے ہی دھڑ سے بند ہو گیا۔۔۔
ڈولی نے دوسرا پیر بھی چھپ سے پانی بھرے ٹب میں ڈال دیا۔گھٹنوں تک کھلی پنڈلیاں اور چھوٹا سا بغیر آستین کا پیٹ کھلا ٹی شرٹ پہنے ڈولی بے باکی سے میری جانب سوالیہ نشان سی دیکھتی رہی ۔۔ ایک نو جوان کالاسینڈو بنیان پہنے پھڑکتی مچھلیوں والے بازئوں سے اسکی پنڈلیوں سے پیروں کی انگلیوں تک مساج کر نے میں پورے انہماک سے لگا ہوا تھا۔
’سلام باجی ‘ ڈولی نے اپنے بالوں میں جکڑے کر لرس چھوتے ہوئے کہا۔ وہ اس سے زیادہ بول نہیں سکی کیونکہ اسکے چہرے پہ مٹی کے رنگ کا ماسک چپکا ہوا تھا ۔
میری نظریں امی کے کمرے کی طرف گھوم گئیں۔میں نے جیسے ہی قدم اس طرف بڑھائے۔
’پانی ‘ اسمارٹ ملازمہ مہنگے کرسٹل گلاس میں پانی لئے تیزی سے میرے قریب آئی ۔
’’امی ۔۔؟‘‘ میں نے ڈولی کی سوالیہ نظروں کاجواب دیا ۔
ڈولی نے سامان کی کوٹھری کی طرف اشارہ کر دیا۔۔
کریسٹل گلاس میں پانی پینے سے زیادہ مجھے امی کو دیکھنے کی عجلت تھی۔
سامان کی کوٹھری کے ٹمٹماتے بلب کی روشنی میں امی تڑی مڑی میلے بستر پر بیٹھی تھیں ۔
سامنے اونچے مچان پر دھول میں اٹے جستی صندوق اور تنومند بستربند امی کو دیکھ رہے تھے ۔دائیں طرف کونے میں تانبے کی بڑی پتیلیاں ایک کے اوپر ایک اپنی جسامت کے اعتبار سے مینار کی شکل میں رکھی تھیں۔
میری امی اتنی چھوٹی سی کیسے ہوگئیں۔۔؟
امی کا صحت مند چہرہ ۔۔امی کی مسکراہٹ ۔۔اور امی کی رعب دار آواز ۔۔ا می کی شاندار شخصیت اور امی کا ساگوان کا چھپرکھٹ ۔۔امی کا کشادہ بیڈروم ۔!! سب میرے دماغ میں گھوم گئے۔
میں امی کے پاس ان کے گھٹنے سے لگ کے بیٹھ گئی ۔۔امی کے گورے گداز ہاتھ ۔۔۔
اب بالکل خشک پنجوں کی شکل میں انکی ذرا سی گود میں رکھے تھے ۔امی کے بھاری سلیٹی بال ۔۔الجھے ہوئے تھے اور مانگ خوب چوڑی ہوگئی تھی ۔۔
’’ممانی ضدی ہو گئیں ہیں ۔آپ خود ہی دیکھ لیجئے ۔۔ نہ نہاتی ہیں ‘ نہ ڈھنگ کے کپڑے ۔۔۔۔اور نہ کمرے سے باہر آتی ہیں۔‘‘
مینی کیوررسے چکنی چمکتی ہوئی کلائیوں میں امی کے ٹھوس کنگن پہنتے ہوئے ڈولی امی کے میلے بستر کے پاس آگئی ۔
اسکی ناک میں امی کی بڑی سی لونگ تھی ۔۔
امی کے پیلے چہرے کی جھریوں میں ذرد ی گہری ہونے لگی ۔۔امی نے مجھے اب تک نہیں دیکھا تھا۔۔
میں امی کے سینے سے لگ گئی ۔گردن میں کھڑی نوک دار ہڈیوں کے درمیان امی کے دل کی کمزور دھڑکنیںتیز ہوئیں۔میں نے امی کے پنجے نما ہاتھ کی کالی جھلسی ہوئی کھال پر اپنی ہتھیلی رکھ دی ۔موٹی ابھری ہوئی نیلی نسیںاکڑی ہوئی تھیں ۔۔۔امی کی حرکت کرتی پتلیاںہاتھ میں گھومتی تسبیح کے دانوں کے شمار کے ساتھ ہل رہی تھیں۔اوپر کا ہونٹ بائیں طرف سے ا ٹھا ہوا تھا ۔۔سامنے کااکلوتا دانت ابھی تھا۔۔
’’ باجی ۔ ممانی کان‘ ناک ‘ ہاتھ سب ننگے رکھتی ہیں ۔۔‘‘ امی کے نورتن ٹاپس اپنے کانوں میں ڈالتے ہو ئے ڈولی نے کہا۔
۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ امی کا چہرہ ایک بار پھر دیکھ سکوں ۔
’’ سونی ! ۔۔ممانی کو تیار کردو ۔آج کچھ دوستوں کو ڈنرپہ انوائٹ کیا ہے‘‘ اسمارٹ ملازمہ کو حکم ملا۔
میں نے ڈولی کی دی ہوئی ساڑی سونی کے ہاتھ سے لے لی ۔امی کے پنجوں کی کالی کھال کو رگڑنے میں مجھے ہر ایک سانس کو ٹکڑوںمیں لینا پڑا۔۔ بھاری بال گرہیں لگنے سے ٹوٹ ٹوٹ گئے۔
امی ڈولی کی دی ہوئی آرٹیفیشل سلک کی ساڑی میں ڈرائینگ روم کے سیون سیٹر سوفے پر بٹھا دی گئیں ۔بھائی نے امی کے گلے میں سرخ گلاب کاہار پہنایا ۔ اور ڈولی نے سفید گلاب کا ۔۔
’’ ڈیر فرینڈس ۔۔یہ سفید گلاب میں نے آن لائین منگوائے ہیں ۔ہالینڈ سے امپورٹ ہوتے ہیں ۔اور ہاں اس ہار کی قیمت یو ایس ڈالرز میں پیڈ ہے ۔۔‘‘
’’واااو۔۔۔ ہائو لکی گرانڈ مام ۔۔‘‘ ڈولی کے فرینڈس حیرت سے امی کی خوش نصیبی کو تکتے رہ گئے ۔۔پاس رکھی ہوئی بڑی میز گفٹس کے پیکٹس سے لد گئی ۔ لیکن ۔۔۔ ان پیکٹوں میں امی کے استعمال کے لئے کوئی گفٹ نہ تھا۔
فوٹو گرافر امی کو ہدایات دیتا رہا ۔۔ کہ پہلے بھائی کے گال سے گال ٹچ کریں اور پھر ڈولی کے گال سے گال ۔۔سب دوستوں نے کورس میں ہیپی مدرس ڈے گایا ۔امی کو بار بار مسکرانے کو کہا گیا ۔امی نے حکم مانا ۔۔اس وقت وہ ڈولی کو ضدی بن کے نہیںدکھا رہی تھیں ۔امی نے اپنی بہو کو ایک بہت بڑا زیور کا ڈبہ دیا ۔۔اور بھائی کو پاپا کی راڈو گھڑی ۔۔ہیپی مدرس ڈے پھر سے سب نے زیادہ جوش سے دو بار گایا۔
ڈولی نے امی کو مدرس ڈے گفٹ میںمہنگا ڈش واشر دیا ۔۔کیونکہ امی اب برتن صاف اور جلدی نہیں دھو سکتی ہیںنا۔
اور ۔بھائی نے امی کوآٹومیٹک واشنگ مشین دی ۔کیونکہ امی اب کپڑے رسی پہ بس پھیلا سکتی ہیں ۔
ایک بار پھر زبردست چیخ و پکا ر کے ساتھ’ ہیپی مدرس ڈے‘ گایا گیا۔ اس بار تین تالیوں کے ساتھ ۔۔
امی کی کانپتی گردن میں بھاری پھولوں کے ہار اوپر نیچے دھڑک رہے ہیں ۔امی تماش بینوں کے اشاروں پہ مسکرانے لگتیں۔۔او ران کے سر پہ ہاتھ رکھ کے منھ میں دعائیں پڑھتی جاتیں۔تالیاں رک نہیں رہی ہیں۔۔
امی ہمیشہ سے ہی بہت رحمدل اور بڑی حساس ہیں۔
پاپا نے ایک بار راستے میں کار روک کے امی کو اور مجھے بندریہ کا تماشہ دکھایا تھا۔۔
بندریا کا تماشہ جاری تھا۔ بندریہ مجمعے کی فرمائشیں پوری کرتی جا رہی تھی ۔امی بندریہ کی آنکھوں میں گھر آئی بے بسی اور شرمندگی کو دیکھ کر پاپا سے ناراض ہو گئی تھیں ۔امی نے پاپاکا ہاتھ چھڑا یا تھا اور سڑک کی سائیڈ میں کھڑی کار میں بیٹھ گئی تھیں ۔پاپا بہت دیر تک امی کو مناتے رہے تھے ۔
اس وقت ۔۔ امی کی آنکھوں میں۔۔۔اسی بندریہ کی آنکھیں۔۔وہی بندگی کے شرمندہ سائے لہرا رہے ہیں۔۔۔
امی گھر کی مکھیا ہیں ۔اس لئے جب تک تمام مہمان نہیں رخصت ہوئے امی سجی سجائی پھولوں کے ہار گردن میں ڈالے ڈائینگ ٹیبل کی اونچی کرسی پر بیٹھی رہیں ۔ ۔اور آدھی رات انکوڈنر یا گیا ۔۔ ابلی لوکی کا بھرتہ اور دوپہر کی باسی چپاتی ۔۔
’’ دانت پورے نہیں ہیں۔ تازی روٹی سے زیادہ آسانی سے باسی روٹی چبا لیتی ہیں۔۔ اس وقت تو کیٹررس آئے تھے ۔کانٹینینٹل فوڈ نہیں ہضم کر سکتیں ۔۔ممانی کا ہاضمہ کمزور ہے ۔۔‘‘ ڈولی نے امی کا دیا ہوا بھاری بھرکم زیور کا ڈبہ کھول لیا ۔۔اور نیلم جڑا نکلس اپنے گلے سے لگاتے ہوئے بتایا ۔
امی کو اسٹیل کے دھندلے گلاس میں پانی اور تام چینی کی کنارے جھڑی پلیٹ میں ڈنر دیا گیا ۔
’’کھانا گراتی بہت ہیں ۔۔ سونی ۔۔۔انکے بستر پر ہی پرانا اخبار بچھا دو جلدی سے ۔‘‘ ڈولی سیٹ کی انکوٹھی انگلی میں زبردستی ڈالنے لگی ۔
میری آنکھوں میں بھرے درد کے صحرا سے ریت اڑ کر بھائی کی آنکھوں میں جلن نہ پیدا کر دے اس لئے اسنے مجھے دیکھے بغیر ہی بتایا۔
’’ باجی !! امی کو روز ایک کیلا کھلادیتا ہوں ۔امی کی مچھر دانی لگا دیتا ہوں ۔۔ ‘‘ امی کے ہاتھوںاور باہوں پر تنی موٹی نسوں کے جال میں مچھروں کے ان گنت کالے ڈنک بھائی کی زبان میں چبھنے میں ناکام تھے۔
’’باجی ممانی نے اپنے پرانے زمانے کے ڈھنگ نہیں بدلے ۔۔انگلش پڑھتی ہیں ۔لیکن اردو اخبار کی ضد ۔۔تین اخبار تو پہلے سے ہی آتے ہیں اس پر سے ایک اردو کا اور ۔۔گھر میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اردو اخبار کیسے ۔۔اب تو ٹی وی تک نہیں دیکھ پاتیں ۔آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے ۔انہوں نے بتایا ہی نہیں ۔اب ڈاکٹر نے کہا کہ دیر ہوگئی ۔۔آپریشن نہیں ہو سکتا ۔۔‘‘
’’ باجی آپ تو خوب جانتی ہیں کہ اس عمر میں ہاتھ پائوں جام ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔اس لئے ان کے کمرے میں نوکروں کا گزر نہیں ۔پھر ایک بات اوربھی ہے کہ یہ نوکروں سے بے جا محبت دکھانے لگتی ہیں جس سے وہ کام چور ہو جاتے ہیں۔‘‘
امی دونوں میں سے کسی کی کسی بھی بات کو سن نہیں رہی ہیں۔پیروں کی ایڑیوں میں اکھڑی سوکھی ہوئی مردہ کھال نوچے جارہی ہیں۔
’’باجی ۔۔تم نے تو ساڑھے تین سال سے اوپر ہوا ایک پیسہ نہیں بھیجا امی کے لئے ۔ کبھی کبھی امی کے لئے کپڑے یا کھانے پینے کا سامان بھیج دیتی ہو۔۔تم نے یہ نہیں سوچا کہ میرے اور کتنے اخراجات ہیں۔ ارے کچھ دن انکے ساتھ رہ کے دکھائو ۔۔ہر وقت پریشان کرتی ہیں۔یہ تمہاری بھی تو امی ہیں ۔‘‘ امی کی ایڑیوںکی ادھڑی کھال سے خون چھلکنے لگا۔
’’ اوراس دن۔۔۔۔
تم نے میری معصوم ڈولی کو کتنا ہرٹ کیا تھا ۔۔وہ رو رو کر بے حوش ہوگئی تھیں ۔تم بھی تو امی کے باتھ روم میں گرنے کی خبر سن کر ہی آئی تھیںنا ۔اب ڈولی بازار گھر کے کام سے ہی توگئیں تھیں ۔ امی کو کیا ضرورت تھی باتھ روم میں جا کر بھیگے کپڑے دھونے کی ۔باہر ہی دھو لیتیں ۔ڈولی نئے زمانے کی لڑکی ہیں ۔۔کیا ہوا اگر غریب گھر کی ہیں تو۔۔ارمان ہیں ڈولی کے دل میں ۔ باجی اگر تم اس دن سارا الزام امی کے گرنے کا ڈولی کے سر پہ نہ ڈال دیتیں تو۔۔۔۔
تومجھے اتنا غصہ نہ آتا اور میں۔۔۔میں تمہارا ہاتھ پکڑ کے تمہیں یوں اس گھر سے نکل جانے کو نہ کہتا ۔تم بڑی ہو ۔اپنی غلطی مان لیتیں اور ڈولی سے معافی مانگ لیتیں ۔۔ امی کا تو خیال کیا ہوتا ۔۔
یہاں نہیں آئیں تو کوئی بات نہیں لیکن ان ساڑھے تین سال میں تم نے امی کو بھی اپنے گھر نہ بلاکے رکھا۔‘‘
’’میں اگر چھوٹا ہوں تو امی میرے حصے میں ہی کیوں ہیں۔تم بھی نوکری کرتی ہو۔امی کا خرچ اٹھا سکتی ہو۔‘‘ امی کی ہلکی سی سسکی نکلی ۔۔امی نے اپنی ایڑی کی مردہ کھال کو زور سے کھینچ لیا ۔۔
’’باجی میں نے آپ کی بد تمیزی کو دل سے معاف کیا ۔ میرا اللہ جانتا ہے میں صاف اور بڑے دل کی مالک ہوں ۔اب دیکھئے ممانی کو مجھ سے کتنی محبت ہے ۔آپ کو تو معلوم ہے ۔یہ میری سگی ممانی نہیں ہیں پھر بھی۔۔ میں کتنی خدمت کرتی ہوں انکی ۔۔‘‘
’’ ا س وقت بھی ممانی آپ کو نہ دیکھ کہ بس مجھے ہی ایک ٹک دیکھے جارہی ہیں ۔‘‘
امی بیٹا بہو کے سفید جھوٹ سن کر گدلی آنکھوں سے انہیںتک رہی تھیں۔۔
’’رات میں ممانی وا ش روم جاتی نہیں ۔ڈائپر ۲۰روپئے کا ایک آتا ہے ۔ اس لئے ربڑ بچھا دی ہے ۔۔بستر گیلا کر لیتی ہیں ۔
ممانی کو اپنے پر اصراف پسند نہیں ۔۔سب سے سستی والی دوا کی گولیاںکہتی ہیں لانے کو ۔۔
ار ے ہاں ۔۔باجی۔۔
یہ بچی ہوئی گولیاں میں میڈیکل اسٹور والے سے بدل کر اپنا فیس واش لے آئونگی ۔ آپ انکی دوا کا پریسکریپشن رکھ لیجئے گا۔‘‘
امی کے گلے میں پڑے پھول اب مرجھانے لگے ۔۔
’’ بیبی آئو ۔۔ دادی کو کس کرو ۔۔ دادی کو ایک بار پھر سے وش کرو۔ اب اگلے سال مدرس ڈے پہ دادی یہاں نہیں ہونگی نا‘‘۔۔
بیبی نے دادی کے گال پر چٹ سے کس کیا اور زور سے کہا ۔۔’’دادی ہیپمی مدرس ڈے ۔‘‘
امی کے گلے میں پڑے پھول کچھ اور مرجھا گئے ۔۔میں نے امی کو کندھوں سے پکڑ لیا۔۔وہ لڑکھڑائے بغیر چل پڑیں۔۔
’’ارے ہاں ۔۔سویٹ ہارٹ !! وہ آج مدرس ڈے کا سرپرائز گفٹ تو لے آئیں ذرا ۔‘‘ ڈولی نے بھائی کو دوڑایا ۔۔
۔ ڈولی کے سوئٹ ہارٹ نے خاکی رنگ کی میلی سی فائل کھولی اور امی نے ڈولی کی ا نگلی کی نشاندہی پر سائن کردیا۔
۔ڈولی نے جھک کر امی کی پیشانی کی گہری لکیروں پر ا پنا گلابی رخسارٹچ کیا۔۔۔
’’ ممانی فے مینسٹ ہیں نا باجی ۔۔ یہ گھر مجھے مدرس ڈے کا گفٹ دیا ہے ۔۔ والدین کے مکان انکے بیٹے ‘ بہو اور پوتوں پوتیوں کے ہی تو ہوتے ہیں ۔
ممانی دعائوں میں یاد رکھئے گا ۔۔ بزرگوں کی دعائوں کی ہم بچوں کو ہمیشہ ضرورت رہتی ہے ۔‘‘ ڈولی کی کمر میں ایک بانہہ اور دوسرے ہاتھ سے اپنی بیبی کی کلائی پکڑے میرا چھوٹا بھائی مین گیٹ کے اندر ہی کھڑا ہاتھ ہلاتا رہا ۔۔دروازے کے باہر بیٹری والا رکشہ مل گیا۔
امی کے اور میرے رکشہ میں بیٹھنے سے پہلے ہی امی کی نیم پلیٹ والا بڑا سا گیٹ بند ہوگیا۔
شکر خدا کا بیٹری رکشہ والانئے زمانے کا لڑکا ہے ۔ہمارے پرانے گھرانے کو نہیں پہچانتا۔۔
ا می کے نام کی پلیٹ کو میں نے اپنے اسکارف کے کونے سے صا ف کیا۔اور اسکارف کے اسی کونے کو اپنے سرپہ ڈھانپ لیا۔ امی کی لاغر گردن میں مرجھاتے سفید گلابوں کا ہار میں نے اتار دیا۔۔۔
امی نے سرخ گلابوں والا ہار کس کے اپنی گردن میں اپنی ٹھنڈی اور سوکھی مٹھی میں جکڑ لیا۔۔
امی کے کمزور شانے زور زور سے لرزے ۔۔امی کی آنکھوں میں گدلا پانی رکا ہوا تھا ۔۔
امی کے بالکل خشک ہونٹ پہلی بار پھڑپھڑائے ۔’’ ہیپی مدرس ڈے !!‘‘
میں نے امی کی گردن میںکھڑی ہڈیوں کے درمیان بھڑکتی نسو ں پہ اپنا سر رکھ دیا۔۔بیٹری رکشہ والا اپنے کانوں میں ایر فون لگائے گانے کی دھن پہ جھومنے لگا۔۔اور ہمارا رکشہ چل پڑا۔۔
ضضض
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here