وبا اور شاعر کا درد

0
108

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

محمد شفیق

شعر کہنا اگر فن ہے تو اس کو سنانا قومی و ملی فرض ہے اور مرض بھی ۔اگر نہ سنائیں تو پیٹ پھولنے کا مرض ،اگر سنانے کے بعد داد و تحسین کا چورن نہ ملے تو بد ہضمی اور بدنظمی کا مرض ۔ اور شعر سن کے کوئی ناقدِ ناداں ناپ تول کی غلطی کر جائیں تو شاعر کے ساس نما غصے کا مرض عود کر آنے کا امکان سو فیصد ۔ یعنی مرض شاعری کا جڑوا بھائی ہے ۔ادھر لاک ڈاؤن میں جہاں خلق کثیر کو کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہیں جماعتِ شعراء ہے کو کھانا پچانے کے لیے کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ لوگوں کے ہاضمے کا تعلق اس سے ہے کہ وہ کھا کے چند قدم چل پھر لیں مگر شعراء کے ہاضمے کا تعلق اس سے ہے کہ وہ دو چار شعر کو کسی کو ضرورسنائیں ۔ اگر کوئی بہ رضا و رغبت سننے کے لیے تیار نہ ہو توجبراََ پکڑ کر سنائیں ۔ مشاہدات و واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ جس شاعر نے کھانا کھا کر دو چار شعر کسی کی سماعت پہ گراں بار نہیں کیا اور داد و تحسین کی دو چار گولیاں نہیں لیں تو جسمانی ورزش بھی ہاضمے کو سالم رکھنے میں ناکام رہی ہے ۔
اب لاک ڈاون مین بیچارے شاعر بڑے برے پھنسے ہیں ۔ وہ تو شکر ہے کہ سوشل میڈیا کی ترقی کے بعد لاک ڈاؤن کی نوبت آئی ورنہ شعر سنانے اور داس و تحسین کے حصول کی امیدیں کرونا میت کی طرح بے گور و کفن ہی دفن ہو جاتیں اور ماہرین قیاس کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ شعراء کی اچھی خاصی تعداد شعرانہ دردِ زہ کی شدت سے شہادت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ۔ گھر میں تو بیوی بچے سننے والے نہیں ہیں ۔یہاں یہ نہ سمجھئے گا کہ ’’گھر کی مرغی ساگ برابر ‘‘والی کہاوت کا معاملہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گھر والے شاعر سے زیادہ انھیں بے روزگار سمجھتے ہیں ۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ شاعری کر سوشل میڈیا پہ ڈال ۔
فیس بک کھولوتو ایسا لگتا ہے کہ برساتی شاعروں کی باڑھ آئی ہوئی ہے ۔ ابھی چند دن پہلے ایک شاعر دوست کا فون آیا جن سے ایک ایک غزل سننے کے عوض دسیوں بار چائے کی رشوت پینے کی سعادت مل چکی ہے ،وہ بڑی بے رخی سے بات کر رہے تھے مانو میں نے ان کا دیوان چوری کر لیا ہو ۔میں نے سببِ بے رخی پوچھی تو یوں گویا ہوئے ’’یار میں نے کل سے فیس بک پہ ایک غزل پوسٹ کی ہے اور تم نے لائک کمینٹ کچھ بھی نہیں کیا ؟
یہ تو چھوٹی بات ہے کچھ مہینے پہلے تو وہ اس سے بھی بڑی حرکت کر چکے ہیں ۔ہوا یوں کہ ایک بار میں فیس بک کھول کے بیٹھا تھا تو انہوں نے میرا موبائل مانگ لیا اور کچھ کرکے واپس کر دیا ۔ چند منٹ بعد نوٹیفکیشن آیا کہ ’’فلاں رپلائیڈ یور کمینٹ ‘‘ جب اس پر کلک کیا تو شاعر صاحب کا پیج کھلا جس پہ ایک غزل آج صبح ہی شئیر کی گئی تھی ،اس پہ میرے نام سے کمینٹ موجود تھا ’’ کیا زبر دست غزل کہی ہے مزہ آ گیا پڑھ کے ‘‘ یہ پڑھ کے حیرت استعجاب کے نہر میں غوطہ زن ہونے سے پہلے مناسب معلوم ہوا کہ اس کمینٹ کا جواب دیکھ لیا جائے ۔ جب دیکھا تو شاعر صاحب نے ہی میرے کمینٹ کے جواب میں لکھا تھا ’’بہت شکریہ حوصلہ افزائی کے لیے ‘‘
میں سوچ کے سمندر میں ڈوباہی تھا کہ تسلو چاچا کا خیال آ گیا کہ اگر میری جگہ وہ ہوتے تو شاعر صاحب کی اس بہادری پہ کم سے کم دھوکہ دھڑی کا مقدمہ تو کر ہی دیتے۔ تسلو چاچا لیلیٰ مجنوں کی طرح شاعر کے ساتھ لازماََ بے روزگار کا لاحقہ لگانے کا اہتمام سالوں سے کرتے آ رہے ہیں ۔ شاعروں کو دیکھ کر وہ ایسے راستہ بدل لیتے ہیں گویا وہ کرونا کا مریض ہو ۔ اتفاق سے ایک دن ان کی ملاقات ایک پرانے دوست سے ہو گئی جس کے بارے میں پتہ نہیں تھا کہ ان کو بھی کچھ دنوں سے شاعری کا مرض لاحق ہو گیا ہے ۔ انہوں نے چائے پلانے کی پیشکش کی ۔تو تسلوچاچا تیار ہو گئے ۔ چائے پینے کے دوران انہوں نے دو شعر سنا ڈالے ۔ اور جب آگے سنانے کی فرمائش کی تو تسلو چاچا ’’ارشاد ہو ‘‘ کہنے کے بجائے کانوں کے سوراخ مین انگلی ڈال کر یوں گویا ہو ئے کہ ’ ’ ایک چائے میں دو شعر سے زیادہ نہیں سن سکتا ۔
شاعری سننا بھی کام ہے تسلو
کوئی بڑی مشکل کام کاج سا
تسلو چاچا سے کل کئی دن بعد ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ جانکاہ خبر سنائی کہ کل ما سک لکھنوی کوپولیس پکڑ کے لے گئی۔ میرے استفسار پر پورے معاملے سے پردہ اٹھاتے ہوئے بیان کیا کہ ’’ کل ان گھر کے کسی فرد نے سو نمبر ڈائل کر کے شکایت کی کہ ماسک لکھنوی کئی دن سے ہم لوگوں کو جبراََ شاعری سنا رہے ہیں ۔ اور ماسک بھی نہیں لگا رہے ہیں ‘‘۔
شعر کہنا بھی تسلوگویا بے روزگاری ہے
نہ سناو تو بیماری ،سناو تو گرفتاری ہے
خیر اس لاک ڈاؤن کے بہت سے مثبت پہلوؤں میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے شعراء نے کوشش کرکے آن لائن مشاعرے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ اس کے د و بنیادی فائدے ہیں ایک تو شاعر کو سامعین کی جانب سے تحفے میں ا نڈے ٹماٹر ملنے کا ڈر نہیں ۔ اور دوسرا اگر اگھر میں انڈاے ٹماٹر کھا لیں تو بد ہضمی کا خطرہ نہیں ۔ تسلو چاچا نے تو پیش گوئی کر دی ہے کہ اگر لاک ڈاؤن کچھ دن اور بڑھ گیا تو کرونا کے خاتمے کے بعد شعری مجموعوں کی اشاعت کی وبا تیزی سے پھیلے گی ۔
7703870647ریسرچ اسکالر مانو لکھنؤ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here