9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
افشاں احمد .برلن
وہ تھکی ہاری کراچی کے ایک گنجان بازار میں سڑک کے کنارے فُٹ پاتھ پر کھڑی تھی۔لو گوں کے غول قریب سے گزر رہے تھے۔رنگ برنگے فیشن ایبل لباسوں میں ملبوس لڑکیاں اور چہکتے ہوئے لڑکے ، ہاتھوں میں شاپنگ بیگ ہلاتے ہوئے لوگ ، مرد عورتیں ، بچے جوان ہنستے، اٹھلاتے ، مٹکتے قریب سے گزرتے رہتے۔ کبھی وہ اس کو دیکھ کر مسکراتے، کبھی بھوکی نگاہوں سے اس کے سر تا پا کا جائزہ لیتے ، کبھی اس کی حالت پر افسوس کرتے ، ترس کھاتے اور کبھی طنزیہ نظروں سے اسے دیکھ کر آنکھیں ملانے لگتے۔ ’’ہائے بیچاری‘‘ کسی نے آوازہ کسا۔لیکن وہ اس سب سے بے نیاز اپنے خیالات میں گم تھی۔ماضی کی پرانی یادیں تازہ ہو گئی تھیں۔ اسے اپنی زندگی کا پل پل یاد آرہا تھا۔ ۔چند نوجوانوں کا غول ایک بار پھر اٹھلاتا ہوا اس کے قریب آیا سر سے پیر تک جائزہ لیا اور’’ کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت حسین تھی‘‘ ایک نوجوان کی زبان سے نکلا اور پھر غول آگے بڑھ گیا۔ لیکن اس نے کوئی دھیان نہیں دیا۔کاروں اور بسوں کے ہارن، دوکانداروں کی آوازیں اور ر اہ گیروں کے ٹھٹھوں کی بھی اس نے کوئی پروا نہ کی۔
وہ ایک خوش مزاج اور ہر ایک سے گھلنے ملنے والی فطرت لے کر پیدا ہوئی تھی۔ہر شخص میں اسے اپنائیت محسوس ہوتی تھی اور ان سے محبت اور اپنائیت کے اثاثے کے احساس سے چور تھی۔ ان کی خوشی ، ان کا دکھ درد، ان کی آرزوئیں اور کامنائیں اس کا اپنا اثاثہ تھیں۔
اسے بچپن ہی سے مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا۔اور اسے اپنا ہر نام پسند تھا۔
بچپن میں وہ دہلی کی تنگ و تاریک گلیوں اورکوچوں میں میں ہنستی، کھیلتی عنفوانِ شباب کی منز پر پہنچی، لکھنئو کے تہذیب یافتہ گنگا جمنی ماحول سے نزاکت سمیٹ کر پروان چڑھی، دکن کے خلوص و محبت کو بٹوراجو اس کے دل میں آج بھی تازہ ہے۔ جیسے ہر علاقے کی شناخت اس کی ذات کا حصّہ ہے۔
جب تقسیم ہند کا چرچا ہوا ، تو اسے ایسا لگا جیسے اس کے جسم کے دوٹکڑے کردئے گئے ہوں ۔ جیسے اس کے جسم کا ایک حصّہ اپنی گلیوں کوچوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے ، لیک دوسرا حصّہ دور جانے کے لئے بے تاب ہے۔ اس نے اپنے جسم کے ایک حصّے کو چھوڑ کر، اپنے بہت سے پیاروں اور چاہنے والوں کو چھوڑ کر انجانے سفر کا فیصلہ کر لیا۔ نئی امیدوں اور آرزوئوں کے ساتھ ۔ ایک نئی زندگی کی تلاش میں۔وہ بچپن سے خوش مزاج، ملنسار، دردمند اور محبت کرنے والی خاتون تھی۔ اس لئے یہاں آنے کے بعد اسے جلد ہی نئے چاہنے والے، ہم نوا اور دمساز مل گئے۔وہ خوش گوار فضا میں پھولی پھلی، اس کے خدو خال نکھرتے گئے اور جلووں میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ بلندیوں پر پرواز کرنے لگی۔
مگر رفتہ رفتہ وقت نے پلٹا کھایا۔اسے مرجھائے ہوئے پھول کی مانند نظر انداز کیا جانے لگا، روندا جانے لگا۔ اس کی پتیاں بکھرتی رہیں۔ اس کے دل میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں ۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے زخموں سے چور ہے۔اس کا رنگ و روپ ، حسن و انداز ماند پڑنے لگا ہے۔ اب اس کی اہمیت، اس کی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔وہ اپنوں کے درمیان رہ کر بھی تنہا بھٹک رہی ہے۔بس بے اعتنائی ہے۔اس کا وجود اب دوسروں کو کھٹکتا ہے۔اور وہ اپنی بے قدری کا دکھ سمیٹ کر یہاں آگئی ہے اور کھڑی ہے۔جہاں اس کا کوئی شناسا نہیں ہے۔ اسے اپنوں سے بہت گلہ تھا۔ وہ اسے بھول گئے تھے۔مگر کیوں؟ اس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر اس کے اپنے اسے محبت بھری نظروں سے پھر دیکھ لیں تو وہ ایک بار بھر دنیا کی نظروں میں نظریں ڈال کر مقابلے کے لئے کھڑی ہو سکتی ہے۔مگر اسے یاد آیا کہ وہ اب گلشن میں ایک مرجھائے ہوئے پھول کی طرح پرے ڈال دی گئی ہے اور نئی نئی کھلتی ہوئی کلیوں کے پودوں کو پانی دیا جا رہا ہے۔اور وہ سوکھتی چلی جا رہی ہے۔
اچانک ایک آٹھ دس برس کا بچّہ پھدکتا ہوا اس کے نزدیک آکر رک گیا اور حیران کن نظروں سے اس کو دیکھنے لگا۔ ایک معصوم ، خوبصورت بچّہ ، بڑی بڑی چنچل ، چمکتی شربتی آنکھیں اور گھنگھرودار بال۔ جیسے کچھ کہنا چہتا تھا۔اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ امید کی ایک کرن نمودار ہوگئی۔ اس کا جی چاہا کہ اسے گود میں اٹھالے۔فرط مسرت سے اس نے اپنا ہاتھ اس بچّے کی طرف بڑھا دیا:
’’ کیا تم مجھے سہارا دو گے؟‘‘
’’ نہیں تو!:: بچّے نے بے دلی سے سر ہلایا: ’’ تم مجھے اچھی نہیں لگتیں!‘‘
ٹپ ۔ ٹپ دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں پر پھیل گئے۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا مگر بچّہ آگے جا چکا تھا۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر وہ بچّہ پھر اس کے قریب آیا اور نرمی سے پوچھا: ’’مگر تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟ کون ہو تم؟‘‘
اس نے اپنے آنسوئوں کو چھپاتے ہوئے بچّے کی طرف دیکھا اور یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے بڑھ گئی:
اردو ہے میرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
میں میرؔ کی ہمراز ہوں غالبؔ کی سہیلی
دکن کے ولیؔ نے مجھے گودوں میں کھلایا
سوداؔ کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
ہے میرؔ کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
غالبؔ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
اقبالؔ نے آئینہ حق مجھکو دکھایا
حالیؔ نے مروت کا سبق یاد دلایا
مومن ؔنے سجائی میرے خوابوں کی حویلی
ہے ذوقؔ کی عظمت کہ دئے مجھ کو سہارے
چکبستؔ کی الفت نے مرے خواب سنوارے
فانی ؔنے سجائے میری پلکوں پہ ستارے
اکبر ؔنے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی
اردو ہے میرا نام میں خسروؔ کی پہیلی