کورونا

0
132

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

راج شیکھرپاٹل اشٹور

آج دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ’’کورونا‘‘ ہے۔ دنیا ’’کورونا‘‘ نامی اس مرض سے حددرجہ پریشان ہے۔ کوروناوائرس کولے کر ڈاکٹرس الجھن کاشکار ہیں۔ اس کا علاج اور اس مرض پر قابوپانے کو وہ غیریقینی محسو س کررہے ہیں۔اس مہلک وباء کو Covid 19کہتے ہیں۔ دنیا مانتی ہے کہ یہ مرض چین سے شروع ہوا۔ اسلئے اس کو چینی وائرس کے نام سے لوگ پکاررہے ہیں۔اس مرض کی ہلاکت کی شدت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اب تک 2لاکھ سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔
ہم نے پڑھا اور سنا ہے کہ طاعون اور ہیضہ کے سبب بہت پہلے کئی خاندان موت کے گھاٹ اُترجایاکرتے تھے۔ ان بیماریوں کے چلتے قریہ، گاؤں،اور شہرانسانوں سے خالی ہوجاتے تھے۔ کورونا کے معاملے میں خدا کاشکر ہے کہ ابتداء ہی سے ہم کویہ حوصلہ افزاء جانکاری مل رہی ہے کہ کتنے لوگ صحت یاب ہوکر اسپتال سے Discharge ہوگئے ہیں۔اس کے باوجود پریشانی کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس مرض سے 50ہزار سے زائد افراد صرف اس امریکہ میں موت کا شکار ہوئے ہیںجو دنیاکاسپرپاور ہے۔ اس کے بعد ہلاکتوں میں یورپ کا نمبر آتاہے۔ خصوصاً اٹلی، اسپین، فرانس اور انگلینڈمیں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ جبکہ وہاں صحت کی عمدہ سہولتیں شہریوں کو میسر ہیں۔ انسانی زندگی کی وہاں Value بہت ہے۔ دنیاکے بہترین دواخانے اور Health Care System وہاں موجودہے۔مذکورہ ممالک میں سالانہ دولاکھ سے زائد لوگ Common Flu (بخار ، جاڑاوغیرہ)اور نمونیہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اگر کورونا جیسے مرض سے اس کا تجزیہ کیاجائے تو مختصرسی معیاد میں کورونا وائر س کے باعث ہزاروں کی تعداد میں انسان ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان ہلاکتوں کے چلتے آئندہ کی دنیا کا تصور مشکل ہوگا۔ کہانہیں جاسکتاکہ یہ دنیا کورونا کے بعد کیسی رہے گی ؟
کچھ بیماریوں کے بارے میں :۔ دنیا میں آج سب سے زیادہ تپ دق (TB)کے مریض ہندوستان میں ہیں۔ اسی کے بین بین کہناچاہوں گاکہ Rabbiesمرض میں ان دیکھی کے سبب کئی اموات ہمارے ہاں ہواکرتی ہیں۔ کینسرکے مریضوں کی تعداد بھارت میں بڑھی ہوئی ہے۔ خصوصاً گٹکھا اورپان مسالہ سے منہ کے کینسر کے کیسس میں اضافہ ہواہے۔ کیاہم Tobacco کھانے اور ہرمقام پر تھوکنے کی بری عادتوں سے باہر نکل کراپنی جان کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے ؟یہ ناممکن تو قطعاً نہیں ہے۔ چند سال پہلے ہم نے خواب میں بھی نہیں سوچاتھاکہ عام مقامات خصوصاً بسوں اور ریل گاڑیوں میں سگریٹ پینا بند ہوسکتاہے لیکن ہم سگریٹ پینے کی بری لیکن مہلک عادت کو روکنے میں صد فیصد کامیاب ہوئے ہیں۔کینسر میں بھی ایسا ہی ہوگا۔اس کے لئے وقت لگے گا۔
سابقہ حادثات سے سبق :۔ سابق کے دردناک حادثات نے کئی سبق دئے ہیں۔ جیسے کہ ملیریا کاانکشاف ہوااور لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوکر مرنے لگے تو شہروں میں UndreGround Drainage شروع کرنے کی بات سوچی گئی اور اس پر عمل کیاگیا۔ مرض ہیضہ کے پھیلاؤ کے بعد پینے کے پانی کی ٹنکی کو ڈھانکنے کا آغاز ہوا۔ ایڈز کے پھیل جانے کے بعد Disposable Syringe کانظا م اختیار کیاگیا۔ اور ایک دوسرے کو خون دینے کے معاملے میں اس نظام کو سختی سے لاگو کیاگیا۔
کورونا کی ہلاکتیں بھار ت میں:۔ کورونا سے سارے بھارت میں 700سے بھی کم ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ جو اس بات کاثبوت ہے کہ ہم اس مرض کے پھیلاؤ کوروکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سابق میں ہم نے Small Poxکو دیگر ممالک سے پہلے اپنے ملک بھارت سے جڑسمیت نکال پھینکا تھا۔ یہاں تک کہ 1979؁ء میں ہم نے اس کی ویکسین بنانابھی بندکردیاتھا۔ اس کے علاوہ ہم لگاتار پولیوVaccination Drive کامیابی سے چلارہے ہیں۔ حالانکہ بھار ت میں پولیونہیں ہے۔ چونکہ پڑوسی ممالک میں یہ مرض ہے اسلئے احتیاطی تدابیر کے پیش نظر پولیوVaccination Drive پروگرام چل رہاہے ۔ جبکہ جذام جیسے متعدی مرض کے بارے میں آج بھارت میں بڑی مشکل سے کوئی کیس پڑھتے یاسنتے ہیں۔
دنیا کی ترقی :۔ گذشتہ 50-60سال کے دوران دنیا نے تمام میدانوں میں ترقی کی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس میں کئی ایک نئی ایجادات نے انسانیت کی بھلائی کاکام کیاہے جس کی بدولت ہی آج کل ڈاکٹرس اوپن ہارٹ سرجری اور Complicated Brain Surgeries آسانی کے ساتھ کررہے ہیں۔ ایک انسان کے اعضادوسرے انسان میں پیوست کرنے کاعمل Transplantation of Organs کہلاتاہے۔ گردہ اور جگر کے Transplantation وغیرہ میں خوب خوب ترقی ہوئی ہے۔اور یہ ایک ایسی ترقی ہے جو گذشتہ دوڈھائی سو سال کی ترقی سے زیادہ ہے۔ پہلی جنگ عظیم (1918-1922)میں ایک اندازے کے بموجب 2کروڑ سے زائد افراد کی موت (جنگ سے نہیں ) فلو سے ہوئی۔ جویورپ میں Spanish Flu کے نام سے مشہور ہے۔تعجب خیز امر یہ ہے کہ یہ اسپین میں پیدا ہوامرض نہیں تھا۔ لیکن دنیا نے اس کو Spanish Flu کے نام سے جانا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اسپین نے جنگ عظیم اول میں حصہ نہیں لیاتھا۔ وہ غیر جانبدار ملک رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اسپین میں سرگرمیاں نارمل تھیں بشمول صحافت کے۔ ایسے وقت جبکہ دنیا پہلی جنگ عظیم میں محو تھی اسپین کی صحافت (Press)دنیا کو بتارہی تھی کہ فلو کے سبب دنیابھر میں اتنی اور اتنی اموات ہورہی ہیں۔ اسی سبب ا س کانام Spanish Flu پڑگیا۔
مرض کورونا سے باہر نکل آنا:۔ توقع تو یہی ہے کہ ہم جان لیوا مرض کورونا کی ناقابل بیان تکالیف سے باہر نکل آئیں گے لیکن اس کے لئے ڈاکٹرس اورطبی ماہرین کی گائیڈ لائنس اور ان کی ہدایات پر ساری دنیا کوسختی سے عمل کرنا ہوگا۔ یہ مرحلہ لاپروائی کانہیں ہے۔ اگر مرض کی ہلاکت کونظرانداز کیاگیاتو دنیا اس کو برداشت نہیں کرپائے گی اور کروڑہاہلاکتوں کاسامناکرناپڑے گا۔ ایک عظیم فلاسفر سے گذارش کی گئی کہ دیوارپر کوئی جملہ ایسالکھیں کہ اگر اس کو خوشی میں پڑھا جائے تو غم کااحساس پیدا ہواور غم کے درمیان پڑھا جائے تو اس سے مسرت حاصل ہو۔ فلاسفر نے دیوار پر جو لکھا وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ اس نے لکھا ’’یہ وقت بھی گذرجائے گا‘‘
دنیا آج کورونا مرض سے لاپروائی کی متحمل نہیں ہے۔آپ بھی اپناخیال رکھیں اور پرامید رہیں کہ موجودہ کٹھن وقت بھی گذر جائے گا۔
٭٭٭
9448128346
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here