9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حنیف ترین
ہمیں میڈیسن میں پڑھایا گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی سماج میں 5 فیصد لوگ مجرم پیدا ہوتے ہیں، جو سماج کے اندر بدامنی اورنفرت پھیلاتے ہیں اور دنیا میں جتنے بھی جرائم ہیں،انہیں پھیلانے میں انہیں لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔دنیا میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان پانچ فیصد لوگوںمیں سے اگرکوئی بہت طاقتور ہو جائے اور وہ اپنی بے انتہا صلاحیتوں کے بل پر کسی قوم کا لیڈر ہو جائے تو یہ لوگ سیاست میںگھس کراور زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیںاور اپنے مجرمانہ ذہنیت کے بل بوتے پر اس سماج کو ہی متاثر نہیں کرتے بلکہ ان کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے۔
بہت پیچھے نہ جاتے ہوئے ہم پچھلے70سے 80سال پہلے جرمنی میں ہٹلراور اٹلی میں مسولینی کی مثال پیش کر سکتے ہیں اور پچھلے 31سال میں ہمارے سامنے سابق امریکی صدر جارج بش دوم کی بھی مثال دی جاسکتی ہے،جس نے مغربی کولونیل پاور کے ساتھ مل کرعراق اور کئی دیگر ممالک کو تباہ وبرباد کر دیا۔مصر کا فوجی آمرالسیسی اور اسرائیل کا نتن یاہو اور امریکی صدر توآج سامنے کی مثالیںہیں۔اب تو حد ہی ہوگئی ہے، امریکی صدر نے توہمیں یعنی ہندوستان کو حکم دینا شروع کر دیاہے اور ہمارے داخلی امور میں پوری طرح دخل اندازی کی جارہی ہے۔ اس کی تازہ مثال ملیریا کے خلاف استعمال ہونے والی دوا کو دھمکی دے کرہندوستان سے منگوانے کا حکم دیا ہے، جسے مودی جی نے پورا بھی کر دیا ہے۔
یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ اس نے ہندوستان میں تبلیغی جماعت سے متعلق ٹی وی چینلوں پرنفرت کی آگ بھڑکانے کے کام پرقدغن لگانے کا حکم دیاتھا، تبھی تو بی جے پی کے صدر جے پی نڈانے نفرت پھیلانے والوں کو ڈ انٹ پلائی تھی۔ مگروزیرعظم مودی نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ حالانکہ انھوں نے 4اپریل کو9 بجے تمام ہندوستانیوں سے کورونا وائرس کے ا ندھیرے کو روشنی سے بدلنے کے لئے موم بتی جلانے کی اپیل کی تھی۔ خیال رہے کہ ہمارے پردھان سیوک کا کوئی بھی کام ہندتوا کے نظریے سے ہٹ کرنہیں ہوتا۔9کا ہندسہ انہوںنے 3 جگہ استعمال کیا مگر لوگوںکو اس کے پیچھے چھپے مقصد کو نہیں بتایاکہ 40 سال پہلے ان کی پارٹی (بی جے پی) کی تشکیل 4 مارچ کو ہوئی تھی اور وہ ’جن سنگ‘ سے ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ ہو گئی تھی یعنی انہوں نے اپنی پارٹی کے چالیسویں یومِ تاسیس کے موقع پرایسے قدم اٹھائے تھے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے میڈیاپر قدغن لگانے کے لیے مودی جی آگے آتے تو کتنا اچھا ہوتا کیوں کہ یہ وقت نفرت پھیلانے کا نہیں بلکہ ملک کے تمام لوگوں کومل کر کورونا وائرس سے لڑنے کا ہے مگر کیا کیاجائے،ہمارے ملک کی ستم ظریفی یہی ہے۔یہاں تو ہر کام آر ایس ایس کو خوش کرنے کے لیے کیاجاتاہے جو، ہندوستان میں’منووادی سسٹم‘ نافذکرنا چاہتی ہے تاکہ ملک میںدوبارہ وہی قانون نافذ کیاجاسکے، جس کے ذریعہ انسانوں میں تفریق کی جائے اورجس کی وجہ سے دلتوں اور چھوٹی ذاتوں پر ان کی بالا دستی قائم ہوسکے۔ یہ بڑی ذاتیںیعنی برہمن، چھتری اور ویش ہزاروںسال سے ہندوستان پرحکومت کرتے رہے ہیں، حالانکہ ان کی تعداد ملک میں صرف 25 سے 28 فیصد ہے۔ کیا حکومت کوخبر ہے کہ جن تبلیغیوں پر کورونا وائرس کے پھیلانے کا الزام ہے، ان کا واسطہ دنیاسے کم اورآخرت سے زیادہ ہے اور ان کی تعداد محض 10 سے 15 فیصد تک ہے۔ انھیں جس طرح بدنام کیا جا رہا ہے اورذلیل کرنے کے نئے نئے طریقے اپنائے جارہے ہیں،کیا یہ کسی طرح بھی مناسب ہے؟
وزیراعظم نے ان لاکھوںلوگوں سے تو معافی مانگ لی، جو بھوک، غریبی اور نوکریوں سے نکالے گئے تھے،یا جو دہلی اور دوسری ریاستوں سے نکل کر یوپی بہار کی سرحدوں پر آگئے تھے۔مگر کیا اس معافی سے ان لوگوں کی زندگی واپس آجائے گی جو بھوکے پیاسے پیدل ہی گھرجاتے وقت راستے میں ہی دم توڑدیے یاجنھیںکئی سوکلومیٹرکاسفرپیدل ہی طے کرناپڑا!یہ منظرواقعی دل دوز تھے،اسے دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے۔ پیدل سفر کرنے ارادہ یوں ہی نہیں کیاگیاہوگا۔حالات نے انھیں اس بات کے لیے مجبورکیاہوگا۔بھوکے مرنے پرلوگوں نے پیدل سفرکوترجیح دیا، کیوں کہ حکومت نے اچانک لاک ڈاو ¿ن کاحکم صادر کردیااور یہ اعلان کردیا کہ جو جہاں ہے، وہیں رہے۔ نتیجتاً اس لوک ڈاو ¿ن سے بے شمارلوگ متاثرہوگئے۔کیا مودی جی نے اپنے اس فیصلے سے ملک کے عوام کوبڑی مشکلات میں نہیںڈال دیا ہے؟
حالانکہ ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ نے کورونا ’پنڈمک‘ کا اعلان فروری میںہی کر دیا تھا مگر ہندوستان میں 50دنوں بعد تالابندی کی گئی۔اتنی مہلت ملنے کے بعد بھی ہمارے یہاں نہ تومیڈیکل سہولتوں کوبڑھانے پردھیان دیاگیااور نہ ہی غریبوں کے بارے میں کوئی اسکیم بنائی گئی۔لوک ڈاؤن کی وجہ سے کئی لوگوں کو توکھانے کے لالے پڑ رہے ہیں۔ جو لوگ دہاڑی پر مزدوری کرتے تھے ،روزکماکر اپنا اور اپنی فیملی کا پیٹ بھرتے تھے، ایسے لوگوں کے لیے حکومت نے کیااسکیم بنائی ہے؟رکشہ چلانے والے جوروز سواریاںڈھوکر پیسے کماتے تھے اور روزی روٹی چلاتے تھے، ان کے لیے کیاکیاگیا؟ذرائع ابلاغ کے توسط سے ملنی والی اطلاعات کے مطابق لوگوں میں بے انتہابے چینی ہے۔ لوگ بھوکے مررہے ہیں۔ بعض مقامات پرپینے کے پانی اور کھانے کی ضروری اشیا بالکل ختم ہیں، وہ مدد کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کاش کوئی انھیں پیٹ بھرنے کے لیے سامان دے جائے۔ایک ویڈیومیں دیکھاگیاہے کہ ہندو بھائی کافی تعداد میںایک جگہ پھنسے ہوئے ہیں،ویڈیوکے مطابق وہ اترپردیش سے ہیں اور ذات کے پنڈت ہیں، عام دنوں میںمسلمانوں کے ہاتھ کاپانی پینا تک انھیں گوارا نہیں تھا، مگر ان حالات نے انھیں نہ صرف پانی بلکہ ان کے دیے ہوئے کھانے اورسامان کے ذریعہ زندگی بچانے پرمجبورکردیاہے۔ٹی وی اور میڈیا میں چہرے چمکانے والے سیاست داں اور لیڈران صرف بیانات سے اپناکام چلارہے ہیں، انھیں ضرورت مندوں کا نہ توپہلے خیال تھا اور نہ اب ہے۔ یہ تو صرف دھرم اورمذہب کی سوداگری کرتے ہیں۔ یہ بات جتنا جلدی ملک کے عوام سمجھ لیں گے،اتناہی اچھاہوگا۔ مجھے لگتا ہے ان واقعات اور حالات سے ہمارے ہندوستان میں مثبت تبدیلی آئے گی اور لوگ غلط اورصحیح میں تمیز کرناضرورسیکھ لیں گے!
اس وقت ہم ہندوستانی تن من دھن سے کورونا کی جنگ لڑ رہے ہیںاور جب تک ہم اس جنگ کو جیت نہیں لیتے تب تک اپنی جدّوجہد جاری رکھیں گے، چاہے ہمیں اس کے لیے اپنی جان تک کیوں نہ دینی پڑے۔ ٭٭
صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-