کورونائی وبا میں مزدوروں کی واپسی اور کمپنیوں کی بوکھلاہٹ

0
145

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں


 

صائمہ انصاری

١٧ نومبر٢٠١٩ ایسی تاریخ ہے جس نے اس دنیا کو مقید کرنے کے لیے پہلا قدم بڑھایا۔ یہ وہی دن تھا جب چین میں کورونا وائرس (covid-19) کا پہلا مریض سامنے آیا۔ کسے خبر تھی کہ یہ تو محض ایک شروعات ہے اس چلتی پھرتی دنیا کو روک دینے کی۔١٧ نومبر کے بعد رفتہ رفتہ اس وائرس نے اپنے پاؤں پسارنے شروع کر دئے۔ یکایک مریض بڑھتے گئے اور دیکھتے دیکھتے اموات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ چائنا بدحال ہوتا گیا۔ساری دنیا آنے والے خطرے سے بے خبر چائنا پر افسوس کرتی رہی اور کچھ لوگوں نے اس ملک کا مذاق بھی اڑایا۔
متعدد مشکلات کے باوجود چین نے کورونا وائرس سے اپنی جنگ جاری رکھی۔ وقت گزرتا گیا۔۔۔۔
یہاں تک کہ ہم نے نئے سال کا پرجوش استقبال کیا۔کسی خطرے کی آہٹ محسوس کئے بغیر ہم زندگانئ دنیا میں مصروف رہے۔ تبھی ایک تاریخ ایسی آئی جب سب کچھ بدلنے والا تھا۔ ٣٠ جنوری ٢٠٢٠ جب ہندوستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آیا۔اب بھی ہم خطرے سے بےخبر خود میں مصروف “نمستے ٹرمپ” کرتے رہے۔ اور پھر دیکھتے دیکھتے ایک سے ۵٠٠ کی تعداد ہو چلی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے حکّام کو احساس ہوا کہ اب ہمیں حالات پر غور کرنا چاہیے یکایک راتوں رات ہماری سرکار نے”جنتا کرفیو” کا منصوبہ بنایا اور ٢٢ مارچ ٢٠٢٠ کو سارے ہندوستان میں نافذ کردیا۔ یہی وہ تاریخ تھی جب ہمارے ملک کے پہیے تھم گئے۔ جو جہاں تھا وہیں ٹھہر گیا، وقت رک گیا۔ لیکن وقت کب کس کے لئے رکا ہے۔ وقت نے صرف اپنی شکل بدلی تھی اپنی رفتار نہیں۔ کورونا وائرس ہم انسانوں کے لئے اور خاص کر ہمارے سماج کے غریب طبقہ خصوصاً مزدوروں کے لیے یہ وائرس قہر بن کر آیا تھا۔ کسے خبر تھی کہ یہ وقت اتنا بے رحم ہو گا جو کورونا وائرس ہی نہیں بلکہ اپنی بدلتی شکلوں کے ذریعہ اور بھی بہت کچھ ختم کر دے گا۔ بہت سی زندگیوں کو کھا جائے گا۔ اور ہستی کھلتی کھیلتی زندگیوں میں خوف و حراس کا ماحول پیدا کر دے گا۔ خاص کر غریب طبقہ اور مزدوری پیشہ لوگ اس سے متاثر ہوں گے جن کے لئے یہ کال ثابت ہوگا۔
٢٢ مارچ ٢٠٢٠ کو سرکار نے ضروری سامان دوا، راشن و دیگر اشیائے خورد نوش کے علاوہ سب کچھ بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اونچے طبقے نے اپنے گھروں کو راشن اور ضروری سامان سے بھر لیا اور خود گھروں میں محفوظ ہوگئے۔ اب سوال ہمارے ملک کے نچلے طبقے کا تھا خاص کر ہمارے مزدوروں کا جو اپنا خون پسینہ ایک کرکے محض ایک دن کا کھانا جٹاتا ہے۔ اب وہ کیا کرے گا؟ کہاں جائے گا ؟ جیسے تیسے کچھ دن گزرے اور پھر ایک کے بعد ایک مزدوروں کو ان کے مالکوں نے باہر کا راستہ دکھانا شروع کر دیا۔ وقت کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی چلی گئی اور مزدوروں کو اپنے پیٹ کے لئے گھر کی یاد آئی۔ وہ جیسے تیسے اپنے گھر جانا چاہتے تھے رختِ سفر تو تھا لیکن سفر کا کوئی راستہ نہ تھا۔ مزدوروں نے بھوکا مرنے سے بہتر اپنے وطن پاپیادہ ہی جانے کو ترجیح دی اور یکے بعد دیگرے یہ مزدور قافلے کی شکل میں چل پڑے۔
ہاں یہ وہی مزدور تھے جو اپنے گھروں سے نکلتے وقت آنکھوں میں آنسووں کے ساتھ ساتھ ڈھیر سارے خواب بھی لے کر چلتے ہیں۔ مزدور جب اپنے گھر سے نکلتا ہے تو تنہا نہیں نکلتا بلکہ ماں باپ، بھائی بہن،بیوی بچوں کی خوشیاں اور امیدیں اس کے ساتھ ہوا کرتی ہیں اور وہ اپنا درد چھپائے ہوئے مسکرا کر شہر کا رخ کرتا ہے۔
صعوبتوں کے ہمراہ مزدور بھاری من سے اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر اپنوں سے ہزاروں میل دور شہر کا سفر طے کرتا ہے اور اپنی روزی روٹی تلاش کرنے میں سرگرداں رہتا ہے اس کی اسی محنت و مشقت کے نتیجے میں ملک مستحکم و مضبوط بنتا ہے۔ آج جو دولت مندان اور صاحبانِ ثروت بڑی بڑی.B.M.W گاڑیوں میں گھومتے ہیں ان کے پیچھے مزدوروں کی محنت و مشقّت ہوا کرتی ہے۔ مزدور اپنا خون پسینہ بہا کر ہمیں زندگی کے نئے نئے وسائل فراہم کرتا ہے۔ آسمان سے آنکھیں ملاتی ہوئی بڑی بڑی عمارتیں جن میں ہم چین اور سکون کی زندگی گزارتے ہیں اس میں مزدور کا خون پسینہ ملا ہوا ہوتا ہے۔ ہماری تہذیب کی عکاسی کرتی ہوئی قدیم عمارتیں جو آج کھڑی مسکرا رہی ہیں ان کی تعمیر کا سہرا بھی انہیں مزدوروں کے سر ہے جو آج گمنامی کے ساتھ دربدر بھٹکنے کو مجبور ہے۔
آج بھی ہمیں جب ضرورت ہوئی جھٹ سے جاکر مزدوروں کو اٹھا لائے اور تھوڑی سی مزدوری میں بڑے سے بڑے مشکل مراحل آسان ہوگئے لیکن آج جب انہیں ہماری ضرورت پیش آئی تو ہم نے انہیں بھوکا پیاسا ان کے کندھوں پر چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی ذمہ داری لیے تن و تنہا چھوڑ دیا۔ یہ وہ مزدور ہیں جن کا قرض ہم کبھی نہیں ادا کر سکتے۔ یہ ہمیں رہنے کو گھر، پہننے کو کپڑا اور کھانے کو اناج دیتے ہیں لیکن بدلے میں ہم انہیں ان کے کام سے نکال کر روزی روٹی سے بے دخل کر دیتے ہیں۔
اس وبائی دور میں ہماری کمپنیوں کے مالکوں نے مزدوروں کی مدد کرنے کے بجائے ان کی مزدوری تک نہ دی جو خود کو مالک کہتے تھے وہ اپنا مالکانہ حق بھی نہ ادا کر سکے۔
اب ہمارے مزدوروں کی حالت اس قدر خراب ہے کہ اس سے پہلے کورونا وائرس ان پر حملہ کرتا دیگر مشکلات نے ان کی جان لینی شروع کر دی وہ بھی اتنی دردناک جسے ہم اور آپ سوچ کر بھی سہم جاتے ہیں۔ اب تک کی شرح اموات اشارہ دیتے ہیں کہ ۵٠٠ سے زاید مزدور مختلف حادثات میں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں جن میں کچھ پیدل چل کر خود سے ہار گئے اور اپنی منزل پر پہنچنے سے میلوں دور ہی دم توڑ گئے تو کچھ کو سڑک حادثوں نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہیں کچھ نے بے بس اور لاچار ہو کر خودکشی کرلی۔
ان حادثوں میں سب سے اہم اور دردناک حادثہ اورنگ آباد ریل حادثہ رہا ہے جس میں کل ١٦ مزدوروں کے ایک ساتھ چیتھڑے اڑ گئے بتایا جاتا ہے کہ یہ مزدور بندی کی وجہ سے اپنے گھروں کو پیدل جانے پر مجبور ہوگئے تھے اور چونکہ منزلیں میلوں دور تھیں لہٰذا دوران سفر تھک ہار کر آرام کرنے لگے اچانک سوتے وقت ایک ٹرین پٹری سے گزر گئی اور کئی جاں بحق ہوگئے۔ اس حادثے کی عکاسی ریلوے ٹریک پر پڑی مزدوروں کی زخمی لاشیں اور ساتھ میں بکھری روٹیاں ہیں جو مزدور رختِ سفر کے طور پر لے کر چلے تھے۔ یہ وہی روٹیاں تھیں جس کے لئے مزدور اپنے گھروں کو چھوڑ کر شہروں کی طرف آتے ہیں اور آج اسی کے لیے واپس جارہے تھے۔ ان کی لاشوں کے ساتھ بکھری روٹیوں کے یہ ٹکڑے آج خود میں ایک داستان کہہ گئے۔ مقامِ فکر ہے کہ جن مزدوروں کو زندہ رہتے سفر کے لیے سہولیات فراہم نہ ہوسکیں ان کی لاشیں اٹھانے کے لیے باقاعدہ اسپیشل گاڑیوں کا اہتمام کیا گیا۔
مزدوروں کی روانگی کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ٢٢ مارچ سے آج مئی کا آخری ہفتہ گزرنے کو ہے اب تک ان مزدوروں کو ان کی مزدوری نہیں ملی مجبوراً یہ لوگ مختلف حادثوں کا شکار ہوتے رہے۔
اخبارات اور نیوز رپورٹس کے مطابق ایک اور خبر دیکھنے میں آئی جب مدھیہ پردیش میں ٹرک سے اپنے شہر پٹنہ جاتے ہوئے مزدوروں کی ایک بھیانک حادثے میں موت ہو گئی۔ وہیں اسی مدھیہ پردیش کے شہر گنا کے پاس ایک بس اور ٹرک میں ٹکر ہوئی جس میں مختلف مزدور اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ساتھ ہی یوپی کے کئی شہروں میں بھی اسی طرح کی کئی تصویریں سامنے آئیں جن میں کل ملاکر ١۴ مزدوروں کی جانیں گئیں اور اس طرح دیکھتے دیکھتے پہلے ٧ پھر ٩ پھر اچانک ایک ساتھ ٣٦ مزدوروں کی اموات کی خبریں سامنے آئیں۔ یہ چند ہی ایسے حادثے ہیں جو خاص و عام تک پہنچے دیگر حادثات ایسے ہیں جن کا یہاں ذکر مضمون کی طوالت کے سبب چھوڈ دیا جا رہا ہے۔
اپنی جانوں کو کھو کر ہزاروں مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے دھوپ، گرمی، بارش، اولے کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے مزدوروں کی روانگی جاری ہے کوئی پیدل، کوئی رکشہ، کوئی ٹرک سے اپنے گھروں کو جانا چاہتا ہے۔ بھوکا پیاسا یہ مزدور آج تڑپ رہا ہے اسے کورونا سے خوف نہیں آرہا کیونکہ اس سے بڑا خوف اسے اس کے خالی پیٹ کا ہے، بھوک کا ہے۔
یہ سلسلہ جو چلا تو تھمنے کا نام نہیں لے رہا دیکھتے دیکھتے دیش کی ۵٠ فیصدی مزدوروں کی آبادی اپنے گھروں کو پہنچ چکی ہے۔ ان سب کے بیچ جو سب سے اہم بات نکل کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکار نے لوک ڈاؤن کھولنے اور اس میں ڈھیل دینے کے آثار ظاہر کیے یہ ایسا وقت ہے کہ اعلیٰ طبقہ گھبرا اٹھا کہ اب کمپنیاں کھلیں گی بھی تو ورکرز کہاں ملیں گے روزگار بغیر مزدوروں کے کیسے چلے گا۔ جیوں ہی کاروبار کھلنے کے آثار ظاہر ہوئے کمپنیوں کے مالکوں کی بوکھلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے کہ ان کی فیکٹریاں اب کیسے چلیں گی؟ اس طرح خالی فیکٹری سے تو وہ سڑک پر آجائیں گے۔ ساتھ ہی ملک کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔
ملک کی کل١ ارب ٣۵ کروڑ آبادی میں ۴٨٧ ملین مزدور ہیں جن کا ہر طرح کے کاروبار میں اہم رول ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہیں رکا تو ملک کے کاروبار اور بڑی بڑی کمپنیوں کا کیا ہو گا؟ اس پر غوروفکر ملک کے مفکرین کی صوابدید پر رہا۔
شاید اسی خیال کے تحت ہریانہ کے سی۔ ایم۔ منوہرلال کھٹر نے بھی کہ دیا کہ ” میں آپ مزدوروں سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ ابھی اپنے گھر نا جائیں۔
مزدوروں کی روانگی سے بڑھتی مشکلات کے نتیجے ابھی سے سامنے آنے لگے ہیں۔ اتر پردیش میں سرکاری کاموں میں آؤٹر رنگ روڈ کے لیے مزدور ڈھونڈے نہیں مل رہے ہیں۔ سرکار کا کہنا ہے کہ اسی طرح یہ روانگی جاری رہی تو ملک کے اقتصادی حالات پر بڑا اثر پڑنے والا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مزدور رکے کیوں؟ جب اس مزدور پر وقت پڑا تب تو مالکانہ حق کا دعویٰ کرنے والوں نے ہاتھ اٹھا لیے ان کو ان کے کاموں سے بے رحمی سے نکال دیا گیا تنخواہیں روک لی گئیں۔ اب جب خود کے نقصان کا سوال ہے تو مزدوروں کی یاد آئی۔ ہمارے مزدوروں نے ان حالات میں جن مشکلات اور دقتوں کا سامنا کیا ہے اس کے بعد وہ کسی کا بھروسہ نہیں کر رہے ہیں اور ان کی روانگی کا سلسلہ جاری ہے اب ملک اور اس کی حالات کیا ہوں گے، کاروبار کی شکل کیا ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ غریب مزدوروں کی مشکلوں کو آسان کرے اور ساری دنیا کو کرونائی وبا سے نجات عطا کرے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here