وقار رضوی
چینل پر یکایک سادھوئوں کی بھرمار دیکھ کر یقین ہوگیا کہ دو تو سادھو ہی تھے جن کے مارے جانے پر ایک شور برپا ہے لیکن وہ تیسرا کون تھا جس کا اس فسانے میں کوئی ذکر نہیں؟ جبکہ اسی بھیڑ نے اُن دو ساتھیوں کے ساتھ اس تیسرے کو بھی بالکل اُسی طرح مار ڈالا، جس طرح ان دو سادھوئوں کو مارا، کیا اس تیسرے کی جان کی کوئی قیمت نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح ایک بھیڑ نے کبھی اخلاق کو تو کبھی پہلو خان کو مار ڈالا تھا۔
سوال تو سونیا گاندھی سے اُن دو سادھوئوں کے ساتھ اس تیسرے کے بارے میں بھی پوچھا جانا چاہئے، کیونکہ اس کی بھی جان گئی اس کو بھی اُسی بھیڑ نے مار ڈالا جنہوں نے اُن دو سادھوئوں کو مارا اس بیچار ےکی خطا تو یہ بھی نہیں تھی کہ وہ خود سے لاک ڈائون توڑکر جارہا تھا، اس کا بھی کوئی دھرم ہوگا، اس کا بھی کوئی پیشہ ہوگا، یہ ڈرائیور ہی سہی تو جس طرح سے چینل پر تمام سادھوئوں کو بلاکر سماج میں نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی، اسی طرح تمام ڈرائیور ایسوسی ایشن کے لوگوں کو بھی بلاکر تمام ڈرائیور کی ہمدردی حاصل کرکے کچھ سیاسی روٹیاں بھی سینک لی جاتیں اور سونیا گاندھی سے پوچھا جاتا کہ بتایئے آپ کی حامی حکومت نے ہمارے دو سادھوئوں اور آپ کے ایک غریب ڈرائیور کو کیوں مار ڈالا، آپ کی یہ پولیس کیا کررہی تھی، سادھوئوں کے پیچھے تو کوئی کنبہ نہیں ہوتا وہ تو سنیاسی ہوتے ہیں، تپسوی ہوتے ہیں لیکن جس ایک ڈرائیور کو آپ کی ریاستی حکومت نے مار ڈالا، اس کا پورا کنبہ بھی تو اسی کے ساتھ مرگیا، اب کون اس کے کنبہ کو کھلائے گا پڑھائے گا؟ اس کا اس فسانے میںکہیں کوئی ذکر نہیں؟
جبکہ ایک طرف آر ایس ایس چیف ڈاکٹر موہن بھاگوت کہہ رہے ہیں کہ ’’اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو پورے گروپ کو نہ لپیٹیں، پورے سماج سے دوری نہیں بنانی چاہئے‘‘ ہمارے مودی جی کہہ رہے ہیں کہ ہم سب کو مل کر ملک کو آگے لے جانا ہے، رمضان میں ہم ہر سال سے زیادہ عبادت کریں جس سے آنے والی عیدالفطر کو ہر سال سے زیادہ اس سال اچھی طریقے سے منائیں‘‘ اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کہہ رہے ہیں کہ ’’بھگوان نے جب دنیا بنائی انہوں نے تو انسان بنائے، ان کے درمیان دیواریں تو ہم نے بنائیں۔ اگر ہمارے ملک کے سب لوگ مل کر پیار محبت سے کام کریں گے تو ہمارے ملک کے آگے ساری دنیا کو جھکنا پڑے گا۔
لیکن وہ بیچارے کیا کریں جنہیں کبھی محبت ملی ہی نہیں، انہوں نے محبت کو کبھی جانا ہی نہیں، وہ تو بس نفرت میں ہی پہلے اور بڑھے کیونکہ کہتے ہیں کہ انسان جو اپنی ماں کی آغوش سے سیکھتا ہے وہ اسی کا مظاہرہ زندگی بھر کرتا ہے، اگر اس نے اپنی ماں کی آغوش سے محبت سیکھی ہے تو وہ اپنی پوری زندگی سماج میں محبت بانٹے گا اگر اسے اپنی ماں کی آغوش سے نفرت ملی ہے تو وہ پوری زندگی سماج میں نفرت ہی بانٹے گا، یہ اس کی مجبوری ہے، اس لئے اسے گالی دینے کے بجائے اس سے ہمدردی کی جائے اس سے محبت کی جائے جس سے اسے بھی محبت کا احساس ہو کہ محبت کتنی خوشنما ہے دلکش ہے، کتنا سکون دیتی ہے، سماج کو جوڑتی ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر لے جاتی ہے۔
٭٭٭