9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
نسرین بیگم سعودی عرب
قرآنی تاریخ کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو اقوامِ سابقہ کے عروج وزوال کے قصّے آنے والی نسلوں کے عبرت حاصل کرنے کے لیے بیان کئے گئے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں کو اپنی قوت بازو پر ناز تھا ان کا چیلنج تھا۔ ’’من أشد منّا قوّۃً‘‘ (ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے) ان کے چیلنج کا جواب دیا گیا ’’الذی خلقھم ھو أشد منھم قوّۃً‘‘ (جس ذات نے انھیں پیدا کیا ہے تو بنانے والا ان سے زیادہ طاقتور ہے) آخرکار اس ہستی نے ان کو ہوا جیسی ہلکی چیز کی ایک حرکت سے زمین دوز کردیا۔قوم ثمود کو اپنے محفوظ ٹھکانوں پر فخر تھا اسے صرف ایک آواز ’’صیحۃٌ واحدۃٌ‘‘ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
فرعون کو اپنی نہروں پر غرور تھا، خدا کے حکم سے وہی اس کے غرور کا سر نیچا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوئیں اور رہتی دنیا تک اسے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔ لوگوں کو اعتراض تھا کہ قرآن مجید میں مچھر اور مکھی جیسی حقیر چیزوں کا ذکر کیوں کیا گیا صرف نظر اس سے کہ آج سائنس مچھر کی اہمیت بتارہی ہے، نمرود جیسے جبار بادشاہ کی ہلاکت کا ذریعہ ایک مچھر ہی کو بنایا گیا۔ یمن کے بادشاہ کی فوج فیل کو ننھی منّی چڑیوں کے نت مستک کرنے پر مجبور کردیا، اللہ تعالیٰ جب چاہے اپنی جس مخلوق سے چاہے کام لے سکتا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا معیشت کی ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگی تھی۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنی بڑھتی ہوئی معیشت پر بڑا بھروسہ تھا، خدائی طاقت کو سب فراموش کر بیٹھے تھے۔ ہر ملک کے سربراہ کی کوشش تھی کہ اپنی معیشت کو ترقی دے کر دنیا کو اپنے دست نگر بنالیں۔ اس دوڑ میں مسلم ممالک بھی کچھ پیچھے نظر نہ آتے تھے حتی کہ اسلامی اقدار بھی ترقی کے نام پر پامال کی جارہی تھیں۔ غیرمسلم ممالک کے شانہ بشانہ چل کرعیاشی اور عریانیت وفحاشی کو معیشت کی ترقی کے لیے بروئے کار لانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جارہی تھی۔ کسی کو اپنے وسائل پر ناز تھا تو کسی کو اپنی فوجی قوت پر، کوئی اپنی ٹیکنالوجی پر نازاں تھا تو کوئی اپنی چالاکی ومکاریوں سے کام لے کر قوموں کو آپس میں لڑاکر سپر پاور بن بیٹھا تھا۔
کبھی کبھی خیال آتا تھا کہ عذابِ الٰہی کیوں نہیں آتا ۔ہمارے اعمال وحالات تو ایسے تھے کہ ہماری بستیاں الٹ دی جاتیں ہمارے اوپر پتھروں کی بارش برسائی جاتی مگر وہ ذاتِ عالی بڑی حلیم وکریم ہے عفوودرگزر کرتی رہتی ہے ’’ویعفوا عن کثیر‘‘ اس کا شیوہ ہے، وہ مہلت دیا کرتی ہے آخرکار قدرت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا اس کی اسی کی گرفت تنگ ہونے لگی آج اس نے دنیا کی معیشت پر ہی ہلکا سا ہاتھ ڈالا ہے، دنیا جیسے جامد ہوکر رہ گئی ہے، ہرکوئی بے بس نظر آرہا ہے۔ مچھر، مکھی اور چڑیوں کی بجائے اس نے اپنی ایک ایسی مخلوق کو آلۂ کار بنایا ہے جو بغیر Microscope کے نظر بھی نہیں آتی۔ بڑے بڑے ظالم اور متکبر بیچین نظر آرہے ہیں کوئی تدبیر گارگر ہوتی نظر نہیں آرہی عبرت حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
’’فاعتبروا یا اُولی الاَبصار‘‘ ابھی تو عذابِ الٰہی کے ہلکی سی دستک ہے اہلِ احقاف بادل دیکھ کر خوش فہمی میں مبتلا ہوتے۔’’ھذا عارض ممطرنا‘‘ جب کہ وہ عذابِ الٰہی کے آثار تھے کاش ہم لوگ ان حالات سے عبرت حاصل کریں، اسے ہلکا نہ لیں توبہ واستغفار کریں، گڑگڑائیں، ابھی بھی مہلت سمجھیں ۔معلوم نہیں یہ عذابِ الٰہی کہاں جاکر اپنی انتہا کو پہنچے گا۔ جو لوگ خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، خدارا جاگ جائیں ظالم حکمرانوں کو خدارا اپنے ظلموں کا احساس ہوجائے، مظلوموں کی آہ رائیگاں نہیں جاتی۔ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے کرتوتوں پر نظرثانی کی توفیق ہوجائے۔
اس مہربان کا یہ بھی بہت بڑا احسان ہے کہ اقوامِ سابقہ کی طرح ہم کو یکبارگی تباہ نہیں کرڈالا گیا، مہلت ملی ہوئی ہے، ابھی بھی وقت ہے ہوش کے ناخون میں گناہوں کا اقرار کرکے توبہ واستغفار کریں، اس مہلت سے فائدہ اٹھائیں، اسلامی اقدار کو اپنانے، فحاشی وعریانیت اور رقص وسرور کی محافل سجانے سے توبہ کریں۔رمضان المبارک کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، یا اللہ اس رمضان کو ہمارے لیے رحمت کاملہ کا ذریعہ بنائے۔ گناہوں سے توبہ کی توفیق عطا فرما۔
آج ان حالات میں بھی ہم خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے ہیں جن لوگوں کو سہولتیں میسر ہیں وہ گھروں میں بیٹھ کر رنگ رلیوں میں مگن ہے، کوئی فلمیں دیکھ کر وقت گذار رہا ہے، کوئی انٹرنیٹ اورموبائلوں پر اپنا قیمتی اور فرصت کا وقت برباد کر رہا ہے۔ اچھے اچھے کھانے اور ڈشیں تیار کرکے ویڈیو بناکر ان لوگوں کا مذاق اڑاتا ہوا نظر آرہا ہے جن کے بچے بھوک سے بے تاب ہیں، بنیادی ضرورتیں بھی میسر نہیں، مرنے والوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہورہا ہے، آج اگر ہمارے پاس وسائل ہیں تو ان کا بے جا استعمال کرنے کے بجائے آئندہ کی فکر کریں، اللہ نہ کرے کہ یہ مصیبت کا وقت طول پکڑ جائے، کون کون اس مرض کی گرفت میں آجائے، بہت فکر کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مصیبت سے محفوظ رکھے، عذابِ الٰہی کی زد میں نیک وبد سبھی آیا کرتے ہیں۔
اس فرصت کے وقت کو غنیمت جانیں، اپنے گھر والوں میں بیٹھ کر اسلامی تعلیمات اور بچوں کی تربیت پر دھیان دیں، صلاۃِ حاجت پڑھ کر اللہ سے رحم کی بھیک مانگیں، یا اللہ بے سہارا لوگوں پر رحم فرما، ہمیں ان کی غم خواری کی توفیق عطا فرما، ان کی پریشانیوں کو صدقہ وخیرات کے ذریعہ کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہمیں رجوع إلی اللہ کی توفیق نصیب فرما، اللہ ہماری غلطیوں کو سرکشیوں کو نظرانداز کردے، ہماری مسجدوں کو دوبارہ آباد کردے، حرمین شریفین کی رونقوں کو بحال فرمادے، یا اللہ ہم سب کو سچا اور پکا مسلمان بنادے، ان حالات کو ہمارے لیے عبرت کا ذریعہ بنادے، تمام دنیا میں چین وعافیت کا دور دورہ فرما، تڑپتی ہوئی انسانیت پر رحم فرما، رحم فرما، اے مولا تو رحم فرما۔ (آمین ثم آمین)٭٭٭
٭٭٭