[email protected]
موسی رضا۔ 9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عبدالحی
پاکستان میں اردو رسائل کی روشن روایت رہی ہے۔ یوں تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی وہاں سے کئی اہم ادبی رسائل کی اشاعت ہورہی ہے۔ سویرا،افکار، ادب لطیف، سیپ، مکالمہ، فنون،ارتقا، جیسے رسائل نے ادبی صحافت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم عصر ادبی رسائل میں آج دنیا زاد، تسطیر، لو، چہار سو، ادب لطیف، آبشار، اجرا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں سبھی رسائل کا ذکر تو ممکن نہیں پھر بھی کچھ اہم رسائل کا تذکرہ کیاجارہا ہے۔
زینت حسام اور اجمل کمال نے کراچی سے ستمبر 1989 میں ’آج‘ کا آغاز کا کیا تھا۔ سہ ماہی ’آج‘ کی اشاعت سے قبل منتخب نظم و نثر کے کتابی سلسلے کے طور سے سات مجموعے شائع ہوئے تھے۔ ذینت حسام نے پہلے شمارے کے اداریے میں بتایا تھا کہ اِس کے شمارے، سرما،بہار، گرما اور خزاں کے عنوان سے سال میں چار دفعہ چھپیں گے۔ اِس رسالے میں انتخاب کے عنوان سے کسی ایک شاعر یا ادیب کی تخلیقات پر مبنی خصوصی گوشہ شائع کیا جاتا ہے۔ اِس کے پہلے شمارے میں نیر مسعود کی تخلیقات شائع کی گئی ہیں۔ پہلے شمارے میں تاراشنکر مکھرجی، ستیہ جیت رے، اسد محمد خاں، محمد خالدا ختر، افضال احمد سید، نسرین انجم بھٹی وغیرہ کی تحریریں شامل ہیں۔ رسالے میں عالمی ادب سے انتخاب بھی تواتر سے شائع ہوتا رہا ہے۔ اجمل کمال نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ انھوں نے آج کے باضابطہ آغاز سے قبل 1981 میں اسے کتابی سلسلے کے طور سے شروع کیا تھا لیکن مالی حالات نے اِس رسالے کا تسلسل برقرار رکھنے کی اجازت نہیں دی اور رسالہ بند ہوگیا۔ بعدمیں 1989 میں اِسے شروع کیا گیا۔ آج میں غزلیں نہیں چھپتی ہیں اور شعری تخلیقات کے نام پر صرف نثری نظموں کو جگہ ملتی ہے۔ اجمل کمال فکشن پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ انھوں نے مارکیز ، میلان کنڈرا اور نرمل ساہنسی وغیرہ پر خصوصی شمارے نکالے۔ عربی و فارسی کہانیاں، کراچی کی کہانی، ہندی کہانی اورناول بالوں کا گچھا، گینڈاپہلوان شائع خصوصی شمارے تاریخی و دستاویزی نوعیت کے حامل ہیں۔ کتابی سلسلہ ’دنیازاد‘ ہر چار مہینے پر کراچی سے شائع ہوتا ہے۔ڈاکٹرآصف فرخی نے اکتوبر 2008 میں اِس کا پہلا شمارہ شائع کیا تھا۔
آج میں ادبی تخلیقات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ تنقیدی مضامین بہت کم چھپتے ہیں۔ ساتھ ہی خطوط کا کالم بھی نہیں ہے۔ اِس میں سماجی موضوعات پر بھی معیاری مضامین شائع ہوتے ہیں جوآج کے دیگر رسالے سے منفرد قرار دیتے ہیں۔ گمنام تحیروں کی دوبارہ اشاعت بھی اِس رسالے کا اہم کارنامہ ہے۔ آج کی اشاعت کو 28 سال ہوگئے ہیں اور اب بھی یہ سالہ ادب نواز دوستوں میں مصروف ہے۔ اجمل کمال کا انتخاب آج کی شناخت ہے۔
دنیا زاد کے اداریے بڑے علمی اور فلسفیانہ ہوتے ہیں۔ شمارے میں عالمی ادب اور دیگر زبانوں کی معیاری تحریروں کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ آصف فرخی نے اکیسویں صدی کی رنگ بدلتی دنیا کا بڑے قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور ان رنگوں کی آمیزش سے تحریر کردہ تخلیقات کو دنیازاد میں جگہ دی ہے۔ آج کا شاعر و ادیب جس کرب اور گھٹن میں زندگی گزار رہا ہے وہ سب دنیازادکے صفحات پر بکھرے ملیں گے۔ دنیا زاد کے ہر شمارے کا ایک نام بھی ہوتا ہے۔دنیازاد ادبی رسائل کی دنیا میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ قاسم یعقوب دنیازاد پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
دنیازاد ایک ایسی کھڑکی ہے جس نے اردو کی تنگ فکری فضا کو باہرکی وسیع تخلیقی اور تنقیدی دنیا سے جوڑ رکھا ہے۔ عموماً اس کام کو ترجموں کی شکل میں پورا کیا جاتا ہے مگر دنیازاد میںانگریزی اور دنیا کی دیگر دوسری زبانوںمیںا علیٰ ادب کے مسائل پر ڈھیر ساری بحث بھی ملتی ہے جس سے اردو لکھاریوں کی براہِ راست شمولیت سے اِس پرچے کے قد میں اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر دنیازاد کا مزاج فکشن کی طرف ہے۔ خالص تنقیدا ور شاعری دوسری ترجیح میں شمار لگتی ہیں۔ (قاسم یعقوب، ویب سائنس درشن، ستمبر 2017)
نئے ادب کے ترجمان کے طور پر فیصل آباد سے قاسم یعقوب نے ادبی رسالہ ’نقاط‘ کا آغاز کیا تھا۔ ابھی تک اس کے 15 شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ قاسم یعقوب خود بھی شاعر، ناقد اور کالم نگار ہیں اور ادبی رسائل کی تاریخ اور تنقید پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے رسالے میں اس بات کا خیال رکھاہے کہ رسالہ عام رسالوں سے ہٹ کر ہو اور قاری کو یکسانیت کا احساس نہ ہو۔ یہ 500 صفحات پر مشتمل ضخیم رسالہ ہے۔ رسالے میں عالمی ادب، تراجم، شعری و نثری تخلیقات کے علاوہ خصوصی مطالعہ کے تحت کسی ایک شاعر یا ادیب کا تعارف اور اس کی تحریریں پیش کی جاتی ہیں۔ اکتوبر کے تازہ شمارے میں قاسم یعقوب نے موجودہ ادبی صحافت پرہی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ادبی صحافت سے اردو حلقے کی بے اعتنائی پر شکوہ بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ آج ادبی رسالوں کا قاری وہ ہے جو ادبی دنیا سے وابستہ نہیں ہے بلکہ وہ عام سماجیات اور دوسرے میدان سے تعلق رکھتا ہے۔ قاسم یعقوب نے سوشل میڈیا کی وجہ سے ادبی صحافت کے فروغ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ نقاط نئے عہد کے معیاری رسالوں میں شمار کیا جائے گا۔ نقاط میں آصف فرخی، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، تحسین گیلانی، نسیم سید، من… وغیرہ کی تحریریں تواترسے شائع ہوتی ہیں۔ نقاط میں موجودہ ادب کے حوالے سے کئی اہم مسائل پر علمی بحثیں شائع ہوئیں۔ اس کا نظم نمبر اور عالمی ترجمہ نمبر بہت مقبول ہوا۔
معروف شاعر اور نقاد نصیرا حمد ناصر نے 1997 میں سہ ماہی ’تسطیر‘ لاہور کا آغاز کیاتھا۔ یہ رسالہ اپنی گوناگوں خصوصیات کے لیے جانا جاتا ہے۔ رسالے کااداریہ اور پیش کش بہت شاندار ہوتا ہے۔ نصیر احمد ناصر خود بھی اچھے شاعرہیں اور ان کی نثری نظمیں بہت پاپولر ہوتی ہیں۔ سمندر رازداں گر ہوتا جیسی شہرہ آفاق نظم کے خالق نے تسطیر جیسا ادبی رسالہ نکالا تو ہند و پاک کے سبھی ادیبوںا ور شاعروں نے اس رسالے کا استقبال کیا۔ تسطیر نے ادبی گروپ بندی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ تسطیر میں نئے لکھنے والوں کو بھی جگہ دی گئی۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے بھی قلمکاروں کا تعاون اس رسالے کو حاصل رہا۔ ترنم ریاض، ذوقی، ذکیہ مشہدی، مناظر عاشق ہرگانوی، زبیر رضوی، صلاح الدین پرویز وغیرہ کی نگارشات تسطیر میں نظر آجاتی ہیں۔ ادب میں نئے اور تازہ رجحانات کو پروان چڑھانے میں تسطیر کامیاب رہا۔ 2012 میں یہ بند ہوگیا تھا لیکن کچھ مہینوںبعد اسے کتابی شکل میں دوبارہ شروع کیاگیا۔ رسالے میں اردو ادب کے سبھی اصناف کو شامل کیا جاتا ہے۔ انٹرویو میں ادیبوں اور شاعروں کے دلچسپ جوابات متاثر کرتے ہیں۔
راولپنڈی سے نکلنے والا ماہنامہ ’چہار سو‘ بھی ادبی رسائل کی دنیا میں منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اِس رسالے کا ہر شمارہ خاص نمبر ہوتا ہے۔ اگست 1997 میں اِس کا پہلا شمارہ شائع ہوا تھا جو ممتاز مفتی پر مرکوز تھا۔ سید ضمیر جعفری احمدہاشمی اورگلزار جاوید نے رسالے کو بہتر سے بہتر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اِس رسالے میں ادا جعفری، احمد فراز، اشفاق احمد، اعتبار ساجد، اعجاز پروین، بلراج کومل، پروین شاکر، دیویندر اسر، رتن سنگھ، شمیم حنفی، منور رانا، سید ضمیرجعفری، شموئل احمد، مجتبیٰ حسین، محمود شام، محمود ہاشمی، مرزا حامد بیگ، نند کشور وکرم، مشرف عالم ذوقی وغیرہ پر خصوصی نمبر شائع کیے ہیں۔ حال ہی میں چہار سو کا گلزار دہلوی کی حیات و خدمات پر خصوصی شمارہ شائع ہوا ہے۔ یہ رسالہ اردو ادب کی حقیقی خدمت کا ثبوت ہے۔ اِس کے مدیر رسالے کو ترتیب دے کر اسے اردو قارئین کو مفت میں ارسال کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے تمام شمارے آن لائن بھی دستیاب ہیں جنھیں کوئی بھی ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھ سکتا ہے۔ ’چہار سو‘ نے کچھ گمنام شعرا اور ادبا پربھی خصوصی گوشے شائع کیے اور ادبی دنیا سے انھیں روبرو کرایا ہے۔ چہار سو کی خدمات پر معروف ناول نگار مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں:
میں ایک ایسے ادبی پرچے کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جس کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا۔ پچیس برس سے باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے لیکن حیادار اتنا ہے کہ شرم و حیا کا مارا جان بوجھ کر گمنامی کے پردے میں روپوش رہتا ہے اور یہ گلزار جاوید کا چہار سو ہے جس کے بانی مدیر اعلیٰ سید ضمیر جعفری ہیں یعنی بعد از مرگ بھی ادارت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ گلزار جاوید جن سے آج تک ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا کوئی نہایت نستعلیق نوعیت کے گاڑھی اردو بولنے والے صاحب ہیں۔ کچھ سرپھرے سے بھی لگتے ہیں کہ پچپن برس تک ایک ادبی پرچہ باقاعدگی سے شائع کرتے جانا کسی صاحب عقل و خرد کا کام نہیں ہوتا۔ اِس پرچے میں ہم ایسے ادیبوں اور شاعروں کو پڑھتے ہیں جن میں سے اکثر کے نام سے بھی کم ازکم میری واقفیت نہیں ہوتی۔ اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں ہندوستان کے اردو ادیبوں کی بھی مناسب نمائندگی ہوتی ہے یعنی یہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اردو زبان کا ایک مستحکم پُل ہے۔ (مستنصر حسین تارڑ ، رونامہ نئی بات 25مئی 2016)
چہار سو آج بھی پوری شان کے ساتھ جاری ہے اور ادیبوں و شاعروں کی پزیرائی کررہا ہے۔
احسن سلیم نے جنوری تا مارچ 2010 کے شمارے سے سہ ماہی ’اجرا‘ کا آغاز کیا تھا۔ احسن سلیم نے اس رسالے کو بہتر بنانے کی اچھی کوشش کی ہے۔ اجرا موجودہ ادبی صورتِ حال، موجودہ مسائل اور ادب کی اہمیت پر کھل کر گفتگو کرتا ہے اور قارئین کے سامنے ادب کے موجودہ منظرنامہ پر بحث و مباحثے کی دعوت دیتا ہے۔ اِس کے مدیر احسن سلیم کا گذشتہ برس انتقال ہوگیا تھا لیکن رسالہ اب بھی جاری ہے اور حال ہی میں اس کا 25واں شمارہ منظرعام پرآیا ہے۔ رسالے میں انٹرویو، مشرق و مغرب، فلک آثار، سخن سخن، داستان سرا، دل آویزیاں، وسعت بیان جیسے مستقل کالموں سے مزین اجرا آج بھی اردو حلقے میں مقبول ہے۔ اجرا میں سماجی ناہمواریوں اور ادبی منافقتوں پر لکھے اداریے پڑھنے سے متعلق رکھتے ہیں۔
یہاں محض چند رسائل کے تذکرے پر اکتفاکیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی اچھے رسائل پاکستان سے شائع ہورہے ہیں۔ مکالمہ (مبین مرزا)، ارتقا (محمد علی صدیقی، اسالیب (تنزیل عنبر)، سمبل (علی محمد فرشی)، ادبیات (محمد عالم بٹ)، کہانی کار (احمد اعجاز)، سویرا (محمد سلیم الرحمن)، کولاژ (شاہدہ تبسم)، تناظر (ایم خالد فیاض)، مباحث (تحسین فراقی) اور سلیم فواد کنڈی کا رسالہ ’آبشار‘ادبی صحافت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور اردو ادبی صحافت پر طاری جمود کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ رسائل کی ترتیب و پیش کش سے زیادہ اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آج اردو کا قاری کہاں ہے اور اسے کس طرح اردو رسالوں اور کتابوں سے جوڑا جائے۔ یہ بات درست نہیں کہ اردو کا قاری ختم ہوگیا ہے۔ اردو قاری ختم نہیں ہوا ہے بلکہ گم ہوگیا ہے۔ ہمیں اسی گمشدہ قاری کی تلاش کرنی ہوگی تب ہی اردو رسائل کا روشن دور واپس آئے گا۔
شاہین باغ، نئی دہلی
٭٭٭٭٭٭