9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
مبصر: محسن خان
دستگیر نواز حیدرآباد دکن کے ایک درد مند شخصیت‘ افسانہ نگار‘ شاعر اور سماجی جہدکار ہیں۔ وہ فروغ اردو کے لیے مختلف اردو کی تنظیموں کا قیام عمل میں لاتے ہوئے دن رات ادبی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ وہ اردو کے پروفیسر نہیں ہے اورنہ ہی انہوں نے کبھی اپنے آپ کو اردوکا سپاہی قراردینے کی کوشش کی ہے بلکہ وہ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے حصہ کی شمع جلائی جائے ۔انہوں نے اپناادبی سفر منی افسانے لکھتے ہوئے کیا۔ ان کا سب سے پہلا افسانہ رہنمائے دکن میں شائع ہواتھا ۔جس کے بعد وہ مسلسل مضامین‘ افسانے ‘کہانیاں اورمراسلے لکھتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے شاعری کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ ان کی غزلیں حیدرآباد کے علاوہ ملک کے مختلف اخبارات کے ادبی صفحات پرچھپتی رہی ہیں اور وہ اب اپنے پہلے شعری مجموعہ کو ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب ’’نوازشات‘‘ مختلف اخبارات ورسائل میں چھپے مضامین کا مجموعہ ہے۔جس میں زیادہ تر مضامین معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں‘ حکومت کی لاپرواہیوںاور اصلاحی مضامین کے ذریعہ لوگوں کواحساس دلانے کے لیے لکھے گئے ہیں۔۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے ارکان خاندان کے نام معنو ن کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’خوشی میں جو خوش ہوجائے ‘دکھ میں جودلاسہ دے‘ ملے تومسکرائے ‘ نہ دکھے توتڑپ جائے ۔ایسے ہی اپنے ہوتے ہیں‘‘۔ کتاب کا پیش لفظ سابق صدر شعبہ اردوجامعہ عثمانیہ فاطمہ پروین نے لکھا ہے ۔وہ پیش لفظ میں دستگیر نواز کے تعلق سے لکھتی ہیں کہ ’’اپنی پہلی تصنیف ’’اک دن سے‘‘ افسانوں کے مجموعہ سے اِس دوسری تصنیف ’’نوازشات‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ان کے قلم نے بے شمار معاشرتی مسائل کا بڑی فنکاری کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔ اپنے اطراف واکناف کے ماحول میں پھلتی پھولتی برائیاں نواز کو صرف متاثر ہی نہیں کرتیں بلکہ وہ ان برائیوں کو اجاگرکرتے ہوئے اس سے کنارہ کشی کی پرزور سفارش بھی کرتے نظرآتے ہیں‘‘۔اظہار نواز عنوان کے تحت مصنف دستگیر نواز کتاب کے متعلق رقمطراز ہیں کہ ’’ یہی کوشش رہی کہ ملک‘ شہر‘ محلہ کے حالات اورمسائل کو پیش کیاجائے اورکسی بھی طرح ا ن کا کوئی حل نکل آئے۔ یہ مضامین شہرکے تمام نامور اردو روزناموں ‘ہفت روزہ کبھی کبھار انگریزی اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں‘‘۔
کتاب میں جملہ26مضامین کوجمع کیاگیا ہے۔ جن کے عنوانات یہ ہیں۔دیکھتیں ہیں آنکھیں دکھتا ہے دل‘ سڑکیں ہی کیوں بنائی جارہی ہیں‘ تحریک آزادی سے جنگِ کارگل تک‘ گاڑی اورہیلمٹ ‘ یہ ہماری نوجواں نسل‘ رکھیئے فکر کل کی لیکن‘ نہ بن جائے شہر ہارانوں اور سائرنوں کا‘ واہ! رے نیکلس روڈ‘ آئو اب عہد کریں‘ زندگی ہماری اور رمضان ‘ نئی دنیا کی تخلیق!‘ ویلنٹائن ڈے کے ذریعہ بے حیائی کا زہرپھیل رہا ہے‘ آہ! تالاب لنگرحوض‘ زندگی اور یادیں ‘ شکوہ پنشن پورہ کا ‘ ای سیوا سنٹرس‘ تذکرہ خود کشی کا‘ جہالت‘ چندے کا دھندہ‘ ہمارے نونہال‘ کھیل سیاست کا‘ لنگرحوض کا فلائی اوور‘ جشنِ تعلیم اور بچہ مزدوری‘ چکر ٹیلی فون کا‘ دہشت گرد پارلیمنٹ کی دہلیز پر ‘جلال آباد سے حیدرآباد تک ہیں ۔یہ تمام مضامین کے عنوانات سے لگ رہا ہے کہ مصنف نے تقریباً تمام مضامین میں سماجی مسائل کااحاطہ کیاہے۔ جس میں سماجی برائیوں پرکھل کرتنقید کی گئی ہے اورساتھ ہی ساتھ حکومت ِوقت کوبھی تو جہ دلانے کے لیے مضامین لکھے گئے ہیں۔ رمضان اوردیگرمذہب سے جڑی تعلیمات پرعوام کوفکر کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ تمام تحریریں پڑھنے سے ہم کو سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کا علم ہوتا ہے۔
مصنف : دستگیر نواز
کتاب کے پہلے مضمون’’ دیکھتی ہیں آنکھیں دکھتا ہے دل‘‘میں وہ حیدرآباد میں شادی بیاہ کے موقع پرکیے جانے والے فضول خرچ اور دیگر غیرضروری رسومات کوتفصیلی طورپربیان کرتے ہوئے نظرآئے ہیں۔ وہ اس برائی کے متعلق اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ جہیز او ر ویڈیوگرافی کی وباء کیا کم تھی کہ ہم اور بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔ بیانڈ باجہ اور آتش بازی‘ ان کارشیطانی پرہم پیسہ یوں لٹارہے ہیں خدا خیر کرے‘ آتش بازی میں جلتے ہوئے پیسے دیکھ کر ہمیں توکوئی افسوس نہ ہو ‘ہاں دیوالی ضرور شرمارہی ہے‘ان بیماریوں نے اتنی شدت سے شہرحیدرآباد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جتنی شدت موسیٰ ندی میں آئی طغیانی کی خبر بھی نہ لی ہوگی‘‘ ۔ بیشک آج سارے دنیا میں حیدرآباد کی شادیوں میں جاری فضول خرچی پراظہارافسوس کیاجارہا ہے اوریہ غریب لڑکیوں کے ماں باپ کیلئے سنگین مسئلہ بنتاجارہا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں عمر کا ایک حصہ گذرجانے کے باوجود گھرمیں بن بیاہی بیٹھی ہوئی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ چند لوگوں کی جانب سے کی جارہی فضول خرچی ہے۔ ’’رکھیئے فکر کل کی لیکن‘‘ مضمون میں مصنف نے لکھا کہ’’جو لوگ آج کی فکر چھوڑ کر کل کے لیے فکرمند رہتے ہیں ۔ ان کے چہرے کی بشاشت رخصت ہوجاتی ہے۔ آج ہم بہت بے دردی سے دوڑ رہے ہیں اور مختلف قسموں کے لون وغیرہ لے کر اس کی ادائیگی میں پوری طاقت لگارہے ہیں‘‘۔اس کے علاوہ اس مضمون میں انہوں نے عوام کویہ بتایاکہ بعض بینک زیادہ سود دینے کا لالچ دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اپنی پوری جمع پونجی اس میں رکھ دیتے ہیں اورتھوڑے عرصہ بعدیہ بینک بند ہوجاتے ہیں جس سے آپ کنگال ہوجاتے ہیں اوردیگر جعلی اسکیمات کے متعلق بھی اس مضمون میں بحث کی گئی ہے۔
’’زندگی ہماری اور رمضان‘‘ مضمون میں مصنف نے رمضان کے مہینہ میں عبادتوں کے بجائے فضو ل خرچی‘ سیروتفریح‘ شاپنگ‘ عبادت سے دوری‘ چاند رات کے ہنگامے اوربیہودگی وغیرہ کوتفصیلی بیان کیا ہے۔ ’’چندہ کا دھندہ ‘‘ میں انہوں نے چندہ کے غلط استعمال کے مختلف واقعات کوپیش کیاہے۔ انہوں نے بتلایاکہ کس طرح بعض غلط لوگوں کی وجہ سے حقیقی ضرورت مند اور حقیقی خدمت گذار افراد محروم رہ جاتے ہیں۔
یہ کتاب پڑھنے سے سماج میں جاری مختلف برائیوں کا پتہ چلتا ہے اوراس میں موجود بعض اصلاحی مضامین سے ہم کو بہت کچھ سیکھنے ملے گا اورعلاقہ کاروان کے مختلف محلہ جات لنگرحوض‘ پنشن پورہ ‘گولکنڈہ وغیرہ کی بستیوں سے متعلق واقعات اور مضامین بھی اس کتاب میں موجود ہیں ۔ دستگیر نواز اردو اخبارات اور رسائل میں اپنی تحریروں کے ذریعہ شعور بیداری کی مہم میں نہ صرف لگے ہوئے ہیں بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ انگریزی اخبارات میں مختلف موقعوں پر اہم واقعات پر مراسلوں کے ذریعہ عوام کودرپیش مسائل سے حکومت کوواقف کروانے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں۔سماجی اصلاحات پرمبنی مضامین پر فکرانگیز مضامین کوجمع کرتے ہوئے اس کتاب کوشائع کرنے پر میں دستگیرنواز کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اورامید کرتا ہوں کہ وہ آگے بھی عوام کودرپیش مسائل اوران کی اصلاح سے متعلق مضامین قلمبند کرتے رہیں گے۔ 112صفحات پرمشتمل یہ کتاب دفتر فاضلہ نیاز ایجوکیشنل سوسائٹی لنگرحوض پنشن پورہ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے فون نمبر9849075958 پرربط پیدا کیاجاسکتاہے۔
موبائیل : 9397994441
٭٭٭