9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مشتاق احمد
کورونا وائرس ایک قدرتی آفات ہے اور اس سے اس وقت پوری دنیا جوجھ رہی ہے اور ہر ملک اپنے شہری کی حفاظت کیلئے اپنے طور پر ہر قسم کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس وبا نے انسانی معاشرے کو خوف و ہراس میں جینے پر مجبور کر دیا ہے ۔اب تک لاکھوں افراد اس وبا کے شکار ہو گئے ہیں اور چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں ۔دنیا بھر میں اس وبا سے مقابلہ کرنے کے لئے طبی معائنہ اور خود شاختۂ بندی کر ہی ضروری اقدامات کے طور پر اپنا رہے ہیں کہ امریکہ اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی کوئی دوا تلاش نہیں کر سکے ہیں ۔چین جہاں سے یہ وبا پھیلی ہے اس نے بھی ایک علاقے اوہان میں لاک ڈاؤن شروع کر کے ہی قابو پایا ہے ۔اس لئے اپنے ملک میں بھی یہی ترکیب اپنای گئی ۔آگر چہ کچھ دیر سے یہ قدم اٹھایا گیا لیکن ملک کے عوام نے اس وبا سے لڑنے کیلئے جو حوصلہ دکھایا ہے وہ قابل ذکر ہی نہیں بلکہ قابل تحسین ہے ۔مگر آفسوس ہے کہ ہمارے ملک کی میڈیا جو اب صرف اور صرف حکومت کی خیر خواہی اور مذہبی منافرت پھیلانے کو ہی صحافت سمجھتی ہے اور ایسا اس کی مجبوری بھی ہے کہ موجود حکومت بھی اس طرح کی روش کو پسند کرتی ہے ۔اس نے اس قدرتی آفات کو بھی مذہبی رنگ دے کر ملک میں نفرت پیدا کرنے کی مذموم سازش کی ہے ۔جہاں تک تبلیغی جماعت کی جانب سے کی گئی کوتاہی کا سوال ہے تو اس پر ٹھیک اسی طرح تبصرہ کرنے کی ضرورت تھی جس طرح دیگر مذہب کے عبادت گاہوں میں بھی لاک ڈاؤن شروع ہو جانے کی وجہ سے لوگ وہاں سے باہر نکل نہیں سکے اور انتظامیہ کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ اس کو باہر بھیج سکے ۔ایسی صورتحال میں صرف سرکاری ذرائع ہی مدگار ہو سکتے تھے ۔جیسا کہ تبلیغی جماعت انتظامیہ نے مقامی انتظامیہ یعنی نظام الدین پولس اسٹیسن کے انچارج انسپکٹر سے مل کر مسجد میں رہ گئے ملکی اور غیر ملکی افراد کو کہی دوسری جگہ لے جانے گزارش کی تھی ۔مگر اس وقت کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور جب زعفرانی میڈیا نے شور مچایا تو دہلی حکومت اور مرکزی حکومت نے جماعت کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کے سربراہ مولانا سعد اللہ قندھلوی کو بھی کوئی تدبیر کرنی چاہئے تھی اور آعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا ہوتا تو یہ نوبت نہیں آتی ۔۔لیکن اس وقت جس طرح مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ نظر آ رہی ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ۔جماعت اسلامی ہو کہ تبلیغی جماعت یہ پھر کوئی دیگر مسلکی جماعت اس سے ہمارا نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن اس وقت جماعت کے بہانے پوری قوم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ملک میں یہ غلط پیغام دیا جا رہا ہے کہ مسّلم طبقے کی وجہ سے کورونا پھیل گیا ہے یہ بات بے بنیاد اور گمراہ کن ہے ۔اس لئے مسّلم طبقے کے جو لوگ اس وقت تبلیغی جماعت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ اپنے حق میں بھی بہتر نہیں کر رہے ہیں ۔اگر تبلیغی جماعت کا عمل غیر قانونی ہوگا تو اس پر قانون اپنا کردار ادا کرے گا لیکن ہمیں اس سازش کا شکار نہیں ہونا چاہئے جو سازش کسی اشارے پر قومی میڈیا نے کی ہے ۔
در حقیقت اس وقت ملک میں چند صحافی ہیں جو حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اور وہ اپنے اپنے طریقے سے حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرنے کا صحافتی فریضہ انجام دے رہے ہیں اور اس سے حکومت کی نیند ار گئی ہے کہ لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد لاکھوں افراد دہلی کی سڑک پر نکل آئے اور بے چارے مزدور طبقے کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا اور پھر دہلی کی سرکار نے جان بوجھ کر ان غریب عوام کو دہلی سے بھگانے کی سازش کی ۔جس کو صرف ملکی چند صحافیوں نے ہی نہیں بلکہ غیر ملکی میڈیا نے بھی بھارت سرکار کی ناکامی قرار دیا ۔پھر جس طرح اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادت ناتھ اور کرناٹک کے وزیر آعلیٰ یدی رپپا نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی اس کی بھی مذمت ہونے لگی اور مدھیہ پردیش میں جی سیاسی ڈرامہ ہوا اس کو بھی چند حقیقت پسندانہ عزائم کے صحافی طول دینے میں لگے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر کافی زور شور سے حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس سے بین الاقوامی برادری میں مرکزی حکومت کی بدنامی ہوئی ہے کہ اس نے لاک ڈاؤن کے نفاذ میں کوتاہی کی ہے ۔اور غریب عوام کو جو پریشانی اچانک لاک ڈاؤن شروع ہونے سے ہوئی ہے اس پر بھی تبصرہ ہونے لگا تھا اس سے بچنے کیلئے اور ملک کے عوام کے اندر جو غم و غصّہ پیدا ہونے لگا ہے اس کا رخ بدلنے کی غرض سے یہ شو سہ جان بوجھ کر زعفرانی میڈیا کے سہارے چھوڑا گیا کہ اس وقت ملک کا مزاج کتنا فرقہ واریت کا شکار ہے اس سے ہم سب واقف ہیں ۔اس لئے تبلیغی جماعت کی اس معمولی غلطی کو ہوا دے کر پوری مسّلم قوم کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ورنہ ملک بھر کی مندروں اور گرو دوا روں میں بھی مجبور لوگ پھنسے ہوئے ہیں کہ ملک میں اچانک لاک ڈاؤن شروع کر دیا گیا اور تمام راستے بند کر دئے گئے ۔ٹرینوں بسوں اور ہوائی اڈے بھی بند کر دئے گئے ایسے وقت میں کوئی کہاں جا سکتا تھا ۔اس حقیقت کو حکومت بھی خوب سمجھتی ہے کہ اس نے قدرے تاخیر سے کورونا جیسی مہلک وبا پر فیصلہ کیا اور اچانک لاک ڈاؤن شروع ہونے سے بھی پریشانی بڑھی ہے ۔مگر اب حکومت کو اپنا چہرہ بچانا ہے اور اس کے لئے ملک کی فضا میں مذہبی منافرت پھیلانے سے زیادہ فائدہ اٹھا یا جا سکتا تھا اس لئے ملک کی بے ضمیر میڈیا نے تبلیغی جماعت کا بہانہ بناکر ملک میں قومی اتحاد کی جو مشالی فضا قائم ہو رہی تھی اس کو نقصان پہنچا دیا ہے ۔واضح رہے کہ اس وبا پھیل جانے کے بعد اتر پردیش کے بلند شہر میں ایک ہندو نعش کو مسلمانوں نے اسمسان میں آخری رسوم ادا کی تو سنکڑوں مسلمان مزدوروں کو ہندو بھائیوں نے مدد کی اور کی ہر طرح کی مدد کی ۔اس لئے ملک میں ایک ایسی انسانی ہمدردی کی فضا قائم ہو رہی تھی جو موجود سیاست کے لئے خطرہ ہے اس لئے اس قدرتی آفات کے وقت بھی فرقہ واریت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے ۔اس لئے تبلغی جماعت کی یہ غلطی قبول مگر خدا کے واسطے اس سازش کو بھی سمجھیں کہ کس منصوبے کو پورا کرنے کے لئے اچانک قومی میڈیا کا رخ مسنمانوں کی طرف موڑا گیا ہے ۔اور ایک تیر سے دو شکار کیا گیا ہے کہ ہم خود ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اورمیڈیا پوری قوم کو مورد الزام ٹھہرا کر برا در وطن کو ہم سے متنفر کر رہی ہے ۔