9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
بھارت میں 29 فروری تک کووڈ 19 کے تین کیس منظر عام پر آئے تھے۔ کورونا وائرس کا حملہ بیرون ملک کا سفر کرکے بھارت آنے والوں پر ہوا تھا۔ ابتداء میں حکومت نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مرکزی وزارت صحت اسے ملک کے لئے بڑا خطرہ ماننے کو تیار نہیں تھی۔ شاید اسی لئے وزات صحت اس کی تیاری کرنے سے چوک گئی۔ جبکہ ایک کے بعد ایک دنیا کے مختلف ممالک اس کی زد میں آرہے تھے۔ خود بھارت نے چین، ایران، اٹلی وغیرہ سے اپنے شہریوں کو ملک واپس لانے کے لئے خصوصی انتظام کیا تھا۔ مارچ تک دنیا کے مختلف ممالک کے 336 فلائٹ سے 64000 مسافر بھارت آئے۔ ان میں سے صرف آٹھ ہزار کو ڈاکٹروں کی نگرانی میں آئسو لیشن کیمپوں میں رکھا گیا۔ 56000 یوں ہی ملک میں گھومتے رہے۔ مختلف ممالک سے قریب سو لوگ اکیلے پنجاب میں آئے۔ بی بی جاگیر کور کے مطابق ائیرپورٹ پر نہ انہیں روکا گیا اور نہ ہی 14 دن تک انہیں الگ تھلگ رہنے کو کہا گیا۔ اس سے کووڈ۔ 19 کے متعلق حکومت کی سرد مہری کا اندازہ ہوتا ہے۔
وزیراعظم نے 22 مارچ کو ایک دن کے جنتا کرفیو کا اعلان کر پہلی مرتبہ کووڈ۔ 19 پر سنجیدگی کا اظہار کیا۔ مگر اس وقت تک کیرالہ، مہاراشٹر سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد پانچ سو کے قریب پہنچ چکی تھی۔ جنتا کرفیو کے دن پانچ بجے تالی، تھالی، گھنٹہ بجا کر ڈاکٹروں، نرسوں، صحافیوں اور عوام کی خدمت میں لگے دیگر کارکنان کی خدمات کا اعتراف اور حوصلہ افزائی کرنے کی بات کہہ کر وزیراعظم نے اس کے مقصد کو فوت کر دیا۔ لوگوں نے سڑکوں پر دھول، تاشے، تھالی، سنکھ کے ساتھ نکل کر سوشل ڈسٹین سنگ کی دھجیاں اڑا دیں۔ کچھ اسی طرح کا منظر لاک ڈاؤن کے دوران 5 اپریل کی رات کو دیکھنے کو ملا۔ لوگوں نے دیا، موم بتی، ٹارچ، فلیش لائٹ جلانے کو دیوالی میں بدل دیا۔ اس کے نتیجے میں کئی گھر آگ کی نظر ہو گئے۔ پٹنہ میں تو کئی جانور آگ کی زد میں آ گئے۔ ہو سکتا ہے مودی جی کو اس ٹاسک سے اپنی مقبولیت کا اندازہ لگانے میں مدد ملی ہو۔ مگر اس طرح کے ٹوٹکوں سے نہ عوام کا بھلا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کووڈ۔ 19 کا مقابلہ۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا سے بچنے کے لئے لاک ڈاؤن یعنی ملک بندی لاگو ہے۔ سڑکوں پر یا تو پولس دکھائی دے رہی ہے یا پھر پولس کے ہاتھوں بے دردی سے پٹ رہے غریب لوگ۔ پٹنے والے لوگوں میں مہانگروں اور بڑے شہروں سے اپنے گھر، گاؤں کی طرف نقل مکانی کر رہے مزدور اور ان کے خاندان بھی ہیں اور اپنے خاندان کی ضرورت کا سامان خریدنے والے لوگ بھی۔ یہ سب تب ہو رہا ہے جب ملک میں کسی بھی طرح کی ایمرجنسی لاگو نہیں ہے۔ نہ داخلی، نہ خارجی اور نہ ہی معاشی یا طبی۔ پھر بھی ملک کے پولس اسٹیٹ بننے جیسے نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کچھ طبقات و علاقوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں تبلیغی جماعت کے بہانے کووڈ۔ 19 جیسی مہلک بیماری پر ملک میں سیاست ہو رہی ہے۔ خوشامد پسند میڈیا نے کورونا وائرس کی وبا کو پھیلانے کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ کوئی بھی بیماری ذات، مذہب یا علاقہ دیکھ کر نہیں آتی مگر برسراقتدار جماعت کے لوگوں نے اس وبا میں بھی ہندو مسلم کا پہلو تلاش کر لیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت مرکز میں باہر سے آنے والوں کی ایئر پورٹ پر جانچ کی ذمہ داری کس کی تھی۔ مرکز میں آئے لوگوں کو واپس بھیجنے کے لئے ذمہ داران مرکز کو اجازت کیوں نہیں دی گئی۔ اس بیچ تبلیغی جماعت کے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ کرکے خوب بدنام کیا گیا جبکہ مرکز سے جن لوگوں کو لے جایا گیا تھا ان میں سے کوئی بھی کورونا پازیٹو نہیں پایا گیا۔ منفی سوچ رکھنے والا میڈیا مکھی نگلنے اور چینٹی دیکھنے کا کام کرتا رہا۔ شولا پور میں مندر سے نکالی جانے والی شوبھا یاترا میں جمع ہوئی ہزاروں کی بھیڑ اسے نظر نہیں آئی۔ بہار کے کٹیہار میں ڈاکٹروں کی ٹیم کو گاؤں والوں کے ذریعہ بندھک بنایا جانا اسے دکھائی نہیں دیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران مہاراشٹر بی جے پی کے ایم ایل اے کے جنم دن پر دوسو لوگوں کے جمع ہونے پر اس نے کوئی خبر نہیں کی۔ تلنگانہ میں بھاجپا ایم ایل اے کے مشال جلوس پر بھی اس کی زبان خاموش رہی۔ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کی تعریف کی جانی چاہئے انہوں نے اس آزمائش کے وقت میں ہمت دکھاتے ہوئے کہا کہ مذہبی بنیاد پر کسی کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس وقت مل کر حالات کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی مذہب کی بنیاد پر مریضوں کی درجہ بندی نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔
کووڈ۔ 19 سے متاثر ممالک نے اس مہا ماری سے لڑنے کے لئے جی ڈی پی کی دس فیصد رقم خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بھارت اس معاملہ میں بہت پیچھے ہے۔ جنوری سے کورونا وائرس دنیا میں تباہی مچا رہا ہے۔ مگر ابھی تک مرکزی حکومت نے حزب اختلاف کو اعتماد میں نہیں لیا ہے۔ وزیراعظم 8 اپریل کو اپوزیشن لیڈروں سے ویڈیو کانفرنسنگ کرنے والے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اسد الدین اویسی کو اس میں مدعو نہیں کیا گیا ہے۔ کورونا کی لڑائی پوری طرح ریاستیں لڑ رہی ہیں۔ مرکزی حکومت سیدھے طور پر اس میں شامل نہیں ہے۔ اس کا کام ریاستوں کو تعاون دینا، مہاماری کے بعد کی منصوبہ سازی کرنا اور صورتحال کی مانیٹرنگ کرنا ہے۔ کابینہ کی میٹنگ کے باوجود ابھی تک ریاستوں کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے ریاستیں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو پرسنل پروٹیکشن اکیوپمنٹ (پی پی ای) فراہم نہیں کر پا رہی ہیں۔ ضرورت کے مطابق وینٹی لیٹر اور دیگر ضروری سازوسامان کی قلت ہے۔ مریضوں کو قرنطینہ کرنے اور ڈاکٹروں کو رکھنے کا بھی معقول انتظام نہیں ہے۔
اس کے علاوہ غریبوں اور بے روزگاروں کو دو وقت کا کھانا فراہم کرنا بھی بڑی چنوتی ہے۔ راشن موجود ہے مگر ان غریبوں کے پاس راشن خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ کہیں راشن کی دوکانیں نہیں کھل رہیں تو کہیں لوگوں کو راشن لینے آنے نہیں دیا جا رہا۔ بڑی پریشانی ان کی ہے جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے۔ سینئر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کی رپورٹ کی مانیں تو کورونا کی وجہ سے ملک کے ہر چوتھے شخص کے سامنے بے روزگاری کا مسئلہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق 23.4 فیصد لوگوں کی نوکری چھن سکتی ہے۔ شہروں میں یہ بے روزگاری 30.9 فیصد ہو سکتی ہے۔ مارچ کے وسط میں بے روزگاری کی شرح 8.4 فیصد تھی جس کے 23.4 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ نوکریاں جانے اور بے روزگاری بڑھنے سے اٹلی جیسے ملک میں لوٹ پاٹ کے واقعات ہو رہے ہیں۔ جرمنی کے ہیس صوبہ کے فائنانس منسٹر نے اسی فکر میں خود کشی کر لی تھی۔ بھارت کا کورونا کے بعد کیا حال ہوگا اس کا ابھی اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
اس بحرانی صورتحال سے نبٹنے کے لئے دوا، غذا اور پیسے کی ضرورت ہے۔ لیکن حکومت نے امریکہ کے دباؤ میں دواؤں کے ایکسپورٹ پر لگی پابندی کو ہٹا لیا ہے۔ اس وقت حکومت اور عوام دونوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اپنے شہریوں کی حفاظت سرکار کی پہلی فوقیت ہو اور عوام حکومت کی ہدایات پر عمل کریں۔ بھارت کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں بہت دیر میں شامل ہوا ہے۔ اب ضروری ہے کہ اس لڑائی کو مل کر لڑا جائے۔ یہ جنگ ہم ضرور جیت سکتے ہیں لیکن سب کو ساتھ لے کر۔ ٭٭٭