اخبار کی دنیا آج پریس نوٹ پر مبنی ہے، پریس نوٹ عموماً پروگرام شروع ہونے سے پہلے لکھے جاتے ہیں اس لئے یہ بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ پروگرام میں شریک نہیں ہوتے اُن کے نام سے بھی بیان جاری کردیئے جاتے ہیں ایسے ہی کل ہمارے اخبار میں بھی شائع ہوئی ایک خبر جو پریس نوٹ پر مبنی تھی اُن علماء کے نام بھی شائع ہوگئے جو اُس پروگرام میں شامل نہیںتھے۔
سیاسی دربارمیں ہر روز حاضری شاید سب کے شایانِ شان نہیں ہوتی، ایسا نہیں ہے کہ کسی بڑے سیاسی عہدے پر فائز کسی اہم رہنما سے ملنے میں کوئی ہرج ہے بشرطیکہ اس کے پیچھے قوم کی فلاح اور بہبود کا کوئی عظیم مقصد درکارہو۔ اسی لئے آقائے شریعت مرحوم مولانا کلب عابد صاحب نے ہمیشہ سیاسی رہنمائوں کی چوکھٹ پر حاضری سے گریز کرتے رہے۔ ہمیں اگر ٹھیک سے یاد ہے تو ایک بار وزیراعظم کا کوئی پیغام لے کر مولانا کلب عابد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا کہ آپ سے وزیراعظم ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے فوراً کہا کہ ’ہاں ہاں کیوں نہیں۔‘ اس پر اُن صاحب نے کہا کہ پھر آپ دہلی کب چلیں گے تو مولانا نے حیرت سے اُنہیں دیکھا اور کہا کہ’ آپ نے کہا کہ وزیراعظم مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تو میں دہلی کیوں جائوں ملنا تو اُنہیں ہے وہ جب چاہیں تشریف لے آئیں‘۔ ایسے تھے ہمارے علماء۔ وہ ایسے شاید اس لئے بھی تھے کہ وہ نہ صرف عالم تھے بلکہ پارکھ نظر بھی رکھتے تھے اس لئے کبھی اپنے ارد گرد موقع پرستوں کی جماعت کو پروان نہیںچڑھنے دیا اور نہ ہی کوئی اپنے ہی ہاتھوں سے ایسا ببول کا پیڑ لگایا جس کے کانٹے برسہابرس چبھتے رہیں اور اسی لئے بڑے بڑے سیاسی رہنما اُن سے ملنے ان کے دولت کدے پر تو آتے رہے لیکن ان کو ہر روز اپنا دامن پھیلائے فریادی بن کر کسی رہنما کے در پر جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔
آقائے شریعت مولانا کلب عابد صاحب کی ہر تحریک میں ہر لمحہ شانہ بشانہ چلنے والے آیت اللہ حمید الحسن صاحب نے آج بھی اس روایت کو باقی رکھا ہے کہ بے سبب کسی بھی سیاسی رہنما کی چوکھٹ پر ہر روز حاضری سے گریز کیا جائے، یہی ان کے شایانِ شان بھی ہے کیونکہ وہ اس وقت واحد ایسی شخصیت ہیں کہ جو ہر معاہدے اور ہر میٹنگ میں شامل رہے ہیں چاہے وہ شیعوں کی آپسی کوئی میٹنگ ہو یا شیعہ اور اہل سُنت کے درمیان کوئی اہم میٹنگ۔ ان کے علاوہ آج کوئی ایسا نہیں جس کو یہ امتیاز حاصل ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ مولانا حمیدالحسن صاحب کے سیاسی رہنمائوں سے مراسم نہیں ہیں، ان کا ایک بڑا حلقہ گجرات میں ہے جہاں وہ بیحد مقبول ہیں، انہوں نے برسوں وہاں تقریریں ہی نہیں کیں بلکہ مراری باپو جیسے تمام کئی اہم اہل ہنود کے ساتھ ڈائس بھی شیئر کیا ہے وہ گجراتی زبان سے بھی خوب آشنا ہیں جس کی وجہ سے وزیراعظم نریندر مودی سے قربت فطری ہے ایسے ہی ممبئی کے جس حلقے سے اترپردیش کے گورنر رام نائک جی آتے ہیں وہاں ساکنی جیسے علاقوں میں ان کی مقبولیت کسی سے کم نہیں پھر لکھنؤتو ان کا اپنا شہر ہے یہاں وہ نہ صرف تقریباً 50 برسوں سے مدرسہ ناظمیہ کے قدیم عشرے کو خطاب کررہے ہیں بلکہ واحد شخصیت ہیں جن کے دانشور حضرات بھی قدرداں ہیں اور کیوں نہ ہوں؟ شاید وہ یک وتنہا ہیں جنہیںیہ شرف حاصل ہے کہ ایک قلم سے مذہب اور انسانیت کی 27 قسطیں لکھ ڈالیں جن کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، اُن کے حکومت ہند کے ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ، نائب وزیراعلیٰ پروفیسر دنیش شرما، پروفیسر ریتا بہوگنا جوشی سے لے کر تمام مختلف پارٹی کے رہنمائوں سے ذاتی تعلقات کا ہونا لازمی ہے لیکن آج تک ان کو اپنے ان تعلقات کا فائدہ اپنے یااپنے مصاحبین کے لئے کبھی اٹھاتے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
یہ تفصیل اس لئے لکھنی پڑی کہ کل ہمارے اخبار میں پہلے صفحہ پر ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں تمام مولانا کے ساتھ آیت اللہ حمید الحسن صاحب اور اُن کے فرزند مولانا فرید الحسن صاحب کا نام بھی شائع ہوا کہ وہ بھی ملاقات کرنے والے مولانائوں میں شامل تھے۔ اس خبر سے نہ صرف آیت اللہ حمید الحسن صاحب بلکہ ان کے فرزند مولانا فرید الحسن صاحب اور ان جیسے تمام باوقار لوگ جو ہر روز سیاسی درباروں میں جانے کے عادی نہیں ہیں، کی شخصیت کا مجروح ہونا لازمی ہے۔ اُمید ہے اسے اخبار کے محدود وسائل اور پریس نوٹ کی بدعت کے مدنظر وہ تمام حضرات درگذر کریں گے جو اس وقت موجود نہیں تھے اور ان کا نام غلطی سے شائع ہوا۔
٭٭٭
پریس نوٹ کی بدعت
Also read