’’گئے وعدئہ فردا لے کر‘‘پروفیسر سید خواجہ معین الدین کی یاد میں

0
96

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


محبوب خان اصغرؔ

یادش بخیر۔ پروفیسر سید خواجہ معین الدین سے میری پہلی ملاقات فروری 2018ء کے اوئل میں ہوئی تھی۔
انسان زندگی میں سینکڑوں لوگوں سے ملتا ہے، ان میں اکا دکا ہی ایسے ہوتے ہیں جن سے پہلی ملاقات نقش ہوجاتی ہے۔ اور پہلی ملاقات ہی ہوتی ہے جو یا تو متواتر ملاقاتوں کا محرک بنتی ہے یا انفساخ و انفکاک کا سبب بنتی ہے۔ اب یہ احساس مجھے شدید طور پر ہونے لگا ہے کہ یہ نگینہ بہت پہلے کیوں نہیں ملا۔ بہت دیر سے دستیاب ہونے والا یہ گوہر سنج و گوہر بار و گوہر افشاں اتنی جلدی زندگی کی ہتھیلی سے پھسل کر کیوں گرگیا؟
ایک ذی وقار ادبی خانوادے سے تعلق رکھنے والے خواجہ صاحب شخص سے شخصیت کا اور فرد سے انجمن کے لئے پابہ رکاب ہوئے تو محض وصف ذاتی کو سفر کی اساس بنانا۔ اعتماد اور حوصلے کو بیساکھیاں بنالیں تو زینہ زینہ ظلمت سے روشنی کی طرف سفر آسان ہوجاتا ہے۔ اور یہی ہوا۔ پروفیسر خواجہ صاحب کو اپنے معاصرین میں عزووقار ملنے کی وجہ کم از کم میری دانست میں یہی ہے کہ ان کے اندر ایک عجیب طرح کی حوصلہ مندی تھی۔ جو آخری سانس تک ان کے ساتھ رہی۔ یہی نہیں بلکہ وہ ستودہ صفات بھی تھے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی جو ڈگر تھی وہ روشن تھی تو صرف ان کی اپنی فکر اور فلسفہ سے۔ علم اور آگہی سے۔ محنت شاقہ سے۔
خواجہ صاحب 24اکتوبر 1945ء کو چندرائن گٹہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید احمد محی الدین کسی سرکاری شعبہ میں محاسب تھے۔ نجیب الطرفین خواجہ صاحب کی تعلیم کا آغاز مدرسہ تحتانیہ حسینی علم سے ہوا۔ اس وقت حیدرآباد کی ادبی فضا میں نجوم افکار چمک رہے تھے۔ ضیاء الحق جعفری، پروفیسر کیشورائو، ڈاکٹر محمد محفوظ علی صدیقی، پروفیسر سید محمد، پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر ابوظفر عبدالواحد، ڈاکٹر غلام عمر خان، پروفیسر شیوکے کمار، ڈاکٹر زینت ساجدہ وغیرہ نے ان کی شخصیت کی تشکیل میں نہ صرف اہم رول ادا کیا بلکہ رموز اخلاقیات، تہذیبی جڑوں سے انسلاک اور زندگی کے بے شمار مسائل کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے اور انہیں حل کرنے کے گُر سکھائے تھے۔
تعلیم کے ابتدائی مراحل طے کرنے میں انہیں مالی دشواریوں کا بھی سامنا رہا۔ مگر ماضی میں بالخصوص ریاست حیدرآباد میں جو حکومت اقتدار پر تھی ان کا مطمح نظر علم کو عام کرنا تھا۔ چنانچہ اسکالرشپ کے نام پر ان کی مالی اعانت کی گئی۔ نظام ٹرسٹ سے وظیفہ جاری ہوا۔ اس کے علاوہ رعایتی اسکالرشپ اور برٹش اسکالرشپ بھی انہیں ملتی رہی۔ تعمیر ملت نے بھی ان کی مدد کی۔ خواجہ صاحب اپنے اسلاف کے توسط سے علم کی اہمیت کو جان گئے تھے۔ ان کا جو بھی تشخص بنا وہ محض علم ہی سے نسبت رکھتا ہے۔
خواجہ صاحب نے ایک ملاقات میں بتا دیا تھا کہ مختلف سمتوں سے مالی تعاون ہونے کے باوجود تعلیمی اخراجات کی پابجائی نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے نصاب سے متعلق کتابیں چوک کے کتب فروشوں کو بیچ دیں اور ان پیسوں سے پیلس ٹاکیز میں فلم مغل اعظم کے ٹکٹ خریدے۔ سنیما بینی ان کا مقصد نہیں تھا بلکہ ان ٹکٹوں کو زائد نرخ پر بیچنا ان کا منشاء تھا۔ کچھ دنوں تک یہ عمل جاری رہا، جس سے کچھ روپے جمع ہوئے۔ فروخت شدہ کتابیں دوبارہ خرید لیں اور مالی منفعت کو تعلیمی فکر میں لگایا۔ کالج کے بقایاجات ادا کیے۔ خواجہ صاحب تعلیم کے تئیں بے حد حساس تھے۔ انہوں نے برطانیہ سے ایم ایڈ کیا۔ ان کی تدریسی زندگی کا آغاز کالج آف لنگیویجس سے ہوا۔ انوار العلوم اور جامعہ عثمانیہ میں اسلامیات، انگریزی اور اردو پڑھاتے رہے۔ انہوں نے ایک ملاقات میں اس بات کا بھی انکشاف کیاتھا کہ ان کی زندگی کی پہلی کمائی صرف دو روپے تھی، اور پروفیسر بن کر لیبیا پہنچے تو ماہانہ ڈھائی لاکھ پر مامور ہوئے۔ خواجہ صاحب کے خسر پروفیسر سید عبدالخالق نقوی محکمہ دفاع میں عربی پڑھاتے تھے، اور اہلیہ ڈاکٹر عطیہ نقوی محکمہ صحت (مرکزی) میں ماہر امراض نسواں (گائناکلوجسٹ) تھیں۔ دو لڑکیاں ہیں، دونوں امریکہ میں مقیم ہیں۔ ایک بیٹا سید عبدالخالق قادری (عرف زہیب) انجینئر ہے۔
خواجہ صاحب کو سات زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ درسیات کی کتابوں پر مہارت رکھتے تھے۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ انہوں نے مولانا آزاد یونیورسٹی میں تراجم کے شعبہ میں نمایاں خدمات انجام دی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی سوانح حیات پر محیط انگریزی کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ 2005ء میں جامعہ عثمانیہ سے وظیفہ حسن پر سبکدوش ہوئے۔ مگر ان کی تدریسی سرگرمیاں جاری رہیں۔
ترجمہ نگاری کا اہم حوالہ پروفیسر خواجہ معین الدین ترجمہ کا اور بالخصوص اصطلاحات کے ترجمے کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ دانشور تھے، کئی علوم جانتے تھے، مگر دانشوری اور علمیت کبھی جھاڑی نہیں۔ زبان اور ادب کے بے لوث خادم تھے۔ نئی نسل کو کارآمد اور مفید مشورے دیا کرتے تھے۔ چونکہ کئی زبانوں کے ماہر تھے تو ہر زبان کے تاریخی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی پس منظر سے بھی آگاہ تھے۔ شاعری، فکشن اور ناول پڑھتے تھے، مگر ان تینوں اصناف سے دور ہی رہے۔
پیشہ تدریس سے وابستگی نے ان کے مشاہدات اور خیالات کو ایک طرح کی تازگی بخشی تھی۔ ان کی گفتگو سادہ انداز کی ہوا کرتی۔ مگر تحریروں میں استدلال، گہرائی اور توازن دیگر ادب کے مطالعہ کے سبب آیا۔ وہ حقیقتاً ایک سادہ لوح اور لطیف الطبع تھے۔ انسان دوستی، ہمدردی، چھوٹے بڑے سے ایک جیسا برتائو ان کے اوصاف تھے۔ طرز تخاطب میں شائستگی، مٹھاس اور نرمی اور مزاج میں ستھرا پن تھا۔ پیشے کے تئیں دیانتدار تھے۔ منصب کا گہرا شعور انہیں حاصل تھا۔ زندگی بھر وقت کی قدرکی، بدلے میں وقت نے ان کے دامن کو فیاضیوں سے بھر دیا۔ اوائل عمر میں بے پناہ مسائل تھے مگر جہد مسلسل سے مسائل پر قابو پالیا تھا اور ہر اعتبار سے آسودہ حال ہوگئے تھے۔ مگر کیا مجال کہ خود بینی اور خود ستائی نے کبھی چھوا ہو۔ کام اور بس کام ہی ان کی مصروفیت تھی۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، ریشہ دوانیوں سے مبرا تھے۔ الغرض تدریس اور ترجمے کے وقار و معیار کو جن شخصیتوں نے اپنی اعماق فکر سے اعتبار بخشا ہے ان میں خواجہ صاحب کا نام نمایاں ہے۔
27مارچ 2020ء جمعہ کی شب میں غیر معمولی ذکاوت و ذہانت کا مینارہ گر گیا۔ 28 مارچ بروز ہفتہ بعد نماز ظہر مسجد یکخانہ چھائونی ناد علی بیگ میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ تدفین قبرستان سلطان دائرہ میں عمل میں آئی۔ کل نفس ذائقۃ الموت۔
پروردگار مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ آمین۔
آئے عشاق گئے وعدئہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ زیبا لے کر
9246272721

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here