9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر سلیم خان
کورونا وائرس نے اچھے اچھوں کے دماغ درست کردیئے مثلا ً ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی جیسے لوگ بھی سمجھداری کی باتیں کرنے لگے لیکن افسوس کہ یہ عالمی آفت بھی کچھ لوگوں کا دماغ درست نہیں کرپائی ۔ ان میں سے ایک اترپردیش قنوج کے بی جے پی رکن پارلیمان سبرت پاٹھک ہیں ۔ پاٹھک نے اپنے حلقۂ انتخاب کے تحصیل دار اروند کمار سے پہلے تو فون پر گالی گلوچ کی۔ اس دوران ان ذات کا ذکر کرکے ماں بہن کی سنائی اور دفتر میں آکر مارنے کی دھمکی دی ۔ اس پر تحصیلدار نے اپنے اعلیٰ افسر کو شکایت کی تو انہوں نے رکن پارلیمان پر کارروائی کرنے کے بجائے اروند کمار کو وہاں سے ہٹ جانے کی تلقین فرمادی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان دبنگ سیاستدانوں کےآگے کوئی اعلیٰ ترین افسر بھی کس قدر بے یارومددگار ہے۔ وہ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی شکایت پر انہیں تحفظ تک فراہم نہیں کرسکتا ۔ اس لیے اروند کمار نے مجبوراً دفتر سے نکل کر گھر آنے میں عافیت سمجھی ۔
تحصیلدار کو یہ خوش فہمی تھی کہ وہ اپنے سرکاری مکان میں محفوظ ہوں گے لیکن وہ بی اس وقت دور ہوگئی جب رکن پارلیمان اپنے دو درجن حامیوں (غنڈوں )کے ساتھ ان کے گھر پہنچ کر دروازہ پیٹنے لگے ۔ اس صورتحال سے اروند کمار کی ۸ سالہ بچی سمیت سارے اہل خانہ ڈر گئے ۔تحصیلدار کو جب یقین ہوگیا کہ اب یہ بدمعاش گھر میں گھس کر بچوں کے سامنے مارپیٹ کریں گے تو دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ یہ کوئی قیاس آرائی نہیں ہے بلکہ تحصیلدار کا اپنا بیان ہے جس کو یو ٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ باہر آئے تو سب سے پہلے رکن پارلیمان نے ان پر دست درازی کی اور پھر ان کے ساتھی پل پڑے ۔ اس کے نتیجے میں تحصیلدار کو مرہم پٹی کے لیے سرکاری اسپتال جانا پڑا ۔
اس واردات پرایس سی ، ایس ٹی مظالم ایکٹ کے علاوہ دیگر دفعات کے تحت رکن پارلیمان اور چار لوگوں کے خلاف نامزد درج ہوچکی ہے۔ ایف آئی آر اور بھی بیس پچیس نامعلوم افراد کا ذکر ہے لیکن کوئی گرفتاری نہیں ہوئی حالانکہ مار کھانے والا بہت بڑا آدمی یعنی تحصیلدار ہے لیکن مارنے اور پٹوانے والا اس سے بھی مہان رکن پارلیمان ہے ۔ آئین کی نظر میں گوکہ تمام انسان برابر ہیں لیکن کسی رکن پارلیمان کی گرفتاری اسپیکر یا صدر جمہوریہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتی ۔ اب اگر اس رکن پارلیمان کاتعلق حزب مخالف سے ہوتا تو ذرائع ابلاغ اس کو لے کر آسمان سر پر اٹھا لیتا اور پھر ایوان پارلیمان کے اسپیکریا صدر جمہوریہ فوراً اجازت مرحمت فرما کر اپنی انصاف پسندی اور آئین کی بالا دستی کا بھرم رکھ لیتے ۔
اس بار رکن پارلیمان حزب اقتدار میں سے ہے ۔ سارا دھرم سنکٹ اس لیے ہے کہ اسپیکر اور صدر جمہوریہ کاتعلق بھی جماعت سے ہے۔ اس لیے سب سے پہلے تو میڈیا نے حق نمک ادا کرتے ہوئے اپنی آنکھیں موند لیں ۔ آج تک ، ریپبلک ، اے بی پی اور انڈیا ٹی وی وغیرہ کو یہ سب نظر ہی نہیں آیا ۔ اس کے بعد للن ٹاپ جیسے لوگوں بالکل ہریش چندر کے انداز میں خبر دی۔ یعنی اس نے بتایا کہ تحصیلدار نے یہ الزامات لگائے ہیں اور رکن پارلیمان نے اس کی تردید کی ہے۔ وہ سبرت پاٹھک کا یہ بیان بھی بتائے گا کہ وہ تو اس کے گھر گئے ہی نہیں ۔ ان کو بدنام کرنے کے لیے ایک سازش رچی جارہی ہے۔ اس معاملے تنازع کی وجہ سب سے اہم ہے ۔ اس للن ٹاپ پاٹھک کو موقف رکھے گا کہ وہ تو کورونا کے لاک ڈاون میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے کھانا بنوا کر اسے انتظامیہ کے ذریعہ تقسیم کروا رہے تھے ۔ اس سے بین السطور یہ پیغام چلا جاتا ہے کہ وہ بڑے رحمدل انسان ہیں ۔ دونوں فریقوں کا موقف رکھنے کے بعد میڈیا یہ بھی بتائے گا کہ ان الزامات کے بیچ سیاست گرما گئی ہے ۔ پولس ان کی تحقیق کررہی ہے۔
میڈیا کی اس لیپا پوتی کے بعد اب ان سیاستدانوں کا زیر دست انتظامیہ اپنے ہی محکمہ کی بابت تفتیش کو اتنا لمبا کھینچے گا کہ تحصیلدار بیزار ہوکر اپنی شکایت واپس لے لے وہ افسر اگر سخت جان نکل جائے تو اسے ڈرا دھمکا کر اپنے موقف سے رجوع کرنے پر مجبور کردیا جا ئے تاکہ سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش فش ہوجائے ۔ آئین میں کسی پسماندہ ذات پر ظلم کرنے والے کی فوری گرفتاری کا قانون درج ہے لیکن کسی دبنگ سیاستداں کا شاذو نادر ہی بال بیکا ہوتا ہے ۔ وطن عزیز میں پانچ ہزار سالوں سے یہ گھناونا کھیل جاری ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا؟ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حلقۂ انتخاب میں جہاں اکیس فیصد دلت ووٹرس ہیں اور عرصۂ دراز سے سماجوادی کامیاب ہوتے رہے ہیں ایک دلت تحصیلدار اس قدر غیر محفوظ کیوں ہے؟ ایک پڑھے لکھے ذی حیثیت تحصیلدار کی یہ حالت ہے تو عام دلتوں کی کیا حالت ہوگی؟
قنوج زعفرانیوں کا نہیں بلکہ سماجوادیوں کا گڑھ رہا ہے ۔ یہاں سے پہلی بار ملک کے عظیم سوشلسٹ دانشور رام منوہر لوہیا منتخب ہوکر ایوان پارلیمان میں گئے تھے ۔ انہوں نے اپنے شاگردِ رشید ملائم سنگھ یادو کو قنوج روانہ کیا تھا ۔ اس حلقۂ انتخاب سے صرف دو مرتبہ کانگریس کے براہمن امیدواروں کو کامیابی ملی اور ایک مرتبہ لوک دل کا براہمن بھی کامیاب ہوا ۔ اس کے علاوہ ہر بار سماجوادی کامیاب رہے ۔ ۱۹۹۶ میں بی جے پی کے چندر بھوش سنگھ بھی جیتے تھے لیکن وہ بھی سماجوادی پارٹی سے بغاوت کرکے وہاں گئے تھے ۔ اس کے علاوہ ہر بار یادو امیدوار کامیاب ہوتا رہا ان میں اکھلیش تین بار اور ان کی بیوی ڈمپل دو مرتبہ کامیاب ہوئیں ۔ بی جے پی کے تین مرتبہ ناکام ہونے والے براہمن امیدوار سبرت پاٹھک کو ۲۰۱۹ میں ایک فیصد کے فرق سے کامیابی ملی اور ان کے دماغ میں اقتدار کا نشہ ایسا چڑھا کہ انہوں نے تحصیلدار کو گھر میں گھس کر مارنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔
سبرت پاٹھک اگر خدانخواستہ مسلمان ہوتا تو بہت سارے مسلم رہنما اس کی مذمت کے لیے آگے آتے لیکن کسی ہندو نے اپنی قوم کی طرف سے اس واقعہ کی مذمت نہیں کی؟ ایسے موقع پر مسلمانوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ معافی مانگیں لیکن سبرت کی اس حرکت پر ہندو قوم سے معافی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ سبرت پاٹھک کاتعلق براہمن سماج سے ہے کیا براہمنوں کی کسی تنظیم نے اس پر ندامت کا اظہار کیا ہے؟ وہ بی جے پی کی اترپردیش اکائی کا سکریٹری اور رکن پارلیمان ہے تو کیا بی جے پی کے صدر نے اس پر تنقیدیا کارروائی کی ؟ ایسا نہ کسی کیا اور نہ کوئی کرے گا ۔ اگر یہی ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا تو پھر آئین کی بالا دستی اور انصاف و مساوات کی بڑی بڑی باتیں کرنے سے کیا فائدہ ؟ کورونا کی عارضی وبا تو ٹل جائے گی لیکن صدیوں سے جاری یہ ظلم و زیادتی کب ختم ہوگی ؟
٭٭٭