9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر منتظر قائمی
اردو میں ویسے تو صحافت کے حوالے سے درجنوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ابھی بھی بہت سی دانشگاہوں میں صحافت کے حوالے سے بہت سارے تحقیقی اور تنقیدی کام ہو رہے ہیں۔ صحافت نے پیشے،فن اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بہت سی منزلیں طے کر لیں ہیں اور نئے نئے جہانوں میں کمندیں ڈالی ہیں۔جیسے جیسے نئے نئے سائنسی انکشافات ہو رہے ہیں اور آئے دن نئی ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا ہی جا رہا ہے اس کی وجہ سے صحافت میں اب پہلے کے مقابلے روزگار اور نوکری کے مواقع زیادہ ہوئے ہیں۔
پہلے صحافت ایک مشن تھا سماج، ملک اور معاشرے کی خدمت کا مگرآج صحافت ایک انڈسٹری میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ایک تجارت کا روپ دھار چکی ہے لہٰذا صحافی بھی اب میڈیا پرسن ہو چکا ہے اور اب صحافی بھی دیگر دفتروں اور اداروں کے مانندمقررہ وقت تک دفتر میں کام کرتا ہے۔ایک وقت تھا جب صحافت میں تن ، من دھن کی بازی لگادی جاتی تھی اور اسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہاجاتا تھا اور یہ حکومت اور عوام کے درمیان ایک پل کا کارنامہ انجام دیتی تھی ۔ حکومت کی غلط اور منفی پالیسیوں پر آئینہ دکھانے کا کام کرتی تھی اور مفاد عامہ کی بات کرتی تھی مگراب حالات نہ صرف یہ کہ ملکی اور قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی اور عالمی سطح پر تبدیل ہو چکے ہیں۔لہٰذا صحافت نے بھی اپنے نئے اہداف اور نئے نصب العین طے کر لئے ہیںپہلے وہ سامراجیت کے خلاف کھل کر بولتی تھی اب وہ سامراجی قوتوں کی حامی اور طرفدار نظر آتی ہے کیونکہ صحافت جب سے انڈسٹری ہوئی ہے تب سے اور دیگر تجارت اور کاروبار کی طرح سود و زیاں کی گردش کا شکار ہو کر رہ گئی جس کے سبب صحافت اپنے فرض ، منصب اور مقصد سے بھٹک گئی ہے۔
صحافت کے ایسے پر آشوب اور مایوس کن منظر نامے میں چند ایک ہی اخبار، صحافتی ادارے، نیوز چینل، نیوز پورٹل، نیوز ویب سائٹ اور چند ایک صحافی ہی قابلِ اعتماد ہیں جن سے عوام کو کچھ امید ہے ورنہ اس میدان میں بہت دور تک اندھیرا ہی نظر آ رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب سے نیوزٹی وی چینلز نے اپنی نشریات متواتر چوبیس گھنٹے کر دی ہے اس وقت سے ہمیشہ ان چینلوں کو نشر کرنے یا ٹیلی کاسٹ کرنے کے لئے خبریں درکار ہوتی ہیں۔ایسے عالم میں خبریں آئیں کہاں سے ؟ اس لئے یہ نیوز چینل خبر سازی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں اور خبروں کے نام پر ہم کو ایسے ایسے واقعات اور حادثات پروس دئے جاتے ہیں جو خبر کہلانے لائق ہی نہیں ہوتے ہیں۔ٹی وی چینلوں پر مباحثے اور سیاسی مناظرے کے نام پر ہونے والے تماشوں سے کون واقف نہیں ہے۔چونکہ فلموں کی طرح ان پیشہ ورانہ چینلوں نے بھی تما م اصول و قوانین ، اخلاقیات اور پاس و لحاظ کو بالائے طاق رکھ کر فقط اورفقط اپنی ٹی آر پی یعنی ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ کو ہی اپنا مطمع نظر قرار دے دیا ہے کیونکہ ان چینلوں کو اشتہارات دینے والی کمپنیاں چینلوں کا ٹی آر پی دیکھ کر ہی اپنا پیسہ لگاتی ہیں جس سے یہ چینل کمائی کرتے ہیں۔اس لئے ہر خبر کو یہ چینل بریکنگ نیوز بنا دیتے ہیں اور کچھ نہیں تو کم سے کم انھیں سنسی خیز ضرو ر بنا دیتے ہیں۔پہلے سرکاری نشریات یعنی ریڈیو اور ٹی وی کو سرکاری بھونپو کہا جاتا تھا جس میں سرکار کے ہر اقدام کو سراہا جاتا تھا اور اسی کاپرچار کیا جاتا تھا مگر جب نوے کی دہائی میںمعاشی نرم روی کا دور آیا اور اقتصادی اصلاحات کے تحت ملکوں کی سرحدیں کا روبار کے لئے کھول دی گئیں اور غیر ملکی کمپنیاں بھی اپنے سازو سامان کے ساتھ دیگر ممالک کے بازاروں پر قابض ہونے لگیں تو دیسی کمپنیوں کو کون پوچھنے والا ہے۔ایسے میں زندگی کے ہر شعبے میں ان بیرونی کمپنیوں کا عمل دخل بڑھنے لگا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر بڑا صنعتی گھرانہ اپنے سازو سامان کی نشرو اشاعت اور فروغ کے ساتھ ساتھ اپنی بات کو عوام تک پہنچانے کے لئے ایک نیوز چینل لے کرتجارت کے میدان میں صف آرا ہو گیا۔ان چینلوں کو یا ایسے صنعتی اخباروں کو عوامی مسائل سے کیا لینا دینا یہ تو وہی خبر اٹھائیں گے جو ان کے کام کی ہواس لئے آج کی صحافت اصل مسائل سے پردہ پوشی کرنے لگی۔
ایسے ہی تمام مسائل اور مباحثے ڈاکٹر حسن مثنیٰ کی کتاب ـ’’میڈیا ، قانون اور سماج‘‘ میں زیر بحث آئے ہیں۔انھوں نے برسوں صحافت کے دشت کی سیاحی بھی کی ہے اس لئے ان کا تجربہ اور میلان ادب سے لے کر ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخباری صحافت تک پھیلا ہوا ہے۔میرے ساتھ انھوں نے برسوں آل انڈیا ریڈیو، نئی دہلی کی اردو سروس میںبطور نیوز ٹرانس لیٹر اور ریڈر کے خدمت انجام دی ہے جہاں خبروں کا متن انگریزی زبان میں دستیاب ہوتا ہے جس کو اردو زبان میں منتقل کر کے اور بعض دفعہ ایڈٹ کر کے پڑھا جاتا ہے۔ ریڈیو میں برسوں خدمت انجام دینے کی وجہ سے وہ اس کے تمام پہلوؤں سے واقف تھے اس لئے جب ۲۰۰۶ ء میں ان کی کتاب ’’ ریڈیو نشریات: آغاز و ارتقا ‘‘ منظر عام پر آئی تو اس میں ریڈیو کے تکنیکی گوشوں سے لے فنی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر سمعی پہلوؤں پر خاظر خواہ بحث کی گئی۔ریڈیو کی ایجاد اور ابتدا سے لے کر اس کے ارتقاء اوراس کے بعد ہندوستان میںریڈیو کے آغاز و ارتقا ء کو سلسلے وار پیش کیا گیا۔ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگراموں کی زبان، ان کے تقاضے حدود اور امکانات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ریڈیو ایک زمانے میں اتنا ہی مقبول تھا جتنا کہ آج کے دور میں ٹی وی چینلز ۔ موصوف اس حوالے سے کتاب میں رقم طراز ہیں کہ :
’’ریڈیو اپنی افادیت اور معنویت برقرا ر کھنے میں آج بھی اسی طرح کامیاب ہے جیسا کہ پہلے تھا۔یہ ایسا ذریعہء ابلاغ ہے جس کے ذریعہ مختلف قسم کی اطلاعات ، خیالات، تجربات،نظریات، علوم و فنون ، تفریحی مواد، حالات حاضرہ ، عوامی مسائل اور دیگر بہت ساری معلومات نہایت تیز رفتاری سے ہمیں موصول ہوتی ہیں، خصوصی طور پر ریڈیو نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو بہت فروغ دیا ہے ۔خواہ اس میں شعر و ادب ہو یا موسیقی یا پھر دوسرے علوم و فنون سبھی کی اعلیٰ قدریں ریڈیو کی مرہون منت ہیں۔‘‘ (۵۱)
پوری کتاب میں ریڈیو نشریات فن، تکنیک کے حوالے سے کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے جو تشنہ ہو یا جس کے متعلق یہ کہا جائے کہ مصنف نے فلاں گوشے پر نظر نہیں دوڑائی ۔کتاب کے متن اور مواد سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگراموں میں رواں نشریات، رواں تبصرے سے لے کر خواتین، اطفال ، نوجوان اور کسانوں تک سے متعلق ریڈیو نشریات، ریکارڈیڈ پروگرام میں فلمی نغموں سے لے کر لوک اور کلاسکی موسیقی کے پروگرام سب کے فنی تکنیکی اور سمعی پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے۔ جہاں جہاں تصاویر کے ذریعہ کچھ قاری کو رہنمائی کرنے کی ضرورت پیش آئی وہاں پر مصنف نے ریڈیو ارکائیوز ، ریڈیو لائبریری اور نیشنل ارکائیوز تک سے مصنف نے قاری کے لئے تصاویریں دستیاب کرائی ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ جس طرح پیشہ ور ڈرامہ کمپنیاں بہت سے ایسے مناظر جو اسٹیج پر ممکن نہیں تھے اس کو فن اور تکنیک کی مدد سے ایک زمانے تک انجام دیتی رہیں اسی طرح ریڈیو نشریات میں بھی وہ مناظر یا آوازیں، حرکات اور سکنات جن کاآنکھوں کے بجائے سماعت کے ذریعہ احساس یا باور کرانا تھا اس کو فن اور تکنیک کا سہارا لے کر سامعین تک پہنچایا۔اس کے باوجود بھی ڈرامہ کے اسٹیج اور ریڈیو کی دنیا میں کچھ ایسے مناظر، آوازیں اور حرکات و سکنات دونوں کے دائرے یا حصار میں نہ آسکے اور آنے والے زمانے میں ان کے لئے فلم ، سنیما اور الکٹرانک میڈیا یا ٹی وی چینلوں کا سہارا لیا گیا اور وقت کے ساتھ ان کے حلقوں میں اضافہ ہوا۔ زبان کی اہمیت ان میڈیم میں اس لئے بڑھ جاتی ہے کیونکہ دونوں ہی میڈیم میں سامعین یا ناظرین کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے یعنی یہ ہر ایک طبقے سے ہوگا لہٰذا زبان ایسی ہو جسے ایک ان پڑھ گنوار آدمی سے لے کر پڑھا لکھا آدمی سب بڑی ہی آسانی سے سمجھ لیں۔چنانچہ اس امر کی جانب توجہ دلاتے ہوئے مصنف کا کہنا ہے کہ
’’ریڈیو پروگراموں میں ایک بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کوئی نامانوس لفظ نہ استعمال کیا جائے کیونکہ سامع کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ان الفاظ کے معنی لغت میں دیکھے یا کسی اور سے پوچھے ۔ اگر ایسا ہوا تو وہ پروگرام کے متن سے تو محروم رہ جائے گا ، اس لطف سے بھی محروم رہ جائے گا جو پروگرام سے ملنے والا تھا۔ریڈیائی پروگراموں کی زبان ایسی ہو کہ ادائے مطلب میں آسانی ہو کیونکہ یہ گفتگو کا ایسا ذخیرہ ہوتا ہے جس میںلفظوں پر زور دے کر، لہجے کے اتار چڑھاؤ سے بہت ساری باتیں کہی جاتی ہیں۔ ‘‘ (۷۰)
حسن مثنیٰ نے اردو روزنامے ’راشٹریہ سہارا‘ میں ملازمت کے دوران پرنٹ میڈیاکے اصول و ضوابط اور فنی اور تکنیکی پہلوؤں سے تجرباتی طور پر آگاہی حاصل کی نیز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے زبانوں کے مرکز میں ہندوستانی زبانوں کے توسط سے ماس میڈیا ان اردو ڈپلوما کا ایک سرٹیفکیٹ کورس بھی کیا جو کہ جز وقتی کورس ہے۔ زیادہ تر طلبا جو اردو زبان سے واقفیت رکھتے ہیں۔(جاری)
وہ اس جز وقتی ڈپلوماکو رس کو اخبارات اور الکٹرانک میڈیا میں ملازمت کی غرض سے کرتے ہیں ۔دوران کورس وہ میرے استاد بھی رہے ہیں لہٰذا انھوں نے تدریس میں اپنے ان تمام تجربات اور مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سی باتیں ہم سے ساجھا کی۔میں نے اپنے مضمون کی تمہید جن نکات پر رکھی ہے وہ نقطے مصنف کی صحافت پر ایک اور کتاب ’میڈیا ، قانون اور سماج‘ میں زیر بحث آئے ہیں۔ ۲۰۰۵ ء میں حکومت کے ذریعہ لایا جانے والا حقِ اطلاعات سے متعلق قانون کسی بھی سرکاری ادارے یا سرکاری فرد سے اپنے حق یا مطالبات کے متعلق سوال پوچھنے کا ایک بہت ہی بہتر پلیٹ فارم عوام کو دیا گیا ۔ جس کا مثبت استعمال زیادہ ہو رہا ہے اور منفی برائے نام۔صحافت میں متعدد سرکاری محکموں اور دفاتروں میں کسی بھی معاملے سے متعلق انفارمیشن یکجا کر کے اسے عوام کے سامنے پیش کرنااور اس انفارمیشن کی بنیاد پر سرکار یا سرکاری محکمے کے امور کا محاسبہ کرنا قدرے آسان ہو گیا ہے۔ چناچہ مصنف اپنی کتاب ’میڈیا ، قانون اور سماج‘میں ایک مقام پر اس امر کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:
’’اس حق کے تحت اب کوئی شہری سرکاری کام کاج کے بارے میں ، اس کی اسکیموں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا اہل بن گیا ہے۔وہ ایک عرضی لکھے دس روپئے کی فیس جمع کرے ، حکومت کے اہلکار اس عرضی کا جواب تیس دنوں کے اندر فراہم کرنے کے لئے مجبور ہیں۔اس قانون کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب برسر اقتدار حکومت یا ان کے حکام کو ئی بھی فیصؒہ کرتے وقت حد درجہ احتیاط برتتے ہیں ۔ انھیں ہر وقت ڈر سا لگا رہتا ہے کہ کون کب کس قسم کی معلومات فراہم کرنے کی عرضی لگا دے اور ان کی کار گذاریوں کا راز فاش ہو جائے۔‘‘ (۵۲۔۵۳)
اس قانون کے زیر اثر کچھ لوگ عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر ان سرکاری اداروں اور ان کے سربراہان کو بلیک میل بھی کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے دباؤ میں عرضی گذار کو بھی لوٹ کھسوٹ کا کچھ حصہ دیں۔نیز اس قانون نے کچھ سرپھروں کی جان تک لے لی ہے۔ دابھولکر، پنساری، کلبرگی جیسے عوام دوست سوششل ایکٹیوسٹ اسی قانون کی زد میں آکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔صحافت کی دنیا میں حقِ اطلاعات سے متعلق قانون کسی وردان سے کم نہیں ہے کیونکہ صحافی کو پہلے سرکاری حکمراں یا افسر بہت سی باتوں یا پالیسیوں اور اسکیموں کے متعلق جواب نہیں بھی دیتے تھے تو کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا مگراب سرکاری ادارے یا حکمراں کو بہر حال جواب دینا ہی پڑتا ہے وہ بھی مقررہ مدت کے اندر ورنہ معاملہ سینٹرل انفارمیشن کمشنر یعنی سی آئی سی کے پاس چلا جاتا ہے اور اگر اس نے نوٹس لے لیا تو سرکاری ادارے پر یا متعلقہ افسر پرجوابدہی کے ساتھ ہرجانہ بھی لگایا جاتا ہے۔ بہترین ، دلچسپ اورڈاٹا سے معمور خبریں اکثر دانشور صحافی اسی قانون کا سہارا لے کر یا اس کا استعمال کر کے عوام تک پہنچاتے ہیں اس لئے صحافت کے میدان میں حقِ اطلاعات ایک بڑا ہی اہم آلہ ء کار ہے۔
جہاں تک مسابقتی ، مساویانہ یا جدید ٹکنا لوجی کا سوال ہے تو صحافت کی دنیا میںیا انفارمیشن ٹیکنا لوجی میں ایک انقلاب برپا ہے۔ آج کے دور کا انسان خبروں یا اطلاعات کے لئے فقط اخبار، ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر ہی منحصر نہیں رہا بلکہ وہ دور جدید کی ہر اس ٹیکنا لوجی کا استعمال کرتا ہے جہاں سے اسے اطلاعات فراہم ہو سکے۔حسن مثنیٰ نے ان تمام جدید آلہء کار اور نئے حربوں کا ذکر اپنی دوسری کتاب میں کیا ہے۔اس میں ایف ایم ریڈیو سے لے کر کمیونٹی ریڈیو تک پر ان کی بھر پور نظر ہے جس نے ریڈیو کے مستقبل کو کافی حد تک سنبھال کر رکھا ہے ورنہ آئے دن کی نئی نئی ٹیکنا لوجی ریڈیو کو کب کا ہضم کر گئی ہوتی۔ سرکاری ٹیلی ویژن سے لے کر پرائیویٹ ٹی وی نیوز چینل تک آج کل خبروں، اطلاعات یا اسکیم اور پالیسیوں کے مضر اثرات کو اپنے صحافتی مضمامین میں شامل ہی نہیں کرتے ۔ اپوزیشن کو بہت کم توجہ اور جگہ دینا اور عمداً حکومت کی غلط پالیسیوں، اسکیموں اور عوام مخالف اقدامات کو جائز بتا ناتاکہ حکومت سے زیادہ سے زیادہ اشتہارات مل جائیں۔یہ ایک قسم کی بڑی ہی گندی اور گھناؤنی صحافت ہے جس سے میڈیا ہاؤس مالی اعتبار سے اپنا مفاد تو سیدھا کر لیتے ہیں لیکن صحافت کا جو کام ہے وہ پس پشت چلا جاتا ہے۔آج کے الکٹرانک میڈیا کی صحافت تو دلالی کا کام کرتی ہے کیونکہ جمہوری نظام میں صحافت کو ہمیشہ حکومت مخالف ہو نا ہی چاہیئے اور اسے عوام کے مفادات کا تحفظ کر نا چاہیئے نہ کہ حکومت کا ۔
ایسے نا مساعد حالات میں مصنف نے سوشل میڈیا کو بڑی اہمیت دی ہے کیونکہ ہم اگر ان مردہ ضمیر صحافیوں اور سامراجیت کے پروردہ میڈیا ہاؤسیز کے بھروسے رہیں تو ملک ، قوم اور دنیا کی اصل تصویر ہمارے سامنے آ ہی نہیں سکتی۔لہٰذا مصنف نے اپنی کتاب میں سوشل میڈیا کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کے ساتھ ساتھ موبائل ایپس اور ڈیجٹل ڈیٹاکس کی معنویت پر بھی زور دیا ہے۔سوشل میڈیا پر موصوف اپنی کتاب ’’ میڈیا ، قانون اور سماج ‘‘ میںایک مقام پر رقمطراز ہیں کہ
’’ سوشل میڈیا کے آنے سے اخبارات اور نیوز چینلوں کی کار کردگی میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔ خبروں اور بریکنگ نیوز کے معاملے میں پہلے جو اخبارات اور نیوز چینلوں کی جو اجارہ داری تھی، وہ سوشل میڈیا کی موجودگی اور پھیلاؤ سے ختم ہو گئی ہے۔اخبار اور نیوز چینل اب اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں سوشل میڈیا ان سے بازی نہ مار لے جائے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ اب روایتی میڈیا کے لئے عوام سے کسی خبر کو چھپانا مشکل بلکہ نا ممکن ہو گیا ہے کیونکہ وہ خبر کسی بلاگ پر آ سکتی ہے یا سوشل نیٹ ورک کے ذریعہ پھیلائی جا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے دباؤ نے اس عہد کو مزید جمہوری بنانے کا کام کیا ہے ۔ ‘‘(۲۶۰)
میڈیا کے حوالے سے دونوں ہی کتابیں بڑی ہی کار آمد ہیںجن میں صحافت کے بدلتے ہوئے منظر نامے کو پیش کیا گیا ہے۔یہ کتاب صحافت کی تاریخ اور انقلابات پر ایک منظم اور مربوط دستاویز ہے جس سے اس میدان کے شناوروں کو بہت سی بیش قیمت اشیا ملنے کی توقع ہے ۔وقت نے وفا نہیں کی ورنہ ڈاکٹر حسن مثنیٰ کے قلم سے ایسے ہی نایاب موضوعات پر اور بہت کچھ دیکھنے اور پڑھنے کو ملتا۔ ادب کے بعد دوسری سب سے پسندیدہ شے مصنف کے نزدیک صحافت تھی جس کی سرحدیں بعض دفعہ ادب سے جا کر مل جاتی ہیں۔اردو میں صحافت کے حوالے سے ادھر کئی گراں قدر موضوعات اضافے ہوئے ہیںان میں یہ دونوں ہی کتابیں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔افسوس کہ یہ کہانی یہیں پر ادھوری چھوٹ جاتی ہے لیکن ان کے ذریعہ کئے گئے کاموں کا محاکمہ اور محاسبہ کا ادبی فریضہ آنے والی نسل پر فرض ہے۔
حواشی :
۱۔ ڈاکٹر حسن مثنیٰ ،’ریڈیو نشریات : آغاز و ارتقا‘، ۲۰۰۶ ء ، ایلیا پبلی کیشنز ، نئی دہلی
۲۔ڈاکٹر حسن مثنیٰ ،’میڈیا ،قانون اور سماج‘، ۲۰۱۵ ء، ایم آر پبلی کیشنز ، نئی دہلی